’بمبار کی تیاری کروائی، کابل ایئرپورٹ تک پہنچایا‘ افغان دہشتگرد شریف اللہ کا اعتراف WhatsAppFacebookTwitter 0 18 March, 2025 سب نیوز

امریکا کے تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے گرفتار افغان دہشت گرد شریف اللہ پر باضابطہ طور پر شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ خراسان (آئی ایس- کے) کو مادی مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے، جس کا تعلق 2021 کے کابل ہوائی اڈے پر بم دھماکے اور 2024 کے ماسکو کنسرٹ ہال حملے سے ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ کچھ میڈیا رپورٹس میں شریف اللہ کے کردار کی مختلف تشریحات پیش کی گئی ہیں، لیکن ایف بی آئی کا باضابطہ تحریری بیان جو شریف اللہ کے اپنے اعترافات پر مبنی ہے، ان کے ملوث ہونے کے بارے میں ایک مختلف تفصیل فراہم کرتا ہے۔

ایف بی آئی کے اسپیشل ایجنٹ سیٹھ پارکر کے دستخط شدہ حلف نامے کے مطابق شریف اللہ نے کابل ایئرپورٹ پر ایبے گیٹ بم دھماکے میں براہ راست مدد کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

میرانڈا رائٹس ختم کرنے کے بعد ایف بی آئی کے ایجنٹوں کو ایک انٹرویو میں شریف اللہ نے کہا کہ اس نے نگرانی کی تاکہ وہ خودکش بمبار کو تیار کر سکے، اور اسے ہدف بنائے جانے والے علاقے تک پہنچا سکے۔

بیان میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ شریف اللہ نے بمبار کو حملے کے مقام پر پہنچایا اور بعد میں حملہ آور کی شناخت عرفان کے نام سے ہوئی، جسے وہ قید کے دوران جانتا تھا۔
مزید برآں ایف بی آئی کی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح شریف اللہ کو بم دھماکے سے چند ہفتے قبل افغان جیل سے رہا کیا گیا تھا، اور فوری طور پر داعش نے حملے میں مدد کے لیے اس سے رابطہ کیا تھا۔

عرفان کو ایک موٹر سائیکل، موبائل فون اور سم کارڈ کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے تھے، اور حملے کی کارروائی کے دوران اس کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے ایک مخصوص سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اکاؤنٹ کھولنے کی ہدایات فراہم کی گئیں۔

شریف اللہ کے مطابق انہوں نے ایک کام (حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب) یہ کیا کہ حملہ آور کے لیے راستے تلاش کیے، خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور امریکی یا طالبان کی چوکیوں کی جانچ پڑتال کی۔

جانچ مکمل کرنے کے بعد شریف اللہ نے بتایا کہ ان کا خیال تھا کہ راستہ صاف ہے اور انھیں نہیں لگتا کہ حملہ آور کا سراغ لگالیا جائے گا، اس کے بعد بمبار کو علاقہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

تاہم گزشتہ پیر کو عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فاکس نیوز اور نیویارک پوسٹ نے خبر دی تھی کہ پارکر نے شریف اللہ کے دفاع سے زبانی طور پر اتفاق کیا تھا کہ وہ بم دھماکے کے لیے اعلیٰ سطح کے منصوبہ سازوں میں شامل نہیں تھے۔

یہ تحریری بیان کے برعکس ہے، جو اگرچہ اسے ماسٹر مائنڈ نہیں کہتا، تاہم واضح طور پر اس کے لاجسٹک اور آپریشنل کردار کی تصدیق کرتا ہے۔

یہ الجھن ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ کے کانگریس سے حالیہ خطاب کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، جہاں انہوں نے شریف اللہ کو بم دھماکے کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیا تھا، تاہم ایف بی آئی کے حلف نامے میں ان کے براہ راست ملوث ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے یہ دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔

ایف بی آئی کے بیان میں شریف اللہ کو 22 مارچ 2024 کو ماسکو کے کروکس سٹی ہال حملے سے بھی جوڑا گیا، جس میں تقریباً 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اپنے اعتراف میں شریف اللہ نے کہا کہ انہیں داعش کے معروف سینئر رہنما کی جانب سے حکم ملا تھا کہ وہ ماسکو میں حملہ آوروں کو اے کے طرز کی رائفلوں اور دیگر ہتھیاروں کے مناسب استعمال کے بارے میں ہدایات فراہم کریں۔

شریف اللہ نے اعتراف کیا کہ اس نے متعدد افراد کے ساتھ ویڈیو ہدایات شیئر کیں، اور بعد میں گرفتار حملہ آوروں میں سے 2 کو وہی لوگ تسلیم کیا، جن کو اس نے تربیت دی تھی۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان نے آزادانہ طور پر شریف اللہ کا سراغ نہیں لگایا اور اسے گرفتار نہیں کیا، یہ امریکی انٹیلی جنس تھی کہ شریف اللہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوگا اور واشنگٹن نے اسے پکڑنے اور امریکا بھیجنے میں اسلام آباد کی مدد طلب کی تھی۔

شریف اللہ پر ایک امریکی قانون کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے، یہ قانون نامزد غیر ملکی دہشتگرد تنظیم کو مادی مدد فراہم کرنے کو جرم قرار دیتا ہے، جرم ثابت ہونے کی صورت میں اسے زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

اگرچہ صدر ٹرمپ اور امریکی حکام نے شریف اللہ کی گرفتاری کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا ہے، لیکن ایف بی آئی کے سرکاری بیان اور عدالت کے ریمارکس میں تضادات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اصل کردار کی قانونی جانچ پڑتال جاری ہے۔

جیسے جیسے کارروائی جاری رہے گی، داعش کے اندر اس کی پوزیشن اور اس کے آپریشنل اثر و رسوخ کی حد کے بارے میں مزید وضاحت سامنے آسکتی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: شریف اللہ

پڑھیں:

اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ

وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔

دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹہراتا جاتا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے ہفتے کے روز طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے ہفتے کے روز پڑوسی ملک پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں، لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئی جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لیے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران، دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیر لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
  • شادی میں فائرنگ؛ فرسٹ ایئر امتحان کی تیاری  کرتی 19 سالہ طالبہ گولی لگنے سے جاں بحق
  • مجھ سے زبردستی اداکاری کروائی گئی؛ خوشبو نے درد ناک کہانی بتادی
  • حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟
  • وزیراعظم شہباز شریف 2 روزہ دورے پر ترکیہ پہنچ گئے، ایئرپورٹ پر استقبال
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
  • حج پر جانے والے عازمین کے لئے اچھی خبر
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے دورہ کابل کے بعد اہم پیشرفت، فیڈرل کنٹرول روم قائم
  • ڈی آئی خان؛ چیک پوسٹ پر خوارج کا حملہ ناکام؛ جوابی کارروائی پر دہشتگرد فرار
  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے