Express News:
2025-04-25@06:32:33 GMT

مکران ڈویژن میں تھیلیسیمیا کے مرض کا روایتی ’’علاج‘‘

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

گوادر:

’’میں اپنے والدین کا سب سے بڑا بیٹا ہوں۔ 2017 میں ایک معمولی بخار نے مجھے دو دن تک بے ہوشی کی حالت میں رکھا۔ میرے گھر والوں نے مجھے قریبی شہر تربت کے اسپتال پہنچایا، جہاں ڈاکٹروں نے مجھ میں خون کی شدید کمی کی تشخیص کی اور بتایا کہ میں تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ہوں۔ اس سے پہلے میرے دو چھوٹے بھائی بھی اسی بیماری کی وجہ سے دنیا سے جا چکے تھے۔ یہ خبر میرے والدین کے لیے کسی بڑے صدمے سے کم نہ تھی۔‘‘

یہ الفاظ 33 سالہ ظریف ہلاکو کے ہیں، جو ضلع گوادر کے سب ڈویژن پسنی کے دیہی علاقے ’’بازواجہ کلانچ‘‘ کے رہائشی ہیں۔ وہ خشک ہونٹوں اور تھکی ہوئی نظروں سے اپنا حال سناتے ہوئے کہتے ہیں:

’’تربت سے واپسی کے بعد علاقے کے لوگوں نے کہا کہ مجھے ’دلوئی‘ نامی بیماری لاحق ہوئی ہے، جس کا علاج صرف داغنے سے ممکن ہے۔ ان کے مشورے پر میرے والد نے گرم لوہے کی کیل سے میری پسلیوں کے نیچے جسم کو داغ دیا۔ اس سے پہلے میرے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ بھی یہی کیا گیا تھا، لیکن وہ بچ نہ سکے۔‘‘

’’دلوئی‘‘ کیا ہے؟

مکران کے دورافتادہ دیہی علاقوں میں ’’دلوئی‘‘ نامی بیماری کا ذکر صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ جب کسی بچے کا جسم زرد پڑ جائے، اس کا پیٹ پھولنے لگے اور بائیں پسلیوں کے نیچے شدید درد ہو، تو مقامی لوگ اسے ’’دلوئی‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے علاج کے لیے روایتی طریقوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ کھجور کے کانٹوں پر دم کیا جاتا ہے، انہیں بینگن میں لگاکر گھر کی دیوار پر آئینے کے سامنے لٹکا دیا جاتا ہے۔ بچے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ روزانہ صبح اٹھ کر 15 سے 20 منٹ تک اس بینگن کو غور سے دیکھے۔ ایک ہفتے یا دس دن بعد، جب بینگن مکمل سوکھ جاتا ہے، تو والدین کو یقین دلایا جاتا ہے کہ بچے کی ’’دلوئی‘‘ ختم ہوگئی۔

آر ایچ سی پسنی میں بطور اسسٹنٹ ہیلتھ آفیسر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر عبدالرؤف بلوچ کہتے ہیں: ’’میڈیکل سائنس میں دلوئی نامی کوئی بیماری نہیں ہے۔ یہ دراصل تھیلیسیمیا ہے، جسے دیہی علاقوں میں معلومات کی کمی کی وجہ سے ’دلوئی‘ کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی ان علاقوں میں تھیلیسیمیا کا علاج روایتی طریقوں سے کیا جاتا ہے، جیسے بچوں کے جسم کو گرم لوہے سے داغنا، جو انتہائی خطرناک اور تکلیف دہ ہے۔‘‘

خطرناک روایات

’’قندیل تھیلیسیمیا کیئر سینٹر پنجگور‘‘ کے چیئرمین خدائے نظر بلوچ بتاتے ہیں:’’پنجگور کے کچھ علاقوں میں والدین تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے جسم کو داغنے سے پہلے خود کو داغتے ہیں تاکہ بچے کا خوف کم ہو۔‘‘ یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ دیہی علاقوں میں تھیلیسیمیا جیسے مہلک مرض کو ’دلوئی‘ سمجھ کر خطرناک رسومات جاری ہیں۔

تھیلیسیمیا کی بیماری

تھیلیسیمیا کا پہلا کیس 1925 میں امریکا میں رپورٹ ہوا۔ امریکی ماہرِاطفال ڈاکٹر تھامس بینٹن کولی نے اطالوی نژاد بچوں میں خون کی کمی کی ایک خاص قسم دریافت کی، جس میں ہڈیوں کی غیرمعمولی نشوونما، تلی کا بڑھ جانا اور شدید خون کی کمی جیسی علامات شامل تھیں۔ بعد میں 1927 میں ڈاکٹر پرل لی نے اٹلی میں تھیلیسیمیا کی خصوصیات بیان کیں۔

یہ بیماری دو اقسام کی ہوتی ہے: تھیلیسیمیا مائنر اور تھیلیسیمیا میجر۔ اگر والدین کے دونوں خراب جینز بچے میں منتقل ہوجائیں تو تھیلیسیمیا میجر ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک خراب جین منتقل ہو تو تھیلیسیمیا مائنر کہلاتا ہے، جسے کیریئر کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں سرخ خلیات میں ہیموگلوبن غیرمعمولی مقدار میں بنتا ہے، جو جینز کی خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہیموگلوبن دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے: ’’ہیم‘‘ جو آئرن کا مرکب ہے، اور ’’گلوبن‘‘ جو پروٹین سے بنا ہوتا ہے۔

پاکستان میں تھیلیسیمیا کی صورت حال

ہر سال 8 مئی کو تھیلیسیمیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں تقریباً 30 کروڑ افراد تھیلیسیمیا سے متاثر ہیں، جن میں سے 10 کروڑ کو ہر ماہ ایک یا دو بار خون چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قبرص، یونان اور اٹلی جیسے ممالک میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کی جانچ لازمی ہے، جس سے اس بیماری کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے۔

تھیلیسیمیا فیڈریشن آف پاکستان کے مطابق، پاکستان میں تھیلیسیمیا کیریئرز کی تعداد 1.

1 کروڑ سے زائد ہے، جب کہ تھیلیسیمیا میجر کے مریض بچوں کی تعداد 27 لاکھ سے زیادہ ہے۔ ملک کی 6 فی صد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے اور ہر سال 5 سے 7 ہزار نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔

پاکستانی محقق ڈاکٹر عنایت الرحمان کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سال 15 ہزار بچے بی ٹا تھیلیسیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جس کی بڑی وجہ خاندانی شادیاں ہیں۔ 2022 کی ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں 98 لاکھ افراد تھیلیسیمیا سے متاثر ہیں، جو کُل آبادی کا 11 فی صد بنتا ہے۔

پاکستان میں تھیلیسیمیا کی روک تھام اور قانون سازی

پاکستان میں تھیلیسیمیا کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی باتیں تو ہوتی ہیں، لیکن اس مرض پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر کوئی جامع منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ جولائی 2016 میں سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر خان نے شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کا بل پیش کیا، لیکن دس سال گزرنے کے باوجود اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ پاکستان بیت المال نے راولپنڈی میں تھیلیسیمیا ٹیسٹ کی مہم شروع کی اور مریضوں کی رجسٹریشن کا عمل بھی آغاز کیا، لیکن اسے سنجیدگی سے نہ لیا گیا۔

کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود نے پشاور میں تھیلیسیمیا ٹیسٹ کے بغیر ڈومیسائل کے اجرا پر پابندی لگانے کی کوشش کی، لیکن قانونی اقدامات نہ ہو سکے۔ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ابتدائی اسکریننگ کے لیے قانون سازی ہوئی، لیکن عمل درآمد نہ ہو سکا۔

ڈاکٹر عبدالرؤف بلوچ کہتے ہیں: ’’قانون سازی ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو اس خاموش قاتل سے بچایا جا سکے۔ خاندانی شادیوں کی وجہ سے موروثی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، خاص طور پر بلوچستان میں۔ اگر شادی سے پہلے تھیلیسیمیا اور ایچ آئی وی جیسے ٹیسٹ لازمی ہوں تو بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ اسے معیوب سمجھتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ لوگ خود ٹیسٹ کروائیں۔‘‘

بلوچستان میں تھیلیسیمیا کی صورت حال

بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور پس ماندہ صوبہ ہے، جہاں دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات محدود ہیں۔ ناکافی انفرااسٹرکچر، طبی عملے کی کمی، کم فنڈنگ اور ادویات کی قلت کے باعث لوگ علاج کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ بلوچستان میں تھیلیسیمیا کے کیسز میں تشویش ناک اضافہ ہورہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، بلوچ آبادی میں اس کی شرح 9.1 فی صد اور پشتون علاقوں میں 5.6 فی صد ہے۔ مکران ڈویژن میں بھی یہ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی کے مطابق، بلوچستان میں ہر سال تقریباً ایک ہزار بچے تھیلیسیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی ہدایت پر سنس فاؤنڈیشن کے تعاون سے علاج کے مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سیکریٹری صحت مجیب الرحمٰن پانیزئی نے لاہور میں سنس فاؤنڈیشن کا دورہ کیا، جہاں ڈاکٹر عدنان گیلانی نے بتایا کہ ان کا ادارہ سالانہ 7 ہزار سے زائد مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتا ہے۔

مکران میں تھیلیسیمیا سے ہلاکتیں

مستری آفتاب، جو پسنی سے تعلق رکھتے ہیں، کہتے ہیں:’’میری اکلوتی بیٹی رحمتی 16 سال تک تھیلیسیمیا سے لڑتی رہی، لیکن آخر کار وہ چل بسی ۔ اس کے علاج کے لیے میں نے زیورات، جمع پونجی اور گھر تک بیچ دیا، مگر اسے بچا نہ سکا۔‘‘ غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق، تین سال میں پسنی میں 10 بچے اس مرض سے جان گنوا چکے ہیں۔

راشد یاد کا 8 سالہ بیٹا بھی گذشتہ سال تھیلیسیمیا سے انتقال کر گیا۔ وہ کہتے ہیں:’’میں نے اپنے بیٹے کے علاج کے دوران بہت سے بچوں کو خون کی بوتل دیکھ کر مسکراتے دیکھا، کیوںکہ وہ سمجھتے تھے کہ اب وہ کچھ دن اور زندہ رہ سکیں گے۔‘‘

مکران میں خون کے عطیات کے مراکز

مکران میں تین خون عطیات کے مراکز کام کر رہے ہیں: کیچ تھیلیسیمیا کیئر سینٹر (453 رجسٹرڈ بچے)، قندیل تھیلیسیمیا کیئر سینٹر پنجگور (280 بچے)، اور ہوپ فاؤنڈیشن کیئر سینٹر گوادر (230 بچے)۔ یہ ادارے بغیر سرکاری مدد کے خون کے کیمپ لگاتے اور مفت خون فراہم کرتے ہیں۔

کیچ سینٹر کے چیئرمین ارشاد عارف کہتے ہیں ’’روزانہ 40 سے زائد بچوں کو خون کی ضرورت ہوتی ہے اور  اس خون کا بندوبست ہمیں روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی ڈونر کے ذریعے کرانا پڑتا ہے، خاص کر رمضان کے مہینے میں تازہ خون کی عطیات میں کمی آجاتی ہے یا یوں کہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہوجاتا ہے، اِس دوران تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کو خون دینا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘ ارشاد عارف بتاتے ہیں،’’گذشتہ 7-8 سال میں ضلع کیچ میں 50 سے زائد بچے خون کی کمی سے مر چکے ہیں۔‘‘

قندیل تھیلیسیمیا کیئر سینٹر پنجگور کے چیئرمین خدائے نظر بلوچ کا کہنا ہے ’’ہمارے کیئرسینٹر میں عطیاتی خون نہ ہونے کی وجہ سے ہم بعض دفعہ تمام بچوں کو خون لگوانے کے لیے بذریعہ ٹرانسپورٹ کوئٹہ بھی  لے جاتے ہیں، یہاں تک کہ بچے پشاور کے پمزاسپتال بھی گئے ہیں، تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے والدین کس مپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔‘‘ ہوپ فاؤنڈیشن گوادر کے سربراہ انورعیسیٰ کہتے ہیں:’’والدین کی آنکھیں سوال کرتی ہیں کہ کیا ان کا بچہ آج خون ملنے کے بعد گھر جا سکے گا؟ یہ درد صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس سے گزرتے ہیں۔‘‘

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دیہی علاقوں میں بلوچستان میں بچوں کو خون کی وجہ سے کہتے ہیں کے مطابق علاج کے جاتا ہے سے پہلے ہوتا ہے ہر سال لیکن ا کی کمی خون کی کے لیے

پڑھیں:

بھارت کی روایتی الزام تراشی

پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پرہونے والے حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اگلے روز میڈیا کے سوالات کے جواب میں ترجمان وزارت خارجہ نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پہلگام حملے میں سیاحوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور واقعہ میں ہلاک افراد کے لواحقین سے دلی تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔

ادھرمیڈیا رپورٹس کے مطابق اگلے روز ہی پہلگام واقعہ پردہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی برائے سیکیورٹی (CCS) کا ہنگامی اجلاس ہوا۔اس ہنگامی اجلاس کے بعد بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی کو 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دی گئی ہے۔انھوں نے بتایا کہ پہلگام حملے میں25 بھارتی اور ایک نیپالی شہری ہلاک ہوا۔بھارتی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ کابینہ کمیٹی کو بریفنگ میں دہشت گرد حملے کے سرحد پار روابط سامنے لائے گئے۔ یہ حملہ یونین ٹیریٹری میں انتخابات کے کامیاب انعقاد اور اقتصادی ترقی کی طرف اس کی مسلسل پیش رفت کے تناظر میں ہوا ہے۔دہشت گردانہ حملے پر کابینہ کمیٹی نے سندھ طاس آبی معاہدہ معطل کرنے سمیت اہم اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارتی سیکریٹری خارجہ کے مطابق اٹاری چیک پوسٹ کو فوری طور پر بند کر دیا جائے گا۔ بھارتی شہری جو پاکستان گئے ہیں ‘وہ یکم مئی 2025 سے پہلے اس راستے سے واپس آ سکتے ہیں۔سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت بھارت میں موجود پاکستانی شہری 48 گھنٹوں میں بھارت چھوڑ دیں۔پاکستانی شہریوں کو سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت ہندوستان آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ماضی میں پاکستانی شہریوں کو جاری کیے گئے ویزے منسوخ تصور ہوں گے۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں دفاعی، ملٹری، بحری اور فضائی مشیروں کو پرسننا نان گراٹا (ناپسندیدہ) قرار دے کر انھیں ایک ہفتے میں بھارت چھوڑنے کی مہلت دی گئی ہے۔

بھارت اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن سے اپنے دفاعی، بحریہ، فضائی مشیروں کو واپس بلائے گا۔ متعلقہ ہائی کمیشنز میں یہ آسامیاں کالعدم ہوں گی۔ دونوں ہائی کمیشنز سے سروس ایڈوائزرز کے پانچ معاون عملے کو بھی واپس لے لیا جائے گا۔ہائی کمیشنوں کی مجموعی تعداد کو یکم مئی 2025 تک مزید کم کر کے 55 سے 30 تک لایا جائے گا۔بھارتی خبر رساں ایجنسی کے مطابق انڈین حکام نے پہلگام حملے میں بچ جانے والوں کی مدد سے تین مشتبہ حملہ آوروں کے خاکے اور ان کے نام اورعرفیت جاری کر دیے ہیں۔ ادھر بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے انڈین فضائیہ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو ایسی کسی بھی دہشتگردانہ کارروائیوں سے ڈرایا نہیں جا سکتا ہے۔ ان حملوں کا زوردار اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔

پہلگام کے واقعہ کے سلسلے میں انڈین حکومت ہر وہ قدم اٹھائے گی جو ضروری اور حالات کے مطابق ہو گا۔بھارتی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ہم صرف ان لوگوں تک نہیں پہنچیں گے جنھوں نے اس واردات کو انجام دیا ہے ہم ان تک بھی پہنچیں گے جنھوں نے پس پردہ بھارت کی سرزمین پر ایسی سازشیں رچی ہیں۔بھارتی کانگریس پارٹی کے رہنما اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے پہلگام حملے پر اپنے ردعمل میں وزیراعظم مودی پر کڑی تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر میں امن کی بحالی کے بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے حکومت کو ہر صورت اس واقعے کی ذمے داری لینی چاہیے۔

بھارتی حکومت نے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں ابھی باقاعدہ طور پر تحقیقات مکمل نہیں کی ہیں۔ نا مکمل یا ابتدائی نوعیت کی کسی تحقیق کے نتیجے میں کوئی بڑا یا حتمی فیصلہ کرنا درست حکمت عملی نہیں ہے۔ پہلگام حملہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکا کے نائب صدر بھارت میں موجود تھے۔

اس حملے کے منصوبہ سازوں کے کیا مقاصد ہیں ‘ان کے بارے میں فوری طور پر رائے قائم کرنا درست نہیں ‘پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی ایک لمبی تاریخ ہے ‘ اس پس منظر کی وجہ سے بھارتی میڈیا نے ابتدا میں ہی پاکستان پر الزام تراشی کا آغاز کر دیا۔ بھارتی میڈیا کا یہ طرز عمل صحافتی اور ابلاغی اخلاقیات اور اصولوں کے برعکس ہے‘ بھارت کے بعض نام نہاد تجزیہ نگار جن کا ریکارڈ ہی بے تکی اور بے مقصد گفتگو کرنے سے عبارت ہے‘ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پاکستان پر انگلی اٹھانی شروع کر دی۔ اس قسم کی گفتگو مسائل کو حل کرنے کی بجائے زیادہ پیچیدہ بناتی ہے اور عوام کو کنفیوژ کرتی ہے۔

پاکستان کا موقف اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس واقعہ میں مارے جانے والوں کے لواحقین سے تعزیت کی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھی اگلے روز کہا کہ وہ کشمیر واقعہ میں مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں، انھوں نے واضح کیا کہ بھارت نے پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے کوئی شواہد نہیں دیے اور اس طرح بغیر شواہد غصہ نکالنا غیر مناسب ہے،بھارت کے اعلانات میں ناپختگی اور غیر سنجیدگی نظر آتی ہے۔

بدقسمتی سے بھارت ہر واقعے کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتا ہے اور ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی بلیم گیم پاکستان کی طرف ڈالنے کی کوشش کی گئی، اگر انڈیا کے پاس شواہد ہیں تو انھیں سامنے لائے۔پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلگام واقعے سے متعلق بھارت کا پاکستان پر الزام لگانا مناسب نہیں، دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی ہو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے، جو دہشت گردی کا شکار ہیں وہ کیسے دہشت گردی کو فروغ دیں گے۔

انھوں نے کہا پاکستان کی افواج ہر جگہ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں، ہم دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔وزیر دفاع نے کہا پہلگام واقعہ میں فالس فلیگ آپریشن کی بات کو بالکل مسترد نہیں کیا جاسکتا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوال اٹھایا کہ بھارت کی سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں ہے تو بھارتی فوج سے بھی پوچھنا چاہیے، کہ اگر لوگ مارے جا رہے ہیں تو وہ وہاں کیا کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا بھارتی حکومت پہلگام واقعے کی تحقیقات کرے، صرف الزام لگانے سے ذمے داری سے جان نہیں چھڑا سکتے۔

پاکستان کے وزیر دفاع نے جو سوالات اٹھائے ہیں ‘ وہ بھارت میں بھی اٹھائے جا رہے ہیں‘ سیکیورٹی لیپس کی باتیں بھارت کے دانشور اور عوامی حلقے بھی کر رہے ہیں ‘ویسے بھی پہلگام کنٹرول لائن سے خاصی دور جگہ ہے ‘یہ جگہ خاصی محفوظ بھی سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس جگہ ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے‘ یوں دیکھا جائے تو سیکیورٹی لیپس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ اتنی اہم جگہ پر جہاں غیر ملکی اہم شخصیات بھی آتی ہیں ‘ پانچ چھ دہشت گرد جدید اسلحہ لے کر کیسے سرعام کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بھارت کو اس پہلو پر لازمی تحقیقات کرنی چاہئیں۔ جنوبی ایشیا میں ایسے گروہ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان فوجی تصادم کا شکار ہو جائیں‘ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز دونوں ملکوں میں موجود ہیں اور ایک دوسرے سے رابطے میں بھی ہیں۔

یہ بات تو طے ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی دونوں ملکوں کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور دونوں ملکوں کے عوام بھی اسے نا پسند کرتے ہیں۔ دہشت گردی پاکستان کے لیے بھی وبال جان بنی ہوئی ہے ‘ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی قیادت ہوشمندی کا مظاہرہ کرے اور اپنے ملک میں نفرتیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے‘ بھارتی میڈیا کا کردار انتہائی منفی رہا ہے۔ پاکستان کا موقف تو واضح ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے اور وہ اب تک دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے۔

 پاکستان نے بھی بھارت کے اقدامات کا جواب دیا ہے ‘پاکستان نے بھارت کے لیے فضائی حدود پر پابندی لگا دی ہے ‘پاکستان کے راستے تجارت معطل کر دی ہے۔ بھارت نے پانی کا بہاؤ روکا یا رخ موڑا تو اسے اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے یکطرفہ معطلی کے بھارتی اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو مسکت جواب دے دیا ہے۔ بھارتی قیادت کو معاملات کو زیادہ بگاڑنا نہیں چاہیے بلکہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے اس خطے میں دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہو گا اور قیام امن کا بھی راستہ ہموار ہوجائے گا۔کشیدگی میں اضافہ کسی کے مفاد میں نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کی روایتی الزام تراشی
  • توانائی نفسیات کیا ہے؟
  • وزیراعلیٰ سے فیصل آباد ڈویژن کے ارکان صوبائی اسمبلی عارف محمود گل اور آغا علی حیدر کی ملاقات
  • پنجاب: تعلیمی اداروں میں داخلے کیلئے تھیلیسیمیا اور دیگر جینیٹک امراض کا ٹیسٹ لازمی قرار
  • سندھ، بلوچستان کی ہائی ویز پر ٹریفک حادثات، خاتون سمیت 5 افراد جاں بحق، 24 زخمی
  • پنجاب؛ تعلیمی اداروں مع دینی مدارس میں داخلے کے وقت طلبا کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار
  • لوگ ہمیشہ مجھے کہتے ہیں کہ میں ماہرہ خان جیسی دکھتی ہوں، سنیتا مارشل
  • علامہ ساجد نقوی سے کے پی کے علماء وفد کی ملاقات
  • علامہ ساجد نقوی سے امامیہ علماء کونسل کوہاٹ ڈویژن کے وفد کی ملاقات
  • تھیلیسیمیا مائنر والے والدین کی شادی پر پابندی نہیں لگوا رہے، ٹیسٹ کی بات کر رہے ہیں، شرمیلا فاروقی