زرعی انقلاب، ملکی خوشحالی کی منزل
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے صوبائی حکومتوں، نجی شعبے اور دیگر اسٹیک ہولڈرزکے ساتھ مل کر پورے ملک میں فارم میکانائزیشن کو فروغ دینے کی ہدایات دی ہیں۔ وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کے امور پر جائزہ اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، حکومت زرعی شعبے کی ترقی اور زرعی پیداوار بڑھانے کے حوالے تمام سہولیات مہیا کرے گی، زرعی شعبے کی ترقی کے لیے ملک بھر سے نوجوان زرعی محققین کی خدمات حاصل کی جائیں۔
موجودہ معاشی صورتِ حال میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری زرعی درآمدات، پٹرولیم درآمدات کے لگ بھگ ہونے کو ہیں تو ان حالات میں زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت کا جائزہ لینا بنیادی ضرورت بن جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کا زرعی شعبہ بانجھ اور زرعی رقبہ قابلِ کاشت نہیں رہا یا پھر جدید وسائل کے نامناسب استعمال کی وجہ سے ہم زرعی پسماندگی کا شکار ہیں؟ ہم بے پناہ زرعی وسائل کو بروئے کار لا کر نہ صرف زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ زرعی اجناس برآمد کر کے کثیر زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔
اس وقت معاشی اور زرعی ترقی کے لیے سعودی عرب، چائنہ، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین کے تعاون سے متعدد زرعی منصوبے زیرغور ہیں جو ملک کی برآمدات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
ان شعبوں میں زراعت، پھل، سبزیاں، مال مویشی، پولٹری، ماہی گیری اور شمسی توانائی کا استعمال شامل ہیں۔ زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کا آب پاشی کا نظام ہے، جو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ پانی کی تقسیم ضرورت کے مطابق نہیں ہوتی۔ ٹیوب ویلز سسٹم بھی زیرزمین میٹھے پانی کے ضایع کا سبب بن رہاہے۔ عمدہ بیج میسر نہیں، بروقت پانی نہ ملنے سے تیار فصل تباہ ہوجاتی ہے۔ یوں کسان کی محنت، پَیسہ، کھاد، سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے نظامِ آب پاشی میں مثبت تبدیلیاں وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان میں زیتون کی کاشت بھی ہورہی ہے ، کاشتکاروں کی شمولیت سے ہم پیوند کاری میں کامیاب ہو جائیں تو پاکستان زیتون کا تیل برآمد کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ جنگلی زیتون کے علاوہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں زیتون کے باغات بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ خصوصاً پوٹھو ہارکا علاقہ زیتون کی کاشت کے لیے نہایت موزوں قرار دیا جا چکا ہے۔ چولستان کا علاقہ انگورکی کاشت کے لیے موزوں قرار دیا جا چکا ہے، جہاں انگورکی کاشت کی حوصلہ افزائی کر کے ویلیو ایڈیشن کو فروغ دیا جاسکتا ہے، اس سے نہ صرف صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ جنوبی پنجاب کے مقامی لوگوں کی سالانہ آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔
زرعی ادویات اورکیمیائی مادوں کی زیادہ قیمتوں کے باعث فصلوں کی پیداوار مہنگی ہے،کیونکہ پاکستان میں کوئی کیمیکل یا دوائی نہیں بنتی، جب کہ بھارت میں کئی ادویات تیار ہوتی ہیں۔ ہماری حکومت اگر ٹیکس ہی ختم کردے تو ان ادویات کی قیمت 30 فیصد تک کم ہو جائے گی جس کے بعد پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔
اسی طرح پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے گندم کی کھپت اور پیداوار میں فرق بڑھ رہا ہے۔ زراعت کے شعبے پر عدم توجہی اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمت بھی اس قلت کے اسباب ہیں لیکن گندم کی ذخیرہ اندوزی اور صوبائی سطح پر ناقص اسٹوریج میں 15.
پاکستان میں زرعی پیداواری صلاحیت میں اضافے اور ترقی کے لیے درست میکانائزیشن ٹیکنالوجی کا استعمال بہت اہم ہوگا، چین میں فی کس ملکیتی رقبہ دنیا میں سب سے کم، محض اڑھائی ایکڑ ہے لیکن وہاں ویلیو ایڈیشن کی مدد سے کاشت کاروں کی سالانہ آمدن بڑھائی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے وسیع تر امکانات موجود ہیں کیونکہ یہاں دیہی افرادی قوت کی کمی نہیں ہے۔ زراعت میں ویلیو ایڈیشن کو فروغ دے کرکاشت کاروں کو نہ صرف خسارے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ بے روزگاری پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
کچھ اسی طرح کی صورت حال لائیو اسٹاک کے شعبے کی ہے۔ پاکستان میں دودھ کی کل پیداوار میں بھینس کے دودھ کا حصہ آدھے سے زیادہ ہے۔ خالص اور اعلیٰ نسل کے جانوروں کی مناسب دیکھ بھال سے دودھ کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ساہیوال گائے کی اوسط پیداوار اور اس کی پیداواری صلاحیت کا فرق بھی بہت زیادہ ہے لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ نیلی راوی اور ساہیوال گائے سمیت تمام دیسی نسلوں کا دودھ صحت بخش مانا جا رہا ہے۔
پاکستان میں نیلی راوی اور ساہیوال گائے کی پیداوار بڑھا کر یورپی ملکوں میں دودھ کی برآمد کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی درآمدات میں زرعی مصنوعات کا حصہ 10ارب ڈالر ہے، اگر زراعت لائیو اسٹاک فشریزکو ترقی دی جائے تو اس میں سے 8 سے 9ارب ڈالر باآسانی بچائے جاسکتے ہیں جب کہ قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھتے ہوئے افراط زر کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں شتر مرغ کی فارمنگ سے دیہی لوگوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ خرگوش بھی انتہائی کم لاگت پر پلنے والا جانور ہے۔ یہ انتہائی تیزی سے افزائش کرتا ہے لٰہذا خرگوش فارمنگ سے صنعتی خام مال بھی پیدا ہوگا جس کی ویلیو ایڈیشن کر کے صنعتی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فش فارمنگ میں بھی غیر روایتی طریقوں کی مدد سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
خاص طور پر ایسے زرعی علاقے جہاں نہری پانی دستیاب نہیں ہے اور زیر زمین پانی کڑوا ہے، وہاں پر شرمپ فارمنگ کی جا سکتی ہے۔ شرمپ کی بین الاقوامی منڈی میں بہت مانگ ہے جسے درآمد کر کے قیمتی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر رہو مچھلی کی فارمنگ ہو رہی ہے جس کی پیداواری لاگت کافی زیادہ ہے، لیکن مچھلیوں کیکئی اقسام ایسی ہیں، جن کی پیداواری لاگت بہت کم ہے ،ان کی افزائش بھی تیزی سے ہوتی ہے اور یہ مچھلیوں کا گوشت بھی خوش ذائقہ ہے ، ان کا گوشت بھی آرگینک ہوتا ہے لیکن ابتدائی طور پر اس کے لیے تحقیق کی ضرورت ہوگی۔
زرعی شعبے میں تحقیق و ترقی (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) سب سے زیادہ نظر انداز دکھائی دیتی ہے اور پاکستان میں زراعت کا زیادہ تر انحصار ’غیر ہنرمند مزدوروں‘ پر ہے، کیونکہ ہمارا کاشتکار جدید زرعی ٹیکنالوجی یا زراعت کے جدید سائنسی طریقوں کو سمجھنے اور اِن سے استفادہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس سے کسانوں کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ مسابقتی قیمت پر اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار نہیں کر پاتے۔
فوڈ سیکیورٹی، زرعی ترقی، دیہی علاقوں کی روزی روٹی اور شہری علاقوں کی طرف ہجرت کی بڑھتی ہوئی رفتار کے حوالے سے لینڈ ڈویلپرز یا ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ذریعے زرعی اراضی کو تبدیل کرنے کے ممکنہ مضمرات پر غور کرنا ضروری ہے۔ صوبوں کے درمیان زرعی اراضی کو ہاؤسنگ سوسائٹیز یا انڈسٹریل اسٹیٹس میں تبدیل کرنے کی حوصلہ شکنی کے لیے قوانین متعارف کرانے کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔
وطن عزیز میں زرعی زمینوں کو ہموار کر کے تقریباً 50 فیصد تک پانی بچایا جا سکتا ہے، ہموار زمینوں سے پیداوار بھی 10 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ زمین کی ملچنگ، بیڈ کاشت اور ڈرپ آبپاشی جیسے جدید ذرایع سے بھی 60 فیصد تک پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ زراعت ہی ایسا سیکٹر ہے جو پاکستان کوخوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ زراعت کے بل بوتے پر خوراک کی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے، جنگلات بھی زراعت سے ہی وابستہ ہیں، پالتو مویشی بھی زراعت سے وابستہ ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو زراعت ترقی کرے گی، اسی رفتار سے گائے، بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں، اونٹ اور دیگر پالتو جانوروں اور لکڑی کی بہتات ہوگی۔ ملک میں خوراک وافر ہوگی، دودھ،گھی، گوشت اور انڈوں کی فراوانی ہوجائے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زرعی پیداوار پیداوار میں کی پیداواری پاکستان میں ترقی کے لیے کیا جا سکتا کی پیداوار جا سکتا ہے جاسکتا ہے ا سکتا ہے اضافہ کی اور زرعی اضافہ ہو فیصد تک گندم کی تیزی سے میں بھی کی کاشت کی ترقی شعبے کی
پڑھیں:
’شریف خاندان کے اقتدار میں ملکی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے‘، پی ٹی آئی رہنماؤں کی حکومت پرسخت تنقید
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے حکومت پر سخت تنقید کی ہے جب کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ شریف خاندان جب بھی اقتدار میں آتا ہے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں سیاستدان موجود ہیں، ہمیں قومی ہم آہنگی چاہیے، اپکا قومی لیڈر جیل میں پڑا ہوا ہے، ہماری قومی آہنگی آج نہیں رہی کیونکہ آپ نے ایک قومی لیڈر کو جیل میں ڈالا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپکے ملک کی اکانومی ختم ہو چکی ہے، شریف خاندان بھارت کے خلاف سخت ایکشن نہیں لے سکتا یہ اُن کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، سخت ایکشن صرف ایک شخص لے سکتا ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی ہے۔
عمر ایوب خان نے کہا کہ شریف خاندان جب بھی اقتدار میں آتا ہے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے، نواز شریف 1997 میں وزیراعظم اور میرے والد وزیرخارجہ تھے، بھارت کا Mig 25 اسلام آباد کے اوپر اُڑا اور دو دو سانک دھماکے کیے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ میرے والد نے ایئرچیف کو کا فائٹر جیٹس دہلی کے اوپر سے اڑا سکتے ہیں تو انہوں نے وزیراعظم کی اجازت مانگی، نواز شریف کی اُس وقت کانپیں ٹانگ گئی تھیں، ایٹمی دھماکوں میں میرے والد سمیت پانچ لوگ تھے جنہوں نے کہا ایٹمی دھماکے ہوں گے، وزیراعظم نواز شریف صبح کلنٹن سے بات کر رہے تھے کہ وہ ڈیل چاہتے ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ میرے والد نے کہا کہ نیوکلیئر ڈیوائسز سیل ہو چکی ہیں اب چاغی میں دھماکے ضرور ہونگے۔
عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہمیشہ بتایا گیا کہ ہندوستان سے اپنی حفاظت کرنی ہے، کل جو ایمرجنسی صورتحال پیدا ہوئی وزیراعظم اگر سنجیدہ ہو تو وہ اپوزیشن لیڈرز کو فون کرے، وزیراعظم اپیل کرے، آپ اڈیالہ جیل جائیں اور عمرآن خان سے فوری ملاقات کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کر کروا کر ایک Consensus بنایا جائے، اپوزیشن لیڈرز اس وقت ججوں کے سامنے بھٹک رہے ہوں اور جج صاحب کہتے ہیں 12 بجے آفس سے رپورٹ منگوا رہا ہوں۔
تحریک انصاف نے پانچ مطالبات رکھ دیے
بار اعوان نے کہا کہ مقدمات کے اذاد ٹرائل کئے جائیں، تمام سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کو ختم کیا جاہے
میڈیا کو اذاد کیا جائے، پاکستان میں فوری طور پر نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سارے قوم میں 80-75 فیصد عوام بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، حکومت انکھ کھولیں فاشزم کو ختم کرے، ترجیح بنیادوں پر پرانے مقدمات کو ختم کیا جائے، ماڈل ٹاون ون اور ٹو کا مقدمہ ابھی تک زہر التوا ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ منختب عدالتوں سے منتخب مقدمات پر فیصلے کروائے جارہے ہیں، جلد فراہمی انصاف میں انصاف ختم ہوتا ہے
سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ ریاست کے چاروں ستونوں کو برباد کر دیا گیا، ہمارا لیڈر عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے، اب انکے ساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، وہاں پر عدالتوں احکامات پر ایک کرنل کے احکامات بھاری پڑ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام، ملک اور قانون و آئین کیلئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، یہ سب کسی کو بھی قبول نہیں ہے، سندھ کی آج عوام، کسان ، وکلا سب سڑک پر ہیں، آج بھارت کو جرات ہوئی ہے کہ یکطرفہ سندھ طاس معاہدہ ختم کر دیا، ہمارے اتاشی باہر نکال دیے، اتنی جرات پہلے قابل نہیں تھے۔
لطفیف کھوسہ نے کہا کہ اسی حکومت میں یہ سب ہوا، بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے، عوام صرف انکے ساتھ کھڑی ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 26 ترمیم جس انداز ڈھٹائی سے کی گئی سب کے سامنے ہیں، اختر منگل پارلیمنے میں اپنے سینیٹر کو تلاش کر رہے تھے، ہمارے ایم این ایز کو لالچ دی گئی، ہمارے ایم این ایز کو اٹھایا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہ جھوٹ کا نظام یے کفر کا نظام ہوتا ہے، لوگوں پر گولیاں چلائیں گئیں
ہم نے پاکستان کا پانی دشمن سے چھینننا ہے، نینشل سیکورٹی کے تمام معاملات میں عمران خان کا شامل ہونا اہم ہے، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اب خاموش رہنے کا وقت نہیں، ہم بہت جلد باہر نکلیں گے ہم معمالات کو افہام و تفہیم سے حل چاہتے ہیں۔
ترجمان عمران خان نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ملک کی بقا کیلئے بانی پی ٹی کا وجود لازم ہے اس حکومت کی کوئی پالیسی نہیں، سندھ بلوچستان کے حالات سامنے ہیں ، اج سلامتی کونسل کا اجلاس بغیر خان کے ہو رہا ہے
8 کو قوم نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ دیا، آپ بانی پی ٹی آئی کو مائنس کرنا چاہتے ہیں نہیں کرسکتے، دس مرتبہ ہمیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات سے روکا گیا۔
پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عمران خان کی خواہش ہے کہ قوم کے سامنے لاقانونیت کی صورتحال رکھی ہے، جواہش ہے کہ یہاں قبرستان کی خاموشی ہو، میرے ساتھ لطیف کھوسہ بابر اعوان نیاز اللہ نیازی علی بخاری موجود ہیں، 26 ترمیم کیساتھ جو رہا ہے وہ عوام کے سامنے رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا آئین و قانون سے کوئی تعلق نہیں، اج قوم و ریاست کے بیچ کوئی رابطہ نہیں، مجھے جیل سے دومیل دور روکا جاتا ہے، توہین عدالت کی درخواست کو لگنے میں مہینہ لگ جاتا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ انقلاب قومیں لاتی ہیںاگر مقتدر حلقوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے بہت جلد فیصلہ کریں گے، اج ہر جگہ لوگ پانی لوٹے جانے کے خوف سے خوفزدہ ہیں، ضرورت ہے کہ ملک لے لیڈر کو رہا کیا جائے، عمران خان اور قوم کے بیچ آنے والے کو قوم معاف نہیں کرے گی، پاکستان کے عوام کی بات سنو۔