پاکستان میں زرعی آمدنی پر ٹیکس کا نفاذ ہمیشہ سے ایک پیچیدہ اور متنازع مسئلہ رہا ہے۔ 75 سال تک ملک کا طاقتور زمیندار طبقہ کسی بھی قسم کے زرعی ٹیکس سے آزاد رہا جب کہ صنعتکار، تاجر اور عام شہری مختلف نوعیت کے ٹیکس ادا کرتے رہے۔ اب سندھ حکومت نے 2025 کے بجٹ میں ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس نئے قانون کے تحت سالانہ چھ لاکھ روپے تک کی زرعی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگی جب کہ 5.
یہ پہلی بار نہیں کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ 2008 میں جب مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت تھی اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل ن) کی حکومت تھی اس وقت بھی زرعی ٹیکس کی بحث چلی تھی۔ تاہم تب بھی اسے صوبائی معاملہ قرار دے کر نظرانداز کر دیا گیا تھا۔
ماضی میں عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے بار بار پاکستان پر زرعی ٹیکس نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا لیکن ہر بار یہ مسئلہ طاقتور جاگیردار اشرافیہ کی مزاحمت کی وجہ سے دبا دیا گیا۔ اب 2025 میں سندھ حکومت نے زرعی ٹیکس کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس پر بھی کئی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔ کیا واقعی بڑے زمینداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا؟ یا پھر ٹیکس کے قوانین میں ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ اصل بوجھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں پر آجائے؟
زرعی آمدنی پر ٹیکس نہ لگنے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں جاگیرداری نظام کی جڑیں ہیں۔ برصغیر میں جاگیرداری صدیوں پرانی ہے مگر برطانوی راج کے دوران اسے ایک نئی شکل دی گئی۔ انگریزوں نے وفادار مقامی اشرافیہ کو نوازنے کے لیے جاگیریں عطا کیں اور یوں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا جو ریاستی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
تقسیمِ ہند کے بعد بھارت نے 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں بڑے زمینداروں سے زمینیں لے کر چھوٹے کسانوں میں تقسیم کی گئیں اور کسانوں کو خود مختاری ملی، تاہم پاکستان میں جاگیرداری نظام برقرار رہا۔ وجوہات صاف تھیں پاکستان کی حکمران اشرافیہ میں وہی جاگیردار شامل تھے جنھیں انگریزوں نے زمینیں دی تھیں۔ یوں وہ نہ صرف سیاست پر قابض رہے بلکہ زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کی ہرکوشش کو ناکام بناتے رہے۔
برطانوی راج نے کئی مقامی زمینداروں کو نوازا خاص طور پر وہ جو انگریزوں کے وفادار رہے اور 1857 کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کے خلاف نہ گئے۔ شمالی پنجاب، جنوبی پنجاب اور سندھ میں کئی بڑے خاندانوں کو زمینیں دی گئیں جنھوں نے بعد میں پاکستان کی سیاست پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ پنجاب میں کئی جاگیردار پیدا ہوئے۔ مثال کے طور پر راولپنڈی اور جہلم کے علاقے میں گکھڑ اور راجپوت خاندانوں کو زمینیں دی گئیں۔
اسی طرح جنوبی پنجاب میں تونسہ اور بہاولپور کے علاقوں میں بڑے زمیندار انگریزوں کے قریب رہے۔ جنوبی پنجاب میں لغاری، مزاری، کھوسہ اور گیلانی خاندانوں کو بڑی جاگیریں عطا کی گئیں۔ ان میں سے کئی بعد میں سیاست میں آئے اور آج بھی پاکستان کے طاقتور سیاستدان انھی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سندھ میں تالپور جونیجو اور پگاڑا خاندانوں کو زمینوں سے نوازا گیا۔ خاص طور پر انگریزوں نے پیر پگاڑا خاندان کو خاص طور پر سپورٹ کیا تاکہ وہ ہندو زمینداروں کے اثر و رسوخ کو کم کر سکیں۔ ان زمینوں کی تقسیم کے نتیجے میں ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو معاشی طور پر بے حد طاقتور بن گیا۔ یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے پاکستان میں جاگیرداری کو زندہ رکھا اور زرعی اصلاحات کی ہرکوشش کو سبوتاژ کیا۔
اب جب سندھ حکومت نے زرعی ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان جاگیرداروں پر ٹیکس لگایا جا سکے گا جو 75 سال سے ٹیکس فری مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں؟ اس قانون کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زرعی آمدنی کا حساب کیسے لگایا جائے گا۔ بڑے زمیندار اپنی آمدنی کو کم ظاہر کرنے کے کئی حربے استعمال کر سکتے ہیں جیسے کہ اخراجات زیادہ دکھا کر آمدنی کم کرنا زمینوں کو مختلف ناموں پر تقسیم کر کے ٹیکس کی حد سے نیچے رکھنا اور کسانوں کے نام پر سبسڈی اور مراعات لے کر حکومت کو دھوکا دینا۔ یہ سب وہ طریقے ہیں جو ماضی میں بھی استعمال کیے گئے اور آیندہ بھی جاگیردار ان کا سہارا لے سکتے ہیں۔
اگر زرعی ٹیکس کا نفاذ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ پاکستان کے معاشی ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی لا سکتا ہے لیکن اس کا امکان کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست پر جاگیردار طبقے کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ چھوٹے کسان پہلے ہی زراعت کے بڑھتے ہوئے اخراجات پانی کی قلت اور غیر مستحکم منڈی کی قیمتوں سے پریشان ہیں، اگر ٹیکس کا نفاذ غیر منصفانہ ہوا تو اصل بوجھ انھی پر آ پڑے گا جب کہ بڑے زمیندار اپنے روایتی طریقوں سے ٹیکس سے بچ نکلیں گے۔ درمیانے زمیندار جو محنت کر کے زراعت چلاتے ہیں وہ بھی اس ٹیکس کا شکار بن سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس بڑے جاگیرداروں کی طرح اثر و رسوخ نہیں ہوتا کہ وہ قوانین میں اپنے لیے نرمیاں حاصل کر سکیں۔
پاکستان میں زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ برسوں سے کیا جا رہا تھا اور اگر یہ مؤثر طریقے سے نافذ ہو تو یہ ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر اس میں وہی پرانے چور دروازے موجود رہے تو اس کا فائدہ صرف بڑے زمینداروں کو ہوگا اور چھوٹے کسان مزید مشکلات میں گھر جائیں گے۔
اصل امتحان یہ ہے کہ کیا سندھ حکومت واقعی بڑے جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لا سکے گی؟ یا پھر یہ قانون بھی اسی طرح ہوگا جیسے ماضی میں کئی قوانین بنے مگر ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا؟ یہ معاملہ صرف ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے ملک کی معیشت اور سماجی انصاف سے جڑا ہوا ہے، اگر زرعی ٹیکس ایمانداری سے نافذ ہو تو پاکستان کا ٹیکس سسٹم زیادہ منصفانہ اور متوازن ہو سکتا ہے، لیکن اگر جاگیردار طبقہ ایک بار پھر اپنے تعلقات اور اختیارات کا استعمال کر کے اس سے بچ نکلا تو یہ صرف ایک اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زرعی ا مدنی پر ٹیکس بڑے زمینداروں زمینداروں کو پاکستان میں خاندانوں کو بڑے زمیندار سندھ حکومت زرعی ٹیکس یہ ہے کہ میں ایک ٹیکس کا بھی اس
پڑھیں:
پیسہ پیسہ کرکے!!
جانے آپ نے کبھی غور کیا یا نہیں مگر میں گزشتہ چند دن سے اس پر غور و فکر کر رہی ہوں اور حیرت میں ڈوبتی جاتی ہوں ۔ ایک دکان سے پھل اور سبزی خریدتی ہوں، سبزیوں کے نرخ اس طرح سے ہیں کہ میرا بل بنتا ہے سات سو اٹھائیس روپے، میں دکاندار کو سات سو پچاس روپے دیتی ہوں تو وہ مجھے بیس روپے واپس کر دیتا ہے۔ میں کپڑوں کی دکان پر کچھ خریداری کرتی ہوں تو وہ مجھے کہتا ہے کہ میرا بل چار ہزار سات سو پچانوے روپے ہے۔
میں اسے پانچ ہزار کا نوٹ دیتی ہو تو وہ مجھے دو سو روپے بقایا دیتا ہے۔ میں دوا خریدنے جاتی ہوں تو دوا کی ڈبیا پر دوا کی قیمت لکھی ہوئی ہے چار سو ستاسٹھ روپے۔ میں اسے پانچ سو روپے کا نوٹ دیتی ہوں اور وہ مجھے بقایا دیتا ہے تیس روپے۔ پٹرول کی فی لٹر قیمت کے حساب سے اگر آپ کا بل اتنا بنتا ہو کہ پانچ روپے سے کم بقایا بنتا ہو تو واپسی پر آپ کو پانچ روپے سے کم کی وہ رقم واپس نہیں ملتی۔
آپ تصور کریں کہ کسی پٹرول پمپ پر، کسی سبزی پھل کی دکان پر یا کسی کپڑے ، جوتے یا کتابوں کی دکان پر… ایک دن میں کتنے گاہک آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا بقایا پانچ روپے سے کم ہو تو انھیں وہ واپس نہیں ملتا اور کوئی اس کے بارے میں فکر بھی نہیں کرتا کیونکہ اس وقت پچاس اور سو روپے کی اتنی بھی وقعت نہیں ہے تو پانچ دس روپے کی کیا وقعت ہے کہ کسی کو واپس نہ ملنے پر دکھ ہو۔
اس دکاندار کو سوچیں جو کہ دن میں جانے کتنے ہی لوگوں سے اتنی چھوٹی چھوٹی رقوم جمع کر کے ایک دن، ہفتے ، مہینے یا سال میں کتنی رقم جمع کرتا ہے جس کا نہ کوئی شمار ہوتا ہے اور نہ حساب۔ درست بل دینا کہ جس پر ٹیکس نمبر بھی لکھا ہو، وہ ہمارے یہاں چھوٹے دکاندار کو عادت ہی نہیں، بل اس وقت دیتے ہیں جب آپ مطالبہ کریں۔ کارڈ سے بل نہیں لیتے کیونکہ وہ ریکارڈ میں آجاتا ہے اور اس پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ کتنے ہی کاروبار ہیں جو کہ آپ کو پیش کش کرتے ہیں کہ اگر آپ کیش میں ادائیگی کریں تو آپ کو کچھ رعایت مل جاتی ہے۔
ہم سب اس جال میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ ہمیں اس میں اپنا فائدہ نظر آ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہم ملکی مفاد میں سوچیں تو ہمیں ایسی پیشکش کو ٹھکرا دینا چاہیے مگر جب ہم کسی کو اس بارے میں آگاہی دینے کی کوشش کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ انھیں ٹیکس دے کر کیا ملتا ہے؟ سارا ٹیکس تو انھیں کے اللوں تللوں اور ان کے شاہانہ اخراجات میں چلا جاتا ہے جو پہلے سے ہی اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کر رہ رہے ہیں۔
ہمیں کون سا ان ممالک کی طرح بنیادی انسانی سہولیات میسر ہیں جیسی کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہیں، جہاں لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس چوری دنیا بھر میں ہوتی ہے مگر ہم شاید اس میں بھی پہلے نمبر پر ہوں گے کیونکہ ہم ایسی چیزوں میں درجہء کمال پر ہیں جو درست نہیں ہیں۔
سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک میں پیسے کی نقل و حمل پر پابندی لگائی جائے۔ آپ کارڈ پر ادائیگی کرنا چاہیں تو دکانداروں کی مشین نہیں چلتی، بڑے بڑے دکاندار بھی کئی بار کہہ دیتے ہیں کہ مشین میں کوئی مسئلہ ہے یا آپ کے کارڈ میں۔ اگر کارڈ پر بل لینے کو مان بھی جائیں تو کہتے ہیں کہ کارڈ کی فیس گاہک کو دینا ہو گی۔ بڑے بڑے سنار ( جیولرز) لاکھوں اور کروڑوں کے بل لیتے ہیں، وہ ساری سیل نہ چھپاتے ہوں تو بھی کچھ نہ کچھ چھپا جاتے ہیں۔
ٹیکس نیٹ میں ہر چھوٹے بڑے کاروباری کو لانا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ والے اپنے کھاتے سدھار سکتے ہیں اور نہ حکومت۔ بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ٹیکس کے محکمے کے ہی لوگ ، ملوث ہیں جو کہ لوگوں کو ٹیکس چوری کے طریقے بتاتے ہیں۔ پھر میںنے عہد کیا کہ چھوٹے ٹھیلوں، سڑک کے کنارے ریڑھی بانوں یا کسی کو نقد دینے کے علاوہ میں ہر جگہ کارڈ استعمال کروں گی۔
اس دوران میں نے غور کیا کہ کپڑے کا بڑے سے بڑا کاروباری برانڈ بھی آپ کو بل بتاتا ہے گیارہ سو ستر… جب آپ کارڈ سے رقم ادا کرتے ہیں تو آپ کے گیارہ سو ستاسٹھ روپے کٹتے ہیں، استفسار کریں کہ انھوں نے توبل گیارہ سو ستر بتایا تھا تو جواب ملے گا کہ انھوں نے اس رقم کو Round up کر دیا تھا۔ راؤنڈ اپ تو گیارہ سو ساٹھ یا پنسٹھ بھی ہو سکتے ہیں مگرکسی کے پاس اب کہاں سکے ہوتے ہیں اور دس روپے تک کا نوٹ بھی متروک ہو چکا ہے۔ کارڈ پر ادائیگی کر کے آپ کچھ نہیں تو ہر ماہ کچھ رقم بچا سکتے ہیں۔اگر آپ کو کوئی پر کشش پیش کش کرتا ہے ، نقد دینے پر ٹیکس میں اتنی چھوٹ ہو گی تو اس جال میں نہ پھنسیں، ذمے داری کا ثبوت دیں۔ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے ملک اور نظام کو خراب نہ ہونے دیں۔