پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اس وقت کسی بھی آپریشن کے حامی نہیں: اپوزیشن
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+اپنے سٹاف رپورٹر سے) تحریک تحفظ آئین پاکستان کی مرکزی قیادت نے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلانے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ پریس کانفرنس میں سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم اس وقت کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں ہیں جب کہ عمر ایوب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی مشاورت کے بغیر پارٹی کوئی بھی فیصلہ کیسے کرسکتی ہے؟ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے بغیر کسی میٹنگ کی اہمیت نہیں، عمران خان سے ملنے پارٹی رہنما جاتے ہیں تو اجازت نہیں ملتی، یا تو اعلان کردیاجائے کہ بانی پی ٹی آئی خطرناک آدمی ہیں، اْن سے کوئی نہیں مل سکتا، جیل سپرنٹنڈنٹ اور حکام کو اس کا حساب دینا ہو گا۔ اس موقع پر راجہ ناصر عباس نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کوآن بورڈ لیے بغیر جو فیصلے ہوئے، عوام ان کو قبول نہیں کریں گے۔ اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 77 برس سے ان حالات کا شکار ہیں اوراس حالات کے حق میں نہیں۔ ہم نے پاکستان کے ہر پسماندہ طبقات کے لوگوں کے حقوق دلوانے ہیں ہم نے اس ملک کو ٹھیک کرنا ہے اور فسطائیت کا خاتمہ کرنا ہے، علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام ارکان کو بولنے کی اجازت دی جائے، حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی یہ حکومت ملک پر مسلط کی گئی ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے پارلیمنٹ کو آگے بڑھنا چاہئے۔ عمر ایوب خان نے کہا کہ میں نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو مشروط خط لکھا تھا کہ ہمیں کورٹ آرڈر کے ساتھ بانی پی ٹی آئی سے ملنے نہیں دیا جاتا ہے۔ اچانک قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا‘ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ ہم نے اس کمرے میں بیٹھ کران کیمرہ اجلاس کا مطالبہ کیا تھا گزشتہ روز ہم نے اپنے نمائندوں کے نام دیئے جو مشروط تھے ،بلوچستان کے دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں کے نمائندوں کو بلائے بغیر معاملے کا حل نہیں نکل سکتا۔ عمران کو اعتماد میں لیے بغیر عوامی سپورٹ نہیں ملے گی آپریشن کی بجائے مذاکرات پرغور کرنا چاہیے، محمود اچکزئی نے کہا کہ جوائنٹ سیشن میں ہرایم این اے کو بات کرنے کا موقع دیا جائے ،جوائنٹ سیشن پورے دو دن ہو، ہر ایم این اے اس پر بولے، ہم اتنے بچے بھی نہیں ہیں کہ ان کیمرہ اجلاس کی باتیں لوگوں کو بتائیں گے لیکن وہاں ہم وہ باتیں کریں گے جو ہمارا ضمیر کرتا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کہ بانی پی ٹی ا ئی نے کہا کہ
پڑھیں:
کشمیری رکن پارلیمنٹ انجینیئر رشید کو ملی حراستی پیرول، پارلیمانی اجلاس میں شرکت کریںگے
درخواست میں کہا گیا کہ انجینیئر رشید ایک رکن پارلیمنٹ ہیں اور انہیں پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان لوگوں کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کریں جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں شرکت کے لئے جیل میں بند رکن پارلیمنٹ انجینیئر رشید کو حراستی پیرول دے دیا۔ 24 جولائی سے 4 اگست تک حراستی پیرول منظور کیا گیا ہے۔ رکن پارلیمنٹ انجینیئر رشید 2017ء کے دہشت گردی کی فنڈنگ کیس میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت این آئی اے کے ذریعہ گرفتار ہونے کے بعد 2019ء سے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ ایڈیشنل سیشن جج چندر جیت سنگھ نے حراستی پیرول کو منظور کر لیا ہے۔ درحقیقت بارہمولہ کے رکن پارلیمنٹ نے بطور رکن پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے عبوری ضمانت یا حراستی پیرول کی درخواست کی تھی۔ انجینیئر رشید کے وکیل نے پہلے دلیل دی تھی کہ ان کے موکل کو عبوری ضمانت دی جائے اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دی جائے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ انجینیئر رشید بارہمولہ سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ بارہمولہ کی آبادی جموں و کشمیر کی کل آبادی کا 45 فیصد ہے۔ اتنی بڑی آبادی کی نمائندگی کو خالی نہیں رکھا جا سکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ انجینیئر رشید کو حراستی پیرول پر رہا کیا جائے۔
انجینیئر رشید نے پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ 10 مارچ کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لئے انجینیئر رشید کی عبوری ضمانت کی مانگ کو مسترد کر دیا۔ درخواست میں کہا گیا کہ انجینیئر رشید ایک رکن پارلیمنٹ ہیں اور انہیں پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان لوگوں کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کریں جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کا دوسرا مرحلہ 10 مارچ سے شروع ہو رہا ہے جو 4 اپریل کو ختم ہوگا۔ انجینیئر رشید نے جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلٰی عمر عبداللہ کو تقریباً ایک لاکھ ووٹوں سے شکست دے کر پارلیمانی انتخابات 2024ء میں کامیابی حاصل کی تھی۔ انجینیئر رشید کو بھارتی ایجنسی "این آئی اے" نے 2016ء میں گرفتار کیا تھا۔ 16 مارچ 2022ء کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے حافظ سعید، سید صلاح الدین، یاسین ملک، شبیر شاہ اور مسرت عالم، انجینیئر رشید، ظہور احمد وٹالی، بٹہ کراٹے، آفتاب احمد شاہ، اوتار احمد شاہ، بشیر احمد خان اور نعیم احمد سمیت دیگر ملزمان کے خلاف الزامات عائد کرنے کا حکم دیا تھا۔
"این آئی اے" کے مطابق پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی "آئی ایس آئی" کے تعاون سے لشکر طیبہ، حزب المجاہدین، جے کے ایل ایف، جیش محمد جیسی تنظیموں نے جموں و کشمیر میں شہریوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے اور تشدد کیا۔ 1993ء میں آل پارٹی حریت کانفرنس کا قیام علیحدگی پسند سرگرمیوں کو انجام دینے کے لئے کیا گیا تھا۔ "این آئی اے" کے مطابق حافظ سعید نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینے کے لئے حوالہ اور دیگر چینلز کے ذریعے رقم کا لین دین کیا۔ انہوں نے اس رقم کو وادی میں بدامنی پھیلانے، فورسز پر حملہ کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کیا۔