خوارج کی پاک، افغان سرحد کے ذریعے دراندازی کی کوشش، تمام 16 دہشتگرد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ عبوری افغان حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے، پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکے۔ اسلام ٹائمز۔ سیکیورٹی فورسز نے فوری اور مؤثر کارروائی کرتے ہوئے پاک-افغان سرحد کے ذریعے ملک میں دراندازی کی کوشش کرنے والے تمام 16 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 22 اور 23 مارچ کی درمیانی شب، شمالی وزیرستان کے علاقے غلام خان کلی میں پاکستان-افغانستان سرحد کے ذریعے دراندازی کی کوشش کرنے والےخوارج کے ایک گروہ کی نقل و حرکت کو سیکیورٹی فورسز نے بروقت مانیٹر کیا۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ پاک فوج کے جوانوں نے فوری اور مؤثر کارروائی کرتے ہوئے ان کی دراندازی کی کوشش کو ناکام بنایا۔
بیان میں کہا گیا کہ شدید فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں تمام 16 خوارج واصلِ جہنم کر دیے گئے، پاکستان مسلسل عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اپنی جانب سرحدی نگرانی کے مؤثر انتظامات یقینی بنائے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ عبوری افغان حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے، پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دراندازی کی کوشش
پڑھیں:
طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کی ذمہ داری اور ضمانت مسلح افواج ہیں اور یہ ضمانت کسی بیرونی دارالحکومت یا کابل کو نہیں دی جا سکتی، دہشت گردی، منشیات کی کشتکاری اور غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر کام کرنے والے گروپس کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا اور واضح کیا کہ ریاستی اداروں کا رویہ واضح ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشنز جاری ہیں، ملک کی سکیورٹی کا نظم و نسق فوج کے کنٹرول اور ذمہ داری میں ہے اور اس ضمانت کا تقاضا کابل سے نہیں کیا جا سکتا۔
ڈرونز کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا امریکا کے ساتھ کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے جس کے تحت ڈرونز پاکستان سے افغانستان جا رہے ہوں، اور وزارت اطلاعات نے بھی اس بارے میں وضاحتیں جاری کی ہیں، طالبان رجیم کی جانب سے ڈرون آپریشن کے حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔
جنرل نے استنبول میں طالبان کو واضح ہدایات دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو قابو میں رکھنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا افغان فریق کی ذمہ داری ہے،جو عناصر ہمارے خلاف آپریشنوں کے دوران بھاگ کر افغانستان چلے گئے، انہیں واپس کر کے آئین و قانون کے مطابق نمٹایا جائے تو بہتر ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے علاقائی مسائل پر بھی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کا مشترکہ گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی جنگجوؤں، وار لارڈز اور بعض افغان گروہوں کو منتقل ہوتی ہے، جس نے خطے میں بدامنی کو تقویت دی ہے۔
سرحدی امور پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سرحد تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل ہے اور ہر 25 تا 40 کلو میٹر پر چوکیوں کی موجودگی کے باوجود پہاڑی اور دریا ئی علاقوں کی وجہ سے ہر جگہ چوکی قائم کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سرحدی گارڈز بعض اوقات دہشت گردوں کو سرحد پار کروانے کے لیے فائرنگ میں معاونت کرتے ہیں، جس کا پاکستان جواب دیتا ہے۔
فوجی عہدوں کے قیام یا دیگر انتظامی امور کے بارے میں انہوں نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے فیصلے حکومت کا اختیار ہیں، فوج نے وادی تیرہ میں براہِ راست آپریشن کا دعویٰ نہیں کیا اور اگر کوئی آپریشن ہوا تو اسے شفاف انداز میں بتایا جائے گا؛ تاہم انٹلی جنس بیسڈ کارروائیوں میں کافی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔