Express News:
2025-09-18@15:49:38 GMT

چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط ہشتم)

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

برطانیہ کے شاہی پیل کمیشن کی جانب سے فلسطین کی تقسیم اور آبادی کے تبادلے کی اشتعال انگیز سفارشات کے خلاف غصہ ستمبر انیس سو سینتیس میں پہلی عظیم فلسطینی مزاحمت کے دوسرے دور کی شکل میں پھٹ پڑا۔آنے والے پندرہ ماہ نہائیت متشدد ثابت ہوئے۔ بارہ سو سے زائد فلسطینی پولیس اور فوج کے ہاتھوں جاں بحق اور ساڑھے پانچ سو زخمی ہوئے۔

فلسطینیوں نے دو سو چھتیس یہودیوں اور یہودیوں نے چار سو پینتیس فلسطینیوں کی جان لی۔ان پندرہ ماہ میں فائرنگ کے دو ہزار سے زائد واقعات کے علاوہ چار سو بہتر بم دھماکے ، تین سو چونسٹھ مسلح ڈکیتیاں ، تین سو تئیس اغوا اور ڈیڑھ ہزار سرکاری اور کاروباری املاک کی تباہی ریکارڈ پر ہے ۔

ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ تھا۔ہزاروں قیدی اپنے گھروں سے بہت دور قائم نظربندی کیمپوں میں رکھے گئے۔برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے انیس سو چوبیس سے فلسطین میں نافذ اجتماعی ذمے داری کے فوجداری قانون میں ترمیم کر کے اس میں بھاری جرمانہ بھی شامل کر دیا۔معاشی طور پر ادھ موئے کسی بھی دیہات کے آس پاس حکومت دشمن مسلح واردات کی سزا جانوروں اور گھریلو سامان کی ضبطی کے علاوہ اجتماعی جرمانے کی وصولی بھی تھی۔یوں سرکار نے کنگلے کسانوں سے لگ بھگ دس لاکھ پاؤنڈ جرمانہ کمایا ( آج کے اعتبار سے تقریباً پچاس کروڑ پاؤنڈ )۔جرمانے کی یہ مالیت سالانہ سرکاری ٹیکسوں کی وصولی سے بھی دوگنا تھی۔

( اجتماعی ذمے داری کی سزا انگریزوں نے دیگر نوآبادیات میں بھی مختلف ناموں سے نافذ کر رکھی تھی۔جیسے کینیا کے علاوہ برٹش انڈیا کے سرحدی علاقوں میں فرنٹیرز کرائمز ریگولیشن ( ایف سی آر ) بھی اجتماعی جزا و سزا کا سفاک قانون تھا )۔

گھروں کی مسماری کی روائیت بھی اسرائیل کو برطانیہ سے ورثے میں ملی۔سولہ جون انیس سو چھتیس کو جافا کے قدیم محلوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اچانک حملے کے ردِعمل میں سرکاری دستوں نے جیلاٹن نما آتش گیر مادے سے چند ہی گھنٹے میں لگ بھگ ڈھائی سو گھر اور دکانیں پھونک ڈالے۔یوں مزید چھ ہزار افراد آناً فاناً بے گھر ہو گئے۔

 فلسطین کے چیف جسٹس سر مائیکل میکڈونلڈ نے قانون کے نفاذ کے نام پر ایسی حرکات کو غیر ذمے دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ عمل قرار دیا تو برطانوی گورنر اور فوجی کمانڈر کو یہ تنقید پسند نہ آئی اور کچھ ہی دنوں میں جسٹس میکڈونلڈ کو لندن واپس بلا لیا گیا۔

بغاوت کچلنے کے دوران متعدد گاؤں مسمار ہوئے۔ایک برطانوی فوجی کی ہلاکت کے انتقام میں ضلع ایکر میں ال بسا اور مغربی کنارے پر ہیبرون کے نزدیک ایک گشتی دستے پر حملے کے ردِعمل میں ہلہل گاؤں کے تمام مردوں کو مار دیا گیا اور رپورٹ یہ لکھی گئی کہ یہ سب تلاشی سے بچنے کے لیے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔اس قتلِ عام کے بعد آس پاس کے دیہاتیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ایک بڑا سا گڑھا کھود کے اجتماعی قبر بنائیں۔

البسا گاؤں میں تو یہ ہوا کہ پچاس مردوں کو جمع کر کے فوجی بس میں بٹھایا گیا اور پھر انھی میں سے ایک بے بس کو بس چلانے کا حکم دیا گیا اور بس کو بارودی سرنگوں پر سے گزار کے مسافروں سمیت اڑا دیا گیا۔

اگست انیس سو اڑتیس میں فوج نے نابلس کے پانچ ہزار شہریوں کو دو دن بڑے بڑے پنجروں میں رکھ کے تفتیش کی ۔بارودی سرنگیں پھٹنے کے خدشات کے پیشِ نظر فلسطینیوں کو بطور انسانی ڈھال فوجی ٹکڑی یا قافلے کے آگے آگے چلایا جاتا یا فوجی گاڑی کے بونٹ یا ریلوے انجن کے آگے ابھری مسطح جگہ پر لٹا کے باندھ دیا جاتا۔ فوجی گاڑی یا لاری کو گشت کے اختتام پر اکثر اتنے زور سے بریک لگائی جاتی کہ بونٹ پر بندھا شخص گر پڑتا اور وہی جیپ یا لاری اسے کچلتے ہوئے آگے بڑھ جاتی۔

کئی مقامات پر ہلاک شدگان کی لاشیں ورثا کو سونپنے کے بجائے خاموشی سے جلا دی گئیں تاکہ ان کے جنازے سے امن و امان کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔زخمی حریت پسندوں کو وہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا اور جب کسی زخمی کے ساتھی اسے اٹھانے کے لیے آتے تو ان پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی۔کئی دیہاتوں کو مکینوں سے خالی کروا کے گھروں میں سرکاری فوجی ہفتوں مہینوں قیام کرتے۔ پورے فلسطین میں ستر نئی فوجی قلعہ بندیاں ( چیک پوسٹیں ) تعمیر کی گئیں تاکہ ’’ تخریب کاروں ’’ پر زیادہ بہتر نظر رکھی جا سکے۔

مفرور اور جلاوطن فلسطینی قیادت دمشق میں ڈیفنس کمیٹی کے نام سے فعال تھی۔نیز لبنان اور شام کے راستے فلسطین میں اسلحے اور رضاکاروں کی اسمگلنگ بھی ہوتی تھی۔چنانچہ سدِ باب کے لیے شام اور لبنان سے متصل فلسطینی سرحدی پٹی پر دو ملین پاؤنڈ کے صرفے سے دو رویہ خاردار باڑھ لگا کے سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں فلسطینی قیدیوں کو بطور بیگار استعمال کیا گیا۔منصوبے کا ٹھیکہ ایک مقامی یہودی کمپنی ’’ سولیل بونیہہ ‘‘ کو دیا گیا۔( سولیل بونیہہ آج بھی اسرائیل میں بطور قدیم ترین تعمیراتی کمپنی فعال ہے )۔

برطانیہ نے مشتبہ فلسطینیوں سے تفتیش کے لیے خصوصی مراکز بھی قائم کیے۔ اسیروں کو برقی جھٹکے دیے جاتے ، تلووں پر ضربات لگائی جاتیں ، ناخن اکھاڑے جاتے اور بعضوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کے تختے پر لٹا کر ایک خاص زاویے سے پانی مسلسل پیشانی پرٹپکایا جاتا۔کچھ دیر بعد قیدی کو لگتا جیسے وہ ڈوب رہا ہے۔اس ٹارچر کو آج ہم سب ’’ واٹر بورڈنگ ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔اور اسے سن کر گوانتانامو کا عقوبت خانہ اور اسرائیلی اذیتی مراکز یاد آتے ہیں۔

قیدیوں کی تفتیش میں مدد کے لیے جنوبی افریقہ سے ڈوبر مین نسل کے کتے درآمد کیے گئے اور ان کی تربیت کے لیے یروشلم میں خصوصی مرکز قائم کیا گیا۔

برطانوی رائل ایرفورس کو بھی شورش دبانے کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا۔ سینتیس بار مختلف علاقوں پر بمباری کی گئی۔کچھ دیہاتوں پر ڈھائی سو اور پانچ سو پاؤنڈ وزنی بم گرا کے مٹا دیا گیا۔ طیاروں پر مشین گنیں بھی نصب ہوتی تھیں جن سے بھاگتے لوگوں یا ہجوم کو بھونا جا سکتا تھا۔فضائیہ شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کی نگرانی بھی کرتی ، فضائی فوٹوگرافی ہوتی اور عام شہریوں کو خبردار و خوفزدہ کرنے والے اشتہارات بھی گرائے جاتے۔چودہ بمبار طیارے مغربی کنارے پر رملہ اور اردن کے دارالحکومت عمان کے ایر بیس پر تعینات تھے۔

حیفہ کے ساحلی شہر کا انتظام برٹش نیوی کے سپرد کیا گیا۔بحریہ اسلحہ اور فوجی کمک کی رسد پہنچانے کے علاوہ ساحل کے نزدیک اجنبی کارگو جہازوں کی تلاشی بھی لیتی۔ایک بار جنگی فریگیٹ سے حیفہ کے عرب محلوں پر گولہ باری بھی ہوئی ۔انیس سو تینتیس میں تعمیر ہونے والی حیفہ بندرگاہ عسکری اعتبار سے یوں بھی اہم تھی کہ وہاں برٹش پٹرولیم اور ڈچ کمپنی شیل کی مشترکہ آئل ریفائنری میں فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے عراق سے حیفہ بذریعہ پائپ لائن آنے والا تیل صاف ہوتا۔

اس احوال سے آپ کو کچھ کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ پچھلے ستتر برس سے جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ دراصل نوآبادیاتی دور سے جاری بہیمانویت کی زیادہ بہتر متشدد فوٹوکاپی ہے۔ مگر فلسطینی بھی جانے کس سیارے کی مخلوق ہیں کہ جھکنے کے بجائے مرنا غنیمت جانتے ہیں (داستان جاری ہے )۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے علاوہ دیا گیا کیا گیا پاو نڈ کے لیے

پڑھیں:

توشہ خانہ کیس: عمران اور بشریٰ بی بی کیخلاف گواہی کیلئے 2 فوجی افسران طلب

راولپنڈی(نیوز ڈیسک) اسلام آباد میں اسپیشل جج سینٹرل نے توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 2 فوجی افسران کو گواہی کے لیے طلب کرلیا۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج نے اڈیالہ جیل کے اندر 6 گھنٹے طویل کارروائی کے دوران 2 اہم گواہوں، جن میں ایک وعدہ معاف گواہ صہیب عباسی پر جرح کا عمل مکمل کیا، یہ کیس توشہ خانہ کے تحائف میں سے قیمتی جیولری سیٹ کو رکھنے میں مبینہ بے ضابطگیوں سے متعلق ہے۔

خصوصی جج سینٹرل شہریار ارجمند نے مقدمے کی سماعت کی، اس دوران دفاعی ٹیم نے دونوں گواہوں سے جرح مکمل کی۔

نجی ماہر صہیب عباسی، جنہوں نے اس کیس میں حلفیہ بیان جمع کرایا تھا، اور سابق وزیر اعظم کے پرسنل سیکریٹری انعام شاہ سے دفاعی وکلا نے تفصیلی سوالات کیے۔

عدالت نے مزید دو گواہوں، سابق وزیر اعظم عمران خان کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر محمد احمد اور ڈپٹی ملٹری سیکریٹری کرنل ریحان کو اگلی سماعت پر پیش ہو کر اپنے بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا۔

کارروائی کے دوران عمران خان اور ان کی اہلیہ کو خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا، جب کہ ان کی 3 بہنیں اور دفاعی وکیل بیرسٹر علی ظفر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی روز میں 64 فلسطینی شہید، درجنوں زخمی
  • نیتن یاہو سے مارکو روبیو کا تجدید عہد
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی دن میں 100 سے زائد فلسطینی شہید
  • محسن نقوی کی تربت آمد، شہید فوجی اہلکاروں کی نماز جنازہ میں شرکت
  • توشہ خانہ کیس: عمران اور بشریٰ بی بی کیخلاف گواہی کیلئے 2 فوجی افسران طلب
  • کراچی، صدر میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ، دو افراد زخمی
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  •  سعودی سفیر کا واشنگٹن میں سعودی فوجی مشن کا دورہ
  • عرب جذبے کے انتظار میں