چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط ہشتم)
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
برطانیہ کے شاہی پیل کمیشن کی جانب سے فلسطین کی تقسیم اور آبادی کے تبادلے کی اشتعال انگیز سفارشات کے خلاف غصہ ستمبر انیس سو سینتیس میں پہلی عظیم فلسطینی مزاحمت کے دوسرے دور کی شکل میں پھٹ پڑا۔آنے والے پندرہ ماہ نہائیت متشدد ثابت ہوئے۔ بارہ سو سے زائد فلسطینی پولیس اور فوج کے ہاتھوں جاں بحق اور ساڑھے پانچ سو زخمی ہوئے۔
فلسطینیوں نے دو سو چھتیس یہودیوں اور یہودیوں نے چار سو پینتیس فلسطینیوں کی جان لی۔ان پندرہ ماہ میں فائرنگ کے دو ہزار سے زائد واقعات کے علاوہ چار سو بہتر بم دھماکے ، تین سو چونسٹھ مسلح ڈکیتیاں ، تین سو تئیس اغوا اور ڈیڑھ ہزار سرکاری اور کاروباری املاک کی تباہی ریکارڈ پر ہے ۔
ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ تھا۔ہزاروں قیدی اپنے گھروں سے بہت دور قائم نظربندی کیمپوں میں رکھے گئے۔برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے انیس سو چوبیس سے فلسطین میں نافذ اجتماعی ذمے داری کے فوجداری قانون میں ترمیم کر کے اس میں بھاری جرمانہ بھی شامل کر دیا۔معاشی طور پر ادھ موئے کسی بھی دیہات کے آس پاس حکومت دشمن مسلح واردات کی سزا جانوروں اور گھریلو سامان کی ضبطی کے علاوہ اجتماعی جرمانے کی وصولی بھی تھی۔یوں سرکار نے کنگلے کسانوں سے لگ بھگ دس لاکھ پاؤنڈ جرمانہ کمایا ( آج کے اعتبار سے تقریباً پچاس کروڑ پاؤنڈ )۔جرمانے کی یہ مالیت سالانہ سرکاری ٹیکسوں کی وصولی سے بھی دوگنا تھی۔
( اجتماعی ذمے داری کی سزا انگریزوں نے دیگر نوآبادیات میں بھی مختلف ناموں سے نافذ کر رکھی تھی۔جیسے کینیا کے علاوہ برٹش انڈیا کے سرحدی علاقوں میں فرنٹیرز کرائمز ریگولیشن ( ایف سی آر ) بھی اجتماعی جزا و سزا کا سفاک قانون تھا )۔
گھروں کی مسماری کی روائیت بھی اسرائیل کو برطانیہ سے ورثے میں ملی۔سولہ جون انیس سو چھتیس کو جافا کے قدیم محلوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اچانک حملے کے ردِعمل میں سرکاری دستوں نے جیلاٹن نما آتش گیر مادے سے چند ہی گھنٹے میں لگ بھگ ڈھائی سو گھر اور دکانیں پھونک ڈالے۔یوں مزید چھ ہزار افراد آناً فاناً بے گھر ہو گئے۔
فلسطین کے چیف جسٹس سر مائیکل میکڈونلڈ نے قانون کے نفاذ کے نام پر ایسی حرکات کو غیر ذمے دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ عمل قرار دیا تو برطانوی گورنر اور فوجی کمانڈر کو یہ تنقید پسند نہ آئی اور کچھ ہی دنوں میں جسٹس میکڈونلڈ کو لندن واپس بلا لیا گیا۔
بغاوت کچلنے کے دوران متعدد گاؤں مسمار ہوئے۔ایک برطانوی فوجی کی ہلاکت کے انتقام میں ضلع ایکر میں ال بسا اور مغربی کنارے پر ہیبرون کے نزدیک ایک گشتی دستے پر حملے کے ردِعمل میں ہلہل گاؤں کے تمام مردوں کو مار دیا گیا اور رپورٹ یہ لکھی گئی کہ یہ سب تلاشی سے بچنے کے لیے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔اس قتلِ عام کے بعد آس پاس کے دیہاتیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ایک بڑا سا گڑھا کھود کے اجتماعی قبر بنائیں۔
البسا گاؤں میں تو یہ ہوا کہ پچاس مردوں کو جمع کر کے فوجی بس میں بٹھایا گیا اور پھر انھی میں سے ایک بے بس کو بس چلانے کا حکم دیا گیا اور بس کو بارودی سرنگوں پر سے گزار کے مسافروں سمیت اڑا دیا گیا۔
اگست انیس سو اڑتیس میں فوج نے نابلس کے پانچ ہزار شہریوں کو دو دن بڑے بڑے پنجروں میں رکھ کے تفتیش کی ۔بارودی سرنگیں پھٹنے کے خدشات کے پیشِ نظر فلسطینیوں کو بطور انسانی ڈھال فوجی ٹکڑی یا قافلے کے آگے آگے چلایا جاتا یا فوجی گاڑی کے بونٹ یا ریلوے انجن کے آگے ابھری مسطح جگہ پر لٹا کے باندھ دیا جاتا۔ فوجی گاڑی یا لاری کو گشت کے اختتام پر اکثر اتنے زور سے بریک لگائی جاتی کہ بونٹ پر بندھا شخص گر پڑتا اور وہی جیپ یا لاری اسے کچلتے ہوئے آگے بڑھ جاتی۔
کئی مقامات پر ہلاک شدگان کی لاشیں ورثا کو سونپنے کے بجائے خاموشی سے جلا دی گئیں تاکہ ان کے جنازے سے امن و امان کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔زخمی حریت پسندوں کو وہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا اور جب کسی زخمی کے ساتھی اسے اٹھانے کے لیے آتے تو ان پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی۔کئی دیہاتوں کو مکینوں سے خالی کروا کے گھروں میں سرکاری فوجی ہفتوں مہینوں قیام کرتے۔ پورے فلسطین میں ستر نئی فوجی قلعہ بندیاں ( چیک پوسٹیں ) تعمیر کی گئیں تاکہ ’’ تخریب کاروں ’’ پر زیادہ بہتر نظر رکھی جا سکے۔
مفرور اور جلاوطن فلسطینی قیادت دمشق میں ڈیفنس کمیٹی کے نام سے فعال تھی۔نیز لبنان اور شام کے راستے فلسطین میں اسلحے اور رضاکاروں کی اسمگلنگ بھی ہوتی تھی۔چنانچہ سدِ باب کے لیے شام اور لبنان سے متصل فلسطینی سرحدی پٹی پر دو ملین پاؤنڈ کے صرفے سے دو رویہ خاردار باڑھ لگا کے سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں فلسطینی قیدیوں کو بطور بیگار استعمال کیا گیا۔منصوبے کا ٹھیکہ ایک مقامی یہودی کمپنی ’’ سولیل بونیہہ ‘‘ کو دیا گیا۔( سولیل بونیہہ آج بھی اسرائیل میں بطور قدیم ترین تعمیراتی کمپنی فعال ہے )۔
برطانیہ نے مشتبہ فلسطینیوں سے تفتیش کے لیے خصوصی مراکز بھی قائم کیے۔ اسیروں کو برقی جھٹکے دیے جاتے ، تلووں پر ضربات لگائی جاتیں ، ناخن اکھاڑے جاتے اور بعضوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کے تختے پر لٹا کر ایک خاص زاویے سے پانی مسلسل پیشانی پرٹپکایا جاتا۔کچھ دیر بعد قیدی کو لگتا جیسے وہ ڈوب رہا ہے۔اس ٹارچر کو آج ہم سب ’’ واٹر بورڈنگ ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔اور اسے سن کر گوانتانامو کا عقوبت خانہ اور اسرائیلی اذیتی مراکز یاد آتے ہیں۔
قیدیوں کی تفتیش میں مدد کے لیے جنوبی افریقہ سے ڈوبر مین نسل کے کتے درآمد کیے گئے اور ان کی تربیت کے لیے یروشلم میں خصوصی مرکز قائم کیا گیا۔
برطانوی رائل ایرفورس کو بھی شورش دبانے کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا۔ سینتیس بار مختلف علاقوں پر بمباری کی گئی۔کچھ دیہاتوں پر ڈھائی سو اور پانچ سو پاؤنڈ وزنی بم گرا کے مٹا دیا گیا۔ طیاروں پر مشین گنیں بھی نصب ہوتی تھیں جن سے بھاگتے لوگوں یا ہجوم کو بھونا جا سکتا تھا۔فضائیہ شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کی نگرانی بھی کرتی ، فضائی فوٹوگرافی ہوتی اور عام شہریوں کو خبردار و خوفزدہ کرنے والے اشتہارات بھی گرائے جاتے۔چودہ بمبار طیارے مغربی کنارے پر رملہ اور اردن کے دارالحکومت عمان کے ایر بیس پر تعینات تھے۔
حیفہ کے ساحلی شہر کا انتظام برٹش نیوی کے سپرد کیا گیا۔بحریہ اسلحہ اور فوجی کمک کی رسد پہنچانے کے علاوہ ساحل کے نزدیک اجنبی کارگو جہازوں کی تلاشی بھی لیتی۔ایک بار جنگی فریگیٹ سے حیفہ کے عرب محلوں پر گولہ باری بھی ہوئی ۔انیس سو تینتیس میں تعمیر ہونے والی حیفہ بندرگاہ عسکری اعتبار سے یوں بھی اہم تھی کہ وہاں برٹش پٹرولیم اور ڈچ کمپنی شیل کی مشترکہ آئل ریفائنری میں فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے عراق سے حیفہ بذریعہ پائپ لائن آنے والا تیل صاف ہوتا۔
اس احوال سے آپ کو کچھ کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ پچھلے ستتر برس سے جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ دراصل نوآبادیاتی دور سے جاری بہیمانویت کی زیادہ بہتر متشدد فوٹوکاپی ہے۔ مگر فلسطینی بھی جانے کس سیارے کی مخلوق ہیں کہ جھکنے کے بجائے مرنا غنیمت جانتے ہیں (داستان جاری ہے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے علاوہ دیا گیا کیا گیا پاو نڈ کے لیے
پڑھیں:
کورنگی کی مارکیٹ میں دن دہاڑے جیولرز کی دکانوں پر ڈکیتی، مزاحمت پر نوجوان دکاندار جاں بحق
شہر قائد کے علاقے کورنگی میں ڈاکوؤں نے دن دہاڑے جیولرز کی دکانوں میں لوٹ مار کے دوران بھاری مالیت کا سونا لوٹ لیا جبکہ مزاحمت پر دکاندار اور خاتون کو زخمی کیا، دوران علاج دکاندار دم توڑ گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے کورنگی نمبر دو پر قائم مارکیٹ میں دن دہاڑے چار موٹرسائیکلوں پر سوار 8 جدید اسلحے سے لیس ڈاکوؤں نے جیولرز کی دکانوں پر لوٹ مار کی۔
اس دوران ایک دکاندار نے مزاحمت کی تو ملزمان نے فائرنگ کردی جس کے جواب میں دکاندار نے بھی فائرنگ کی جس میں ایک ڈاکو زخمی ہوا جبکہ ملزمان کی فائرنگ سے راہگیر خاتون زخمی ہوئیں۔
زخمی دکاندار کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج دم توڑ دیا۔
واقعے کے بعد دکانداروں میں شدید اشتعال پھیل گیا اور انھوں نے احتجاج کرتے ہوئے ٹائروں کو نذر آتش کر کے ٹریفک معطل کر دیا اور ڈاکوؤں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ۔
اس موقع پر عوام اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر پھٹ پڑے اور پولیس کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ دکانداروں کا کہنا تھا کہ لوٹے گئے مال کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے، رواں سال شہر میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق افراد کی تعداد 51 ہوگئی جبکہ پولیس افسران وارداتوں میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں 50 فیصد کمی کے دعوے کر رہے ہیں۔
مسلح ڈاکو جیولری کی دکانوں سے لوٹ مار کر کے بھاری مالیت کا سونا لوٹ کر فرار ہوگئے، مزاحمت پر جاں بحق ہونے والے دکاندار کی شناخت 32 سالہ عبدالمتین کے نام سے ہوئی۔ زخمی خاتون کی شناخت صابری 62 سالہ سے ہوئی۔
واردات کی اطلاع ملنے پر پولیس اور رینجرز افسران بھی موقع پر پہنچ گئے ، ابتدائی طور پر دکانداروں کا کہنا تھا کہ مسلح ڈاکوؤں کا گروہ 4 موٹر سائیکلوں پرسوار اور تعداد 8 کے قریب بتائی گئی جبکہ ڈاکوؤں نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے نقاب لگائے ہوئے تھے اور پی کیپ بھی پہنی ہوئی تھی۔
ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران 3 جیولری شاپ فریال زرگر ، العزیز جیولر اور کرن جیولر میں لوٹ مار کی۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ مسلح ڈاکو کتنا سونا لوٹ کر فرار ہوئے اس کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے ، دکانداروں کا کہنا تھا مارکیٹ میں سی سی ٹی وی کمیرے لگے ہوئے ہیں لیکن جس وقت واردات ہوئی مارکیٹ لوڈشیئڈنگ کے باعث بجلی کی سپلائی معطل تھی اور تمام سی سی ٹی وی کیمرے آف تھے۔
دکانداروں نے بتایا کہ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ان کا ایک ساتھی بھی زخمی ہوا ہے جسے اس کے دیگر ساتھی اپنے ساتھ لیکر فرار ہوئے ہیں۔ دکانداروں نے مطالبہ کیا ہے کہ جیولری مارکیٹ کی سیکیورٹی میں اضافہ کیا جائے اورواردات میں ملوث ملزمان کو سراغ لگا کر انہیں گرفتار کیا جائے اوران سے لوٹا ہوا مال برآمد کیا جائے۔
ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے عبدالمتین کو جناح اسپتال سے نجی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول دکاندار کو 3 گولیاں لگی تھیں اور وہ خون زیادہ بہہ جانے کے باعث جانبر نہ رہے سکا جبکہ مقتول دکاندار عبدالمتین جیولرز مارکیٹ کے جنرل سیکریٹری عبدالمقیم کے بیٹا تھا،
ڈکیتی کی واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی جس میں 3 موٹر سائیکلوں پر 5 ڈاکوؤں کو مارکیٹ کی پتلی گلیوں سے فرار ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس میں ان کے ہاتھ میں اسلحہ بھی دکھائی دیا۔
دکاندار عبدالمتین کے دوران علاج جاں بحق ہونے کی اطلاع پر دکانداروں میں اشتعال پھیل گیا اور انھوں نے احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر ٹائر نذر آتش کر کے ٹریفک معطل کر دیا جس کے باعث عام شہریوں کو شدید مشکلات اور دقت کا سامنا کرنا پڑ گیا جبکہ مشتعل افراد نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ واردات میں ملوث ڈاکوؤں کو گرفتار اور لوٹا گیا سونا برآمد کرایا جائے۔
اس موقع پر مظاہرین نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ دن سوار بارہ بجے کے قریب واردات ہوئی جبکہ کورنگی 2 نمبر مارکیٹ کھل رہی تھی، ڈاکوؤں نے مزاحمت پر دکاندار پر گولیاں برسائیں، اس وقت احتجاج کے باعث دکانداروں کاروبار بند کیا ہوا جو آج بدھ بعد نماز ظہر تک بند رہیگا جبکہ مقتول عبدالمتین کی نماز جنازہ مین روڈ پر ادا کی جائیگی۔
انھوں نے حکومت سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اپنا کردار کب ادا کریگی ، ہماری اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں سے کب جان چھوٹے گی؟ ہم پہلے ہی بہت کچھ دیکھ چکے ہیں ،حکومت سندھ سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ شہر کو جرائم سے پاک کیا جائے۔
پورے ملک کا سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر میں انسانی جانوں کا یہ حال ہے جبکہ ہم دکاندار ٹیکسز بھی ادا کر رہے ہیں لیکن ہمیں سکون اور تعاون نہیں مل رہا ، مقتول نوجوان عبدالمتین کی 2 ماہ بعد شادی تھی مال تو چلا گیا دوبارہ کما لینگے لیکن جو جوان بچے کی جان گئی ہے وہ کون واپس لائے گا۔
ایک دکاندار نوجوان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کی آواز سن کر انھوں نے دکان کے شٹر گرا دیئے اور جب باہر نکلے تو ایک خاتون کی ٹانگ پر گولی لگی ہوئی تھی اور اس کی ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا جسے پٹی باندھ کر اسپتال روانہ کیا۔
نوجوان نے سوال کیا کہ آخر حکومت سندھ اور پولیس کیا کر رہی ہے جو ڈاکو آزادانہ گھوم رہے ہیں ، اس حوالے ایس ایچ او کورنگی عدیل افضال نے بتایا کہ مسلح ڈاکوؤں نے 2 جیولرز کی دکانوں میں واردات کی ہے اور مزاحمت پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دکاندار اور ایک راہگیر خاتون زخمی ہوگئی۔
انھوں نے بتایا کہ دوران واردات کتنا سونا لوٹا گیا اس کی معلومات حاصل کی جا رہی ہے جبکہ پولیس سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ڈاکوؤں کی شناخت کی کوششیں کر رہی ہے اور جلد انھیں گرفتار کرلیا جائیگا۔