WE News:
2025-11-03@03:22:29 GMT

بلوچستان: بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

نیشنل عوامی پارٹی یعنی نیپ جمہوریت پر شعوری طور پر یقین رکھنے والی واحد سیاسی جماعت تھی جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان کو سیاسی بندھن میں باندھا ہوا تھا۔ مغربی پاکستان میں اس جماعت نے پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہوا تھا۔ ولی خان، میر علی تالپور، میاں افتخار الدین، عطااللہ مینگل، عبدالصمد خان اچکزئی حاکم علی زرداری، رسول بخش پلیجو اور گل خان نصیر جیسے اونچے قد کاٹھ کے لوگ اس پلیٹ فارم پر کھڑے تھے۔ 70 کے انتخابات ہوئے تو پختونخوا اور بلوچستان میں نیپ حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوگئی۔

ایک رات عراقی سفارت خانے پر چھاپہ مار کر اسلحہ برآمد کرلیا گیا۔ کہا گیا یہ اسلحہ دو صوبوں کو ملک سے الگ کرنے کے لیے نیپ کے رہنماؤں کو بھیجا گیا تھا، بلوچستان حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ نتیجے میں پختونخوا کے وزیراعلیٰ مفتی محمود نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ سال کون سا تھا؟ یہ 73 کا سال تھا۔ یعنی وہ سال کہ جس سال پاکستان کا آئین مرتب کیا جا رہا تھا، یعنی ہمارا آئین ایسے ماحول میں تشکیل دیا جارہا تھا کہ جب دو صوبوں میں منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کیا جا چکا تھا اور سیاسی لیڈر شپ یا جیلوں میں تھی یا اپنے کارکنوں کے جنازے اٹھا رہی تھی۔

جبر، تشدد اور لاتعلقی کے اس پورے موسم میں بھی ولی خان اور غوث بخش بزنجو نے آئین سازی کے معاملے میں سیاسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ نیپ کے کارکن اس پر خوش نہ تھے، وہ اپنی لڈرشپ سے پوچھے جا رہے تھے کہ تم لوگوں کو حکومت کا خاتمہ، جنازے، تشدد، مقدمے اور پرچے نظر نہیں آرہے؟ تاہم رہنماؤں نے اپنے ذاتی زخموں اور کارکنوں کے سوالوں کو آئین سازی کے لیے ہونے والی پارلیمانی مشقوں پر اثر انداز نہیں ہونے دیا، لیکن آئین سازی کا عمل مکمل ہوتے ہی نیپ کے رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ صوبوں میں موجود کارکن جو اب تک دُکھی تھے، وہ ناراض ہوگئے۔

ناراضی نہ ختم ہونے والی مایوسی میں اس وقت بدل گئی جب نیپ پر باقاعدہ پابندی عائد کردی گئی اور ملک کے بڑے رہنماؤں پر حیدرآباد سازش کیس کے تحت مقدمات شروع کر دیے گئے۔ یہ دراصل ملک میں ایک بڑا سیاسی خلا پیدا ہونے جا رہا تھا۔ اس کا عملی اظہار تب ہوا جب 1988 کے انتخابات میں غوث بخش بزنجو جیسے رہنماؤں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ بلوچستان میں محض چند چہروں کی شکست نہیں تھی، یہ وہاں پارلیمانی سیاست کے خاتمے کا آغاز تھا۔

نیپ کے رہنماؤں سے مستقل جان خلاصی کے لیے یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ بلوچستان میں اب انجینیئرڈ انتخابی بندوبست کیا جائے گا، اس فیصلے نے وقت کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں ووٹر کے ٹرن آؤٹ کو ہوتے ہوتے صفر پر پہنچا دیا۔

جنرل مشرف کے دور میں ڈاکٹر شازیہ کیس میں سرکار اور نواب اکبر بگٹی کے بیچ سینگیں پھنس گئیں، ڈاکٹر شازیہ خالد کیس کے معاملے میں وہی سوال کھڑا ہوگیا تھا جو 50 سے زیادہ سرداروں کے ساتھ مل کر خان آف قلات نے اسکندر مرزا کے سامنے رکھا تھا۔ آپ لوگوں کے اطمینان کے لیے مقامی روایات کا احترام کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں ہمارے لوگوں کے سامنے بے عزت کیوں کروا رہے ہیں؟ اسکندر مرزا نے بھی اس بات کو بکواس کہا، جنرل مشرف نے بھی جہالت کہا۔

نَوبَت بَاِیں جا بَہ اِیں رَسِید کہ نواب صاحب نے پہاڑوں میں مورچہ لگالیا، یہ وہی نواب صاحب تھے جو کبھی نیپ کا خلا پُر کرنے کے لیے ریاست کو کندھا دینے آئے تھے۔ بگٹی صاحب کے لیے بھی یہ طعنہ بن گیا کہ یہ وہ ریاست تھی جس کے ساتھ سیاسی تعاون کی آپ بات کیا کرتے تھے؟ یہ وہی طعنہ ہے جو ولی خان اور غوث بزنجو کو ان کے کارکن آئین سازی کے موقع پر دے رہے تھے۔

اس مسئلے کو وفاق سے جو لوگ حل کر سکتے تھے وہ ملک سے باہر جلاوطنی کاٹ رہے تھے، بلوچستان سے جو لوگ حل کر سکتے تھے وہ وفاق کے لیے باغی کی حیثیت رکھتے تھے۔ جو سردار جنرل مشرف نے اکٹھے کیے ہوئے تھے وہ ہمارے آج کے صادق سنجرانی، انوارالحق کاکڑ اور سرفراز بگٹی کی طرح پیراشوٹ کے ذریعے ایوانوں میں اتارے گئے تھے۔ مینڈیٹ کے بغیر چوہدری شجاعت نے اپنی ٹیم کے ساتھ قدم بڑھانے کی ہمت تو کی مگر آدھے راستے سے واپس آنا پڑگیا۔

جنرل مشرف رخصت ہوئے تو بہت سارے مسائل کے ساتھ بلوچستان کو بھی سلگتا ہوا چھوڑ گئے۔ بگٹی اور مری قبائل کے کچھ لوگ جلاوطنی اختیار کرچکے تھے، کچھ پہاڑوں کا رخ کرچکے تھے۔ اچھی بات یہ تھی کہ عوامی مینڈیٹ رکھنے والی جلاوطن قیادت پاکستان واپس آچکی تھی، اور سردار عطااللہ مینگل بھی لاہور آنے جانے لگے تھے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ میں جا چکی تھی اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آچکی تھی۔ آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری نینشل عوامی پارٹی کے ذمہ دار رہ چکے تھے۔ خود آصف علی زرداری نے نیپ کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ اپنے اسی سیاسی پس منظر کو انہوں نے نینشل عوامی پارٹی کے رہنماؤں اور ان کی اولادوں کے دل میں اترنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ زرداری صاحب کو اس معاملے میں بینظیر بھٹو سے کہیں زیادہ کامیابی ملی۔ مشکل سے ملنے والی اس کامیابی کو پائیدار بنانے کے لیے انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کی مہر بھی لگادی۔

سال 2013 میں میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو معاملے کو وہ دو قدم آگے لے کر چلے گئے۔ میاں صاحب عمومی طور پر تمام ہی صوبوں کو انگیج کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کا منصب انہوں نے ڈاکٹر عبدالمالک کو سونپ دیا تھا۔ گورنرشپ محمود خان اچکزئی کی جماعت کو دے دی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی پختونخوا سے ہار چکی تھی، پھر بھی مشاورت کے عمل میں انہیں شامل رکھا گیا۔

میاں صاحب اس عرصے میں خان عبدالصمد خان کی برسی میں شرکت کے لیے دو بار کوئٹہ بھی جا چکے تھے۔ تصور کریں، خان شہید جیسے ‘باغی’ کی برسی ہے اور محمود خان اچکزئی نے پنجاب کے رہنما میاں محمد نواز شریف کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا ہوا ہے۔ سیاسی استحکام کی کوشش اور کسے کہتے ہیں؟

میاں صاحب نے مکمل مینڈیٹ دیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک سے کہا تھا، آپ کو یہ قلمدان دینے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ بلوچستان کے سچے سیاسی دماغوں کو انگیج کریں گے۔ آپ نے ان کی بات بھی سننی ہے جن کو ناراض بلوچ کہا جاتا ہے، اس کے لیے جو بن سکا وہ ہم کریں گے۔ خود ڈاکٹر عبدالمالک کہتے ہیں، ہم نے بہت محنت کے بعد معاملات کو ایک فیصلہ کن موڑ تک پہنچا دیا تھا۔

بلوچستان میں نادیدہ قوتیں سرگرم ہوگئیں، سیاسی شراکت کی جو بساط بچھائی گئی تھی راتوں رات الٹ دی گئی۔ اختیار اور اعتبار رکھنے والے سارے چہرے ایوان سے نکال دیے گئے، 500 ووٹوں والے بچے کو وزارت اعلیٰ کا منصب سونپ کر بلوچستان اسمبلی کو بے وزن کردیا گیا۔ نرسری سے باپ نامی ایک پارٹی اکھاڑ کر لے آئے کہ بلوچستان کی زمام اب ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ جن صاحب نے اسمبلی کے پر کترنے کا یہ فریضہ انجام دیا تھا ان کا نام محمود خان اچکزئی نے ہمیشہ بلند آواز سے لیا ہے۔

سیاسی شراکت کی مسلسل ناکامی نے بلوچستان کا سیاسی نقشہ مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کی بات کرنے والے سیاست دانوں، اساتذہ اور دانشوروں کا رہا سہا اعتبار بھی ختم کردیا گیا ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہے کہ وہ آنے والی نسل کو سیاسی شراکت اور قومی تعاون کا کوئی سبق پڑھا سکیں۔ یہ شراکت کی ایک فضیلت بتاتے ہیں، سیاسی کارکن آگے سے 10 مثالیں پرانی اور 10 مثالیں تازہ سامنے رکھ کر ان کی ہر فضیلت کو شرمندہ کر دیتے ہیں۔

وہاں پارلیمانی سیاست کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں کے نیچے سے زمین نکل چکی ہے، غیر پارلیمانی رجحانات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یہ سچائی سن لینے میں بھی حرج نہیں ہے کہ وہاں بی ایل اے جیسی تنظیموں کی عوامی تائید میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف سیکیورٹی اداروں کی عوامی ہمدردی میں ملکی سطح پر کمی واقع ہو رہی ہے۔

اب بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ ظاہر ہے یہ ہنر فقط عوامی نمائندوں کو آتا ہے، مگر معاملہ یہ ہے کہ سردار اختر مینگل پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے کر سیاست سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔ سردار یار محمد رند کہتے ہیں، میرے ہاتھ کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا ہے، ہمیں ہمارے ہی لوگوں کی نظر میں اتنا بے اعتبار کردیا گیا ہے کہ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا جائے اور کیسے کیا جائے۔

ثنااللہ بلوچ برسوں پہلے انہی احساسات کے ساتھ سینیٹ سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ اپنی آخری تقریر میں انہوں نے کہا تھا، ہم یہاں تعاون کے جذبے کے ساتھ موجود تھے، مگر ہمارے جذبات کی بے توقیری ہوئی۔ اب ہم جا رہے ہیں، مگر جو جنریشن آگے آرہی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ ان کے ساتھ آپ معاملات کر پائیں گے۔

اوپر جائیں تو میاں نواز شریف نے لب سی لیے ہیں اور تہہ دار ماسک چڑھایا لیا ہے۔ اپنے مخالف کا راستہ روکنے کے لیے موجودہ عسکری قیادت کے ساتھ کھڑے تو ہوگئے ہیں مگر وہ اپنے زخم نہیں بھلا پارہے۔ آصف علی زرداری کے پاس اپنے کچھ سوال ہیں جن کا جواب ندارد ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی خفگیوں میں اضافے ہیں، پاکستان کا مقبول لیڈر اس وقت جیل میں ہے۔ ان کے کارکنوں نے سیاسی تعاون سے اس قدر انکار کر دیا ہے کہ اپنی قیادت کی بھی نہیں سن رہے۔

پختونخوا کی نمائندہ سیاسی قیادت بھی عملاً پارلیمانی سیاست سے لاتعلق ہوچکی ہے، حاجی غلام احمد بلور تو پارلیمانی سیاست سے لاتعلقی کا باقاعدہ اعلان کر چکے ہیں۔ جو پارلیمانی سیاست کے خلاف ہیں ان کی ایک آواز پر عوام کا جم غفیر سڑکوں پر نکل رہا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سیاسی نمائندگی صفر پر کھڑی ہوئی ہے۔ جو پارلیمنٹ بھیجے گئے ہیں وہ حلقے میں نہیں جا سکتے۔ جو حلقے میں جا سکتے ہیں وہ پارلیمنٹ نہیں جا سکتے۔ کشمیر میں حب الوطنی کے نعرے دم توڑ چکے ہیں اور گلگت بلتستان میں گاؤں گاؤں مزاحمتیں پل رہی ہیں۔

اب پیچھے اکیلا مسئلہ رہ جاتا ہے، مسئلہ کہہ رہا ہے کہ یہ مسئلہ میں حل کروں گا۔ ایسے کبھی ممکن ہوا ہے؟ دنیا کی کون سی منطق کے سہارے بلوچستان کو اس بات پر قائل کیا جاسکتا ہے کہ جسے آپ مسئلہ سمجھ رہے ہیں وہ در اصل مسئلے کا حل ہے؟ ناراض لوگوں کے پاس ہمیشہ ان لوگوں کو بھیجا جاتا ہے جن کے پاس اختیارکے علاوہ دکھانے کو منہ بھی ہو۔ جس کے سبب بیمار ہوئے ہوں، عطار کے اسی لونڈے سے دوا لینا کہاں کی دانائی ہے۔

بہت اندھیرا ہے مگر مسئلے کے حل کے لیے ایک آخری کھڑکی اب بھی کھلی ہے۔ اس کھڑکی کے پار کچھ ایسے وفاقی اور صوبائی چہرے بیٹھے ہیں جو ناپسندیدہ ہیں۔ مسئلے کا حل انہی ناپسندیدہ لوگوں کے پاس ہے۔ بس ہمیں اپنی انا کی قربانی دیتے ہوئے ان کے آگے سرنڈر کرنا ہے۔ انہیں مکمل مینڈیٹ اور مکمل اختیار سونپ کر انگیجمنٹ کا ایک ہدف رکھنا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے وہ جس راستے سے ہوکر بھی جائیں، ہمیں بڑے دل کے ساتھ ان کو ان راستوں پر جانے دینا ہے۔ جو تجاویز وہ پیش کریں، ان کو قبول کرنا ہے۔

یہی آخری حل ہے، یہی آخری کھڑکی ہے، یہ کھڑکی بھی بند ہوگئی تو پھر مکمل اندھیرا ہے، اندھیرے میں ہونے والی جنگ میں بندوق تو جیت جائے گی، انسان مگر ہار جائےگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فرنود عالم

wenews آصف زرداری بلوچستان بلوچستان کے مسائل کا حل بلی کے گلے میں گھنٹی خیبرپختونخوا دہشتگردی سیاسی قیادت ناراض بلوچ نواز شریف وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان بلوچستان کے مسائل کا حل خیبرپختونخوا دہشتگردی سیاسی قیادت ناراض بلوچ نواز شریف وی نیوز پارلیمانی سیاست آصف علی زرداری بلوچستان میں کے رہنماؤں خان اچکزئی کردیا گیا نواز شریف لوگوں کے انہوں نے چکے ہیں کے ساتھ دیا گیا میں بھی کے پاس کیا جا کے لیے نیپ کے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن

پیپلز پارٹی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر اقتدار اسے حاصل ہو رہا ہے مگر اس کے مطابق وہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں، مگر ملک کے دو بڑے اور دو چھوٹے وفاقی عہدے اور دو صوبوں کی حکومتیں اس کے پاس تو تھیں ہی مگر اس نے حصول اقتدار میں اضافے کے لیے 8 ماہ کی بچی ہوئی آزاد کشمیرکی حکومت بھی حاصل کر لی مگر پھر بھی مطمئن نہیں، کیونکہ اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا۔

صوبہ سندھ میں اس کی واضح اکثریت ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو وزارتوں سے نواز رکھا ہے اور تھوک کے حساب سے سندھ حکومت کے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں بلکہ بعض کو کئی کئی عہدوں اور محکموں سے نواز رکھا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے سکھر کے میئر کو سندھ حکومت کا ترجمان بھی بنا رکھا ہے۔ سندھ حکومت نے پی پی سے باہر صرف ایک عہدہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور کراچی کے سابق ڈپٹی ناظم کو دیا ہے۔ سندھ کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ سندھ حکومت نے ان شہروں میں بھی اپنے میئر منتخب کرا رکھے ہیں، جہاں پہلے ایم کیو ایم کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے۔

پہلی بار سندھ کابینہ کی تشکیل میں بلاول بھٹو ہی کا اہم کردار ہے مگر نہ جانے کیوں انھوں نے لاڑکانہ ڈویژن کو نظرانداز کیا اور وہاں سے سندھ کابینہ میں کوئی وزیر شامل نہیں کیا۔ مرحوم آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی سندھ کی پانچ حکومتوں میں اہم وزارتوں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہے مگر پہلی بار انھیں موجودہ سندھ حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا جن کا تعلق شکارپور ضلع سے تھا اور اس بار آغا سراج پہلی بار کسی عہدے سے محروم رہے اور بلاول بھٹو ان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے آبائی گھر گڑھی یاسین ضرور گئے ہیں۔

بھٹو صاحب سے بے نظیر بھٹو تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی مختلف سالوں میں تین حکومتیں رہیں مگر پی پی کی سربراہی آصف زرداری کو ملنے کے بعد 2008 سے 2024 تک سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا رہا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نہیں ملی، جتنی آصف زرداری نے دلوائی اور انھوں نے سندھ کے تمام بڑے سرداروں، پیروں اور وڈیروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرا رکھا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہی ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی ان علاقوں سے بھی پہلی بار منتخب کرانے میں کامیاب رہی جہاں سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اس وقت سندھ کے اقتدار پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے اور اندرون سندھ تو پی پی کا مکمل گڑھ ہے۔

سندھ کے قریب بلوچستان کا صوبہ ہے جہاں کئی بار پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بلوچستان سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ایک جیسی نشستیں ملی تھیں مگر 2024کے (ن) لیگ سے انتخابی معاہدے میں آصف زرداری نے بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا بنوایا اور پنجاب و کے پی کے گورنروں، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر، قومی اسمبلی کے عہدے جو آئینی ہیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر رکھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کی حمایت ترک کرنے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے بیانات اس لیے آئے دن آتے ہیں کہ پی پی چاہے تو حکومت کی حمایت ترک کر کے (ن) لیگی حکومت ختم کرا سکتی ہے مگر (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آئینی عہدہ مسلم لیگ (ن) پی پی سے لے سکتی ہے اور پی پی رہنماؤں کے مطابق دونوں پارٹیوں کا اتحاد مجبوری کا اتحاد ہے جو کسی وجہ سے اب تک قائم ہے مگر مسلم لیگ پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔

 اس لیے پی پی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے مگر (ن) لیگ پی پی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو دھمکیاں دے کر اپنے کئی مطالبے منوائے ہیں جن میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا اہم مسئلہ بھی شامل تھا جو تسلیم نہ کیے جانے سے سندھ میں پی پی کو سیاسی نقصانات پہنچا سکتا تھا۔

پیپلز پارٹی اپنی سیاسی برتری کے باعث اب تک پنجاب میں ہوئے پاور شیئرنگ معاہدے پر (ن) لیگ سے عمل نہیں کرا سکی، کیونکہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں برتری حاصل ہے اور وہ پی پی کی محتاج تو نہیں مگر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے میں پنجاب حکومت میں پی پی رہنماؤں کو شامل کرنے کا معاہدہ موجود ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا جس پر پی پی رہنما کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی حکومت خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے واضح اکثریت موجود ہے اور وہ اب پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں ہے اور بلوچستان حکومت سے الگ ہو کر وہاں پی پی کی حکومت ضرور ختم کرا سکتی ہے مگر 27 ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے اسے پی پی کی ضرورت ہے اس لیے بلاول بھٹو مولانا سے ملنے گئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • لشکری رئیسانی کا مائنز اینڈ منرلز بل سے متعلق سیاسی رہنماؤں کو خط
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • پاکستان کسی وڈیرے، جاگیردار، جرنیل، حکمران کا نہیں، حافظ نعیم
  • بلوچستان کی ترقی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا: حافظ نعیم الرحمن
  • پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن