بلوچستان: بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
نیشنل عوامی پارٹی یعنی نیپ جمہوریت پر شعوری طور پر یقین رکھنے والی واحد سیاسی جماعت تھی جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان کو سیاسی بندھن میں باندھا ہوا تھا۔ مغربی پاکستان میں اس جماعت نے پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہوا تھا۔ ولی خان، میر علی تالپور، میاں افتخار الدین، عطااللہ مینگل، عبدالصمد خان اچکزئی حاکم علی زرداری، رسول بخش پلیجو اور گل خان نصیر جیسے اونچے قد کاٹھ کے لوگ اس پلیٹ فارم پر کھڑے تھے۔ 70 کے انتخابات ہوئے تو پختونخوا اور بلوچستان میں نیپ حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوگئی۔
ایک رات عراقی سفارت خانے پر چھاپہ مار کر اسلحہ برآمد کرلیا گیا۔ کہا گیا یہ اسلحہ دو صوبوں کو ملک سے الگ کرنے کے لیے نیپ کے رہنماؤں کو بھیجا گیا تھا، بلوچستان حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ نتیجے میں پختونخوا کے وزیراعلیٰ مفتی محمود نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ سال کون سا تھا؟ یہ 73 کا سال تھا۔ یعنی وہ سال کہ جس سال پاکستان کا آئین مرتب کیا جا رہا تھا، یعنی ہمارا آئین ایسے ماحول میں تشکیل دیا جارہا تھا کہ جب دو صوبوں میں منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کیا جا چکا تھا اور سیاسی لیڈر شپ یا جیلوں میں تھی یا اپنے کارکنوں کے جنازے اٹھا رہی تھی۔
جبر، تشدد اور لاتعلقی کے اس پورے موسم میں بھی ولی خان اور غوث بخش بزنجو نے آئین سازی کے معاملے میں سیاسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ نیپ کے کارکن اس پر خوش نہ تھے، وہ اپنی لڈرشپ سے پوچھے جا رہے تھے کہ تم لوگوں کو حکومت کا خاتمہ، جنازے، تشدد، مقدمے اور پرچے نظر نہیں آرہے؟ تاہم رہنماؤں نے اپنے ذاتی زخموں اور کارکنوں کے سوالوں کو آئین سازی کے لیے ہونے والی پارلیمانی مشقوں پر اثر انداز نہیں ہونے دیا، لیکن آئین سازی کا عمل مکمل ہوتے ہی نیپ کے رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ صوبوں میں موجود کارکن جو اب تک دُکھی تھے، وہ ناراض ہوگئے۔
ناراضی نہ ختم ہونے والی مایوسی میں اس وقت بدل گئی جب نیپ پر باقاعدہ پابندی عائد کردی گئی اور ملک کے بڑے رہنماؤں پر حیدرآباد سازش کیس کے تحت مقدمات شروع کر دیے گئے۔ یہ دراصل ملک میں ایک بڑا سیاسی خلا پیدا ہونے جا رہا تھا۔ اس کا عملی اظہار تب ہوا جب 1988 کے انتخابات میں غوث بخش بزنجو جیسے رہنماؤں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ بلوچستان میں محض چند چہروں کی شکست نہیں تھی، یہ وہاں پارلیمانی سیاست کے خاتمے کا آغاز تھا۔
نیپ کے رہنماؤں سے مستقل جان خلاصی کے لیے یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ بلوچستان میں اب انجینیئرڈ انتخابی بندوبست کیا جائے گا، اس فیصلے نے وقت کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں ووٹر کے ٹرن آؤٹ کو ہوتے ہوتے صفر پر پہنچا دیا۔
جنرل مشرف کے دور میں ڈاکٹر شازیہ کیس میں سرکار اور نواب اکبر بگٹی کے بیچ سینگیں پھنس گئیں، ڈاکٹر شازیہ خالد کیس کے معاملے میں وہی سوال کھڑا ہوگیا تھا جو 50 سے زیادہ سرداروں کے ساتھ مل کر خان آف قلات نے اسکندر مرزا کے سامنے رکھا تھا۔ آپ لوگوں کے اطمینان کے لیے مقامی روایات کا احترام کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں ہمارے لوگوں کے سامنے بے عزت کیوں کروا رہے ہیں؟ اسکندر مرزا نے بھی اس بات کو بکواس کہا، جنرل مشرف نے بھی جہالت کہا۔
نَوبَت بَاِیں جا بَہ اِیں رَسِید کہ نواب صاحب نے پہاڑوں میں مورچہ لگالیا، یہ وہی نواب صاحب تھے جو کبھی نیپ کا خلا پُر کرنے کے لیے ریاست کو کندھا دینے آئے تھے۔ بگٹی صاحب کے لیے بھی یہ طعنہ بن گیا کہ یہ وہ ریاست تھی جس کے ساتھ سیاسی تعاون کی آپ بات کیا کرتے تھے؟ یہ وہی طعنہ ہے جو ولی خان اور غوث بزنجو کو ان کے کارکن آئین سازی کے موقع پر دے رہے تھے۔
اس مسئلے کو وفاق سے جو لوگ حل کر سکتے تھے وہ ملک سے باہر جلاوطنی کاٹ رہے تھے، بلوچستان سے جو لوگ حل کر سکتے تھے وہ وفاق کے لیے باغی کی حیثیت رکھتے تھے۔ جو سردار جنرل مشرف نے اکٹھے کیے ہوئے تھے وہ ہمارے آج کے صادق سنجرانی، انوارالحق کاکڑ اور سرفراز بگٹی کی طرح پیراشوٹ کے ذریعے ایوانوں میں اتارے گئے تھے۔ مینڈیٹ کے بغیر چوہدری شجاعت نے اپنی ٹیم کے ساتھ قدم بڑھانے کی ہمت تو کی مگر آدھے راستے سے واپس آنا پڑگیا۔
جنرل مشرف رخصت ہوئے تو بہت سارے مسائل کے ساتھ بلوچستان کو بھی سلگتا ہوا چھوڑ گئے۔ بگٹی اور مری قبائل کے کچھ لوگ جلاوطنی اختیار کرچکے تھے، کچھ پہاڑوں کا رخ کرچکے تھے۔ اچھی بات یہ تھی کہ عوامی مینڈیٹ رکھنے والی جلاوطن قیادت پاکستان واپس آچکی تھی، اور سردار عطااللہ مینگل بھی لاہور آنے جانے لگے تھے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ میں جا چکی تھی اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آچکی تھی۔ آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری نینشل عوامی پارٹی کے ذمہ دار رہ چکے تھے۔ خود آصف علی زرداری نے نیپ کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ اپنے اسی سیاسی پس منظر کو انہوں نے نینشل عوامی پارٹی کے رہنماؤں اور ان کی اولادوں کے دل میں اترنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ زرداری صاحب کو اس معاملے میں بینظیر بھٹو سے کہیں زیادہ کامیابی ملی۔ مشکل سے ملنے والی اس کامیابی کو پائیدار بنانے کے لیے انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کی مہر بھی لگادی۔
سال 2013 میں میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو معاملے کو وہ دو قدم آگے لے کر چلے گئے۔ میاں صاحب عمومی طور پر تمام ہی صوبوں کو انگیج کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کا منصب انہوں نے ڈاکٹر عبدالمالک کو سونپ دیا تھا۔ گورنرشپ محمود خان اچکزئی کی جماعت کو دے دی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی پختونخوا سے ہار چکی تھی، پھر بھی مشاورت کے عمل میں انہیں شامل رکھا گیا۔
میاں صاحب اس عرصے میں خان عبدالصمد خان کی برسی میں شرکت کے لیے دو بار کوئٹہ بھی جا چکے تھے۔ تصور کریں، خان شہید جیسے ‘باغی’ کی برسی ہے اور محمود خان اچکزئی نے پنجاب کے رہنما میاں محمد نواز شریف کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا ہوا ہے۔ سیاسی استحکام کی کوشش اور کسے کہتے ہیں؟
میاں صاحب نے مکمل مینڈیٹ دیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک سے کہا تھا، آپ کو یہ قلمدان دینے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ بلوچستان کے سچے سیاسی دماغوں کو انگیج کریں گے۔ آپ نے ان کی بات بھی سننی ہے جن کو ناراض بلوچ کہا جاتا ہے، اس کے لیے جو بن سکا وہ ہم کریں گے۔ خود ڈاکٹر عبدالمالک کہتے ہیں، ہم نے بہت محنت کے بعد معاملات کو ایک فیصلہ کن موڑ تک پہنچا دیا تھا۔
بلوچستان میں نادیدہ قوتیں سرگرم ہوگئیں، سیاسی شراکت کی جو بساط بچھائی گئی تھی راتوں رات الٹ دی گئی۔ اختیار اور اعتبار رکھنے والے سارے چہرے ایوان سے نکال دیے گئے، 500 ووٹوں والے بچے کو وزارت اعلیٰ کا منصب سونپ کر بلوچستان اسمبلی کو بے وزن کردیا گیا۔ نرسری سے باپ نامی ایک پارٹی اکھاڑ کر لے آئے کہ بلوچستان کی زمام اب ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ جن صاحب نے اسمبلی کے پر کترنے کا یہ فریضہ انجام دیا تھا ان کا نام محمود خان اچکزئی نے ہمیشہ بلند آواز سے لیا ہے۔
سیاسی شراکت کی مسلسل ناکامی نے بلوچستان کا سیاسی نقشہ مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کی بات کرنے والے سیاست دانوں، اساتذہ اور دانشوروں کا رہا سہا اعتبار بھی ختم کردیا گیا ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہے کہ وہ آنے والی نسل کو سیاسی شراکت اور قومی تعاون کا کوئی سبق پڑھا سکیں۔ یہ شراکت کی ایک فضیلت بتاتے ہیں، سیاسی کارکن آگے سے 10 مثالیں پرانی اور 10 مثالیں تازہ سامنے رکھ کر ان کی ہر فضیلت کو شرمندہ کر دیتے ہیں۔
وہاں پارلیمانی سیاست کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں کے نیچے سے زمین نکل چکی ہے، غیر پارلیمانی رجحانات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یہ سچائی سن لینے میں بھی حرج نہیں ہے کہ وہاں بی ایل اے جیسی تنظیموں کی عوامی تائید میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف سیکیورٹی اداروں کی عوامی ہمدردی میں ملکی سطح پر کمی واقع ہو رہی ہے۔
اب بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ ظاہر ہے یہ ہنر فقط عوامی نمائندوں کو آتا ہے، مگر معاملہ یہ ہے کہ سردار اختر مینگل پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے کر سیاست سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔ سردار یار محمد رند کہتے ہیں، میرے ہاتھ کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا ہے، ہمیں ہمارے ہی لوگوں کی نظر میں اتنا بے اعتبار کردیا گیا ہے کہ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا جائے اور کیسے کیا جائے۔
ثنااللہ بلوچ برسوں پہلے انہی احساسات کے ساتھ سینیٹ سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ اپنی آخری تقریر میں انہوں نے کہا تھا، ہم یہاں تعاون کے جذبے کے ساتھ موجود تھے، مگر ہمارے جذبات کی بے توقیری ہوئی۔ اب ہم جا رہے ہیں، مگر جو جنریشن آگے آرہی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ ان کے ساتھ آپ معاملات کر پائیں گے۔
اوپر جائیں تو میاں نواز شریف نے لب سی لیے ہیں اور تہہ دار ماسک چڑھایا لیا ہے۔ اپنے مخالف کا راستہ روکنے کے لیے موجودہ عسکری قیادت کے ساتھ کھڑے تو ہوگئے ہیں مگر وہ اپنے زخم نہیں بھلا پارہے۔ آصف علی زرداری کے پاس اپنے کچھ سوال ہیں جن کا جواب ندارد ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی خفگیوں میں اضافے ہیں، پاکستان کا مقبول لیڈر اس وقت جیل میں ہے۔ ان کے کارکنوں نے سیاسی تعاون سے اس قدر انکار کر دیا ہے کہ اپنی قیادت کی بھی نہیں سن رہے۔
پختونخوا کی نمائندہ سیاسی قیادت بھی عملاً پارلیمانی سیاست سے لاتعلق ہوچکی ہے، حاجی غلام احمد بلور تو پارلیمانی سیاست سے لاتعلقی کا باقاعدہ اعلان کر چکے ہیں۔ جو پارلیمانی سیاست کے خلاف ہیں ان کی ایک آواز پر عوام کا جم غفیر سڑکوں پر نکل رہا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سیاسی نمائندگی صفر پر کھڑی ہوئی ہے۔ جو پارلیمنٹ بھیجے گئے ہیں وہ حلقے میں نہیں جا سکتے۔ جو حلقے میں جا سکتے ہیں وہ پارلیمنٹ نہیں جا سکتے۔ کشمیر میں حب الوطنی کے نعرے دم توڑ چکے ہیں اور گلگت بلتستان میں گاؤں گاؤں مزاحمتیں پل رہی ہیں۔
اب پیچھے اکیلا مسئلہ رہ جاتا ہے، مسئلہ کہہ رہا ہے کہ یہ مسئلہ میں حل کروں گا۔ ایسے کبھی ممکن ہوا ہے؟ دنیا کی کون سی منطق کے سہارے بلوچستان کو اس بات پر قائل کیا جاسکتا ہے کہ جسے آپ مسئلہ سمجھ رہے ہیں وہ در اصل مسئلے کا حل ہے؟ ناراض لوگوں کے پاس ہمیشہ ان لوگوں کو بھیجا جاتا ہے جن کے پاس اختیارکے علاوہ دکھانے کو منہ بھی ہو۔ جس کے سبب بیمار ہوئے ہوں، عطار کے اسی لونڈے سے دوا لینا کہاں کی دانائی ہے۔
بہت اندھیرا ہے مگر مسئلے کے حل کے لیے ایک آخری کھڑکی اب بھی کھلی ہے۔ اس کھڑکی کے پار کچھ ایسے وفاقی اور صوبائی چہرے بیٹھے ہیں جو ناپسندیدہ ہیں۔ مسئلے کا حل انہی ناپسندیدہ لوگوں کے پاس ہے۔ بس ہمیں اپنی انا کی قربانی دیتے ہوئے ان کے آگے سرنڈر کرنا ہے۔ انہیں مکمل مینڈیٹ اور مکمل اختیار سونپ کر انگیجمنٹ کا ایک ہدف رکھنا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے وہ جس راستے سے ہوکر بھی جائیں، ہمیں بڑے دل کے ساتھ ان کو ان راستوں پر جانے دینا ہے۔ جو تجاویز وہ پیش کریں، ان کو قبول کرنا ہے۔
یہی آخری حل ہے، یہی آخری کھڑکی ہے، یہ کھڑکی بھی بند ہوگئی تو پھر مکمل اندھیرا ہے، اندھیرے میں ہونے والی جنگ میں بندوق تو جیت جائے گی، انسان مگر ہار جائےگا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بلوچستان کے مسائل کا حل خیبرپختونخوا دہشتگردی سیاسی قیادت ناراض بلوچ نواز شریف وی نیوز پارلیمانی سیاست آصف علی زرداری بلوچستان میں کے رہنماؤں خان اچکزئی کردیا گیا نواز شریف لوگوں کے انہوں نے چکے ہیں کے ساتھ دیا گیا میں بھی کے پاس کیا جا کے لیے نیپ کے
پڑھیں:
داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟
اسلام ٹائمز: اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔ پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ تحریر: محمد عامر رانا
بلوچ باغیوں کی جانب سے دہشتگردانہ حملوں میں اضافے اور اب داعش خراساں کی تنازع میں خاموش مگر حساب کے مطابق شمولیت کے بعد سے بلوچستان کا سیکیورٹی منظرنامہ تیزی سے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک غیرمتوقع اقدام کے تحت داعش خراساں نے اپنے قوم پرست ایجنڈوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اپنی صفوں میں موجود باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ حال ہی میں داعش خراساں نے پاکستان میں نسلی لسانی قوم پرست تحریکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں واضح طور پر بلوچ اور پختون قوم پرست تحریکوں کو نشانہ بنایا گیا۔ گروپ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنما منظور پشتین پر بھی تنقید کی۔ ایسا کتابچہ جاری کیا جانا ہی اپنے آپ میں تشویش ناک تھا۔
تاہم اگلے دن داعش خراساں نے ایک آڈیو جاری کرکے معاملات کو مزید کشیدہ کیا جس میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اپنے جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے الزام کو جواز بنا کر بلوچ باغیوں کے خلاف باضابطہ اعلانِ جنگ کیا۔ اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔
پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ 2016ء سے اب تک داعش خراساں بلوچستان میں 33 دہشتگرد حملوں میں ملوث رہی ہے جن کے نتیجے میں 436 افراد ہلاک اور 691 زخمی ہوئے۔ مزارات اور گرجا گھر اس کے بنیادی اہداف میں شامل رہے ہیں۔ داعش خراساں نے مزارات اور گرجا گھروں پر 8 حملے کیے ہیں جبکہ سیاسی شخصیات بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے وابستہ سیاستدان اس کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیو ہیلتھ ورکرز بھی اس کے اہداف میں شامل رہے ہیں۔
جے یو آئی کے کئی سینئر رہنماؤں پر داعش خراساں نے بلوچستان میں حملہ کیا گیا جن میں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حمد اللہ اور مولانا عبدالواسع شامل ہیں۔ اس نے سبی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کو بھی نشانہ بنایا جبکہ سب سے خطرناک حملہ سابق صدر عارف علوی پر قاتلانہ حملہ تھا، جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ اس گروپ نے قوم پرست رہنماؤں اور ریاست نواز سیاستدانوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سراج رئیسانی کو 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ اس گروپ کی ایک اور اہم کارروائی مستونگ میں چینی شہریوں کا اغوا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی داعش خراساں کی کارروائیاں مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اس کی سرگرمیاں زیادہ تر قبائلی ضلع باجوڑ اور پشاور تک محدود ہیں جہاں اس نے بالترتیب 36 اور 19 حملے کیے ہیں۔ داعش خراساں، اسلام کی سلفی مکتبہ فکر کی سختی سے پیروی کرتا ہے جو باجوڑ اور افغانستان کے ہمسایہ علاقوں جیسے کنڑ اور نورستان میں بھی رائج ہے۔ یہ افغان علاقے جہاں داعش خراساں کی گرفت مستحکم ہے، ان کی پاکستان کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں، تاہم بلوچستان میں اس کے آپریشنل حالات مختلف ہے۔
داعش خراساں کی سرگرمیاں صوبے کے وسطی مغربی حصے میں، کوئٹہ کے مضافات سے مستونگ، قلات اور خضدار کے کچھ حصوں پر مرکوز ہیں۔ مستونگ سے اس کی کارروائیاں بولان تک پھیلی ہوئی ہے اور سندھ کی سرحد سے متصل ضلع سبی تک اس کا دائرہ موجود ہے۔ ایک موقع پر سندھ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی نے رپورٹ کیا کہ داعش خراساں نے صوبائی سرحد کے قریب بلوچستان میں تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں اور وہ سندھی نوجوانوں بالخصوص براہوئی قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو استعمال کرکے سندھ میں دہشتگردی برآمد کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹس فروری 2017ء میں سیہون شریف کے مشہور مزار پر داعش خراساں کے دہشتگردانہ حملے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آئیں۔
مستونگ اور کوئٹہ کے مضافات داعش خراساں کے بڑے مرکز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں اس نے بالترتیب 12 اور 10 حملے کیے ہیں۔ یہ قلات، بولان اور خضدار میں بھی موجود ہے جو قریب ہی واقع ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر بلوچ کمیونٹیز آباد ہیں جن میں سے اکثر مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ جے یو آئی کو یہاں مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہے اور کچھ ماہرین اس مذہبی جھکاؤ کو پاکستان میں انضمام سے پہلے ریاست قلات کی دیوبندی مدارس کی سرپرستی کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ خیر وجوہات سے قطع نظر، بلوچستان میں مختلف اسلامی تحریکوں بشمول تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور شیعہ تنظیموں کے درمیان مسابقت بڑھ رہی ہے۔
شیعہ مدارس نے گزشتہ 15 سالوں میں خطے میں اپنی موجودگی کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ بالخصوص لشکر جھنگوی (جو بعد میں داعش خراساں میں ضم ہوگئی) جیسے گروہوں کی جانب سے شیعہ زائرین پر حملے، مستونگ اور نوشکی اضلاع سے گزرنے والے راستوں پر کیے گئے۔ ماضی میں اکثر یہاں قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ٹی ایل پی نے بھی اس خطے میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ اس نے بنیادی طور پر کراچی سے، کوئٹہ-کراچی ہائی وے کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ کراچی میں رہنے والے اس علاقے کے کچھ بلوچ باشندوں نے اس اثر و رسوخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بہر حال، جے یو آئی خطے میں ایک غالب سیاسی قوت ہے اور اس کے پاس اہم انتخابی طاقت موجود ہے۔
داعش خراساں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کو نشانہ کیوں بناتا ہے، یہ انتہائی واضح ہے۔ یہ گروپ جے یو آئی کو پاکستان میں طالبان کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پہلے افغان طالبان اور داعش خراساں کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں گروہوں کے درمیان اہم فرق ریاستی ڈھانچے اور خلافت کے تصور کے حوالے سے ان کے خیالات میں ہے۔
داعش خراساں کا ماننا ہے کہ طالبان قوم پرست تحریک ہے جو مغرب کی اتحادی ہے جبکہ پاکستان، دیگر مسلم ریاستوں اور طالبان کے طاقتور اشرافیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ داعش خراساں کے نزدیک قوم پرستی غیراسلامی تصور ہے اور اب اس نے اپنی کارروائیوں کے دائرے کو ملک میں پُرتشدد اور پُرامن دونوں طرح کی قوم پرست تحریکوں تک پھیلا دیا ہے۔ یہ پیشرفت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرستوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے لیے خطرے کو بڑھا دے گی جبکہ اسلام پسند عسکریت پسندوں اور قوم پرست باغیوں کے درمیان ممکنہ جھڑپوں کو بھی متحرک کرے گی۔
اب تک دونوں فریقین نے تصادم سے گریز کیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ایسے علاقوں میں سرگرم ہیں کہ جہاں بیک وقت دونوں گروپس کارروائیاں کررہے ہیں۔ تاہم ان حرکیات میں تبدیلی کا امکان ہے۔ اگرچہ بی ایل اے نے اپنی آپریشنل کارروائیوں کو صوبے کے بیشتر حصوں میں وسعت دی ہے لیکن داعش خراساں بنیادی طور پر مستونگ اور اس کے اردگرد کے علاقوں تک محدود ہے۔ اس سب کے باوجود اس کی موجودگی بی ایل اے کے لیے ایک اہم خلفشار بن سکتی ہے۔
یہ غیر یقینی ہے کہ آیا یہ ریاست کے سیکیورٹی اداروں کے لیے اچھی خبر ہے یا نہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے ایک تنازع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جو بیک وقت دو مخالفین کو کمزور کرسکتا ہے لیکن حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ داعش خراساں کی جانب سے اپنی آپریشنل حکمت عملی کو ترک کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے بجائے، یہ گروہ حالات سے موافق ہوسکتا ہے اور خود کو مزید بڑھا سکتا ہے جو بلوچستان میں پہلے سے غیر مستحکم سیکیورٹی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنے گا۔
اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914647/is-k-in-balochistan