رمضان؛ عبادات یا اعمال کی تبدیلی؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
آج صبح جب میں فجر کی نماز کے لیے مسجد پہنچا تو حیرت میں ڈوب گیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہو۔ مسجد، جو عام دنوں میں آدھی بھری بھی نظر نہیں آتی تھی، آج مکمل طور پر نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔
پہلی صفوں میں جگہ پانے کے لیے لوگ جلدی پہنچے ہوئے تھے، اور قرآن کی تلاوت کی گونج ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سب کے دل کسی روشنی کی طرف کھنچے چلے آ رہے ہوں، جیسے گناہوں کا بوجھ اتارنے کی کوشش ہو رہی ہو۔
گھر سے جب آفس جانے کے لیے نکلا تو باہر کا منظر بھی بدلا ہوا تھا۔ سڑکوں پر وہ معمول کی بے ترتیبی اور شور شرابہ نہیں تھا، بلکہ ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
دکانیں، جو عام دنوں میں صبح سویرے کھل جایا کرتی تھیں، حیرت انگیز طور پر بند تھیں۔ پان، گٹکا اور سگریٹ کے عادی لوگ، جو ہر جگہ کسی نہ کسی بہانے اپنی عادت پوری کرتے نظر آتے تھے، آج ضبط کیے ہوئے تھے۔
نہ کوئی سگریٹ کے کش لگا رہا تھا، نہ کوئی چائے کے ہوٹل پر بیٹھا وقت ضائع کر رہا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیا شہر میں کوئی نیا قانون نافذ ہو گیا ہے؟ کیا لوگوں کو کسی نئی تبدیلی کا احساس ہو چکا ہے؟ ہر طرف سکون تھا، ہر چہرے پر عجب سی سنجیدگی اور وقار تھا۔ یہ سب میرے لیے ناقابلِ یقین تھا۔
پھر اچانک مجھے احساس ہوا— آج رمضان کا پہلا روزہ تھا! وہ مہینہ جس کا آنا ہی لوگوں کو بدل دیتا ہے۔ وہ برکتوں بھرا مہینہ جو نہ صرف عبادات بلکہ انسان کے پورے وجود کو ایک نئی طہارت، نئی روشنی اور نئی امید عطا کرتا ہے۔ شام کو جب بازار کا رخ کیا تو منظر بالکل الٹ تھا۔
جو لوگ کچھ دیر پہلے نماز میں آنکھوں میں آنسو لیے گناہوں سے توبہ کر رہے تھے، وہی لوگ اب پھلوں کے دام بڑھا رہے تھے، گاہکوں سے جھوٹ بول رہے تھے، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم کر رہے تھے۔ ایک طرف افطار کے لیے کھجوریں ہاتھ میں لیے ذکر اذکار میں مصروف لوگ، اور دوسری طرف وہی کھجوریں تین گنا مہنگی بیچنے والے تاجر۔ رکشے والے، جو روزے کی حالت میں بھی پورے دن کا کرایہ ایک گھنٹے میں وصول کرنے کی کوشش میں تھے۔
مال کا ذخیرہ کرنے والے وہ سرمایہ دار جو سستی اشیاء روک کر مہنگے داموں فروخت کرنے کی تیاری میں تھے۔ میں سوچ میں پڑ گیا— یہ کیسا تضاد ہے؟ رمضان صرف عبادات کا مہینہ بن چکا ہے، اعمال درست کرنے کا نہیں۔
ہمارے معاشرے میں دین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے: 1.
اعمال وہ تمام کام ہیں جو انسان کی نیت، رویے اور کردار کو ظاہر کرتے ہیں، چاہے وہ کسی کے ساتھ اچھا سلوک ہو، ایمانداری ہو، انصاف ہو یا کسی کے ساتھ دھوکہ دہی، ظلم اور بددیانتی۔ ہمارے ہاں "اچھے اخلاق" کا مطلب صرف نرم لہجے میں بات کرنا سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقی اخلاق کا تقاضا ہے کہ انسان سچ بولے، وعدہ پورا کرے، کسی کا حق نہ مارے، ملاوٹ نہ کرے، رشوت سے بچے، اور لوگوں کے ساتھ انصاف کرے۔ محض مسکرا کر بات کر لینا اور میٹھے الفاظ بولنا اچھے اخلاق کا مکمل معیار نہیں ہو سکتا، اگر انسان کے معاملات میں بددیانتی، جھوٹ اور خیانت شامل ہو۔ اسلام میں اعمال اور اخلاق کو الگ نہیں رکھا گیا، بلکہ عبادات کا مقصد ہی انسان کو نیک اعمال اور بہتر اخلاق کی طرف لے جانا ہے۔
اگر کوئی شخص پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، مگر اس کے معاملات میں خیانت، دھوکہ دہی، ظلم، اور جھوٹ شامل ہو تو اس کی عبادت کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ یہ تضاد صرف رمضان تک محدود نہیں، بلکہ ہماری ساری زندگی میں سرایت کر چکا ہے۔ عام دنوں میں بھی ہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بے ایمانی، جھوٹ، دھوکہ دہی، رشوت، چوری، بددیانتی اور ظلم و زیادتی بھی عروج پر ہوتی ہے۔
یہ وہ تضاد ہے جسے ہمیں ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہمارا دین صرف نماز، روزے اور ظاہری عبادات تک محدود ہے؟ یا پھر ہمارے اعمال بھی اس کے مطابق ہیں؟ کیا ہم صرف رمضان میں نیک بننے کے عادی ہو چکے ہیں؟ یا ہم سال کے باقی دنوں میں بھی دین کے اصولوں پر چلتے ہیں؟ کیا ہم اس رمضان صرف عبادات کریں گے یا اپنے معاملات بھی درست کریں گے؟
آئیے، اس رمضان کو حقیقی اصلاح کا ذریعہ بنائیں، نہ کہ محض ایک وقتی تبدیلی! اللّٰہ ہماری عبادات کو قبول فرمائے، ہمارے روزے اور نمازوں کو ہمارے اعمال کے ساتھ جوڑنے کی توفیق دے، ہمیں اچھے اخلاق اپنانے کی ہمت دے، اور ہمیں اس تضاد سے نکلنے کا شعور عطا فرمائے۔
تحریر عبد الباسط خان
صاحب تحریر کراچی کے رہائشی ہیں۔ پڑھنا، لکھنا اور سیاحت کا شوق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے بارے میں ان کی ایک کتاب ’’چاند ہتھیلی پر‘‘ شائع ہوچکی ہے۔ موسیقی، فلموں اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صرف عبادات تک محدود رہا تھا رہے تھے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے،محمد اورنگزیب
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اپریل2025ء) وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے، پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کریں گے۔ انہوں نے یہ بات گزشتہ روز امریکا میں پاکستانی سفارت خانہ میں عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی کارپوریٹ لیڈرز سے اہم ملاقات میں کیا۔ وزیر خزانہ نے انہیں ملک میں کلی معیشت کے استحکام اور حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں میں اصلاحات کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے دستیاب مواقع اور حکومت کی جانب سے سرمایہ کاروں کو سہولیات کی فراہمی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا ۔(جاری ہے)
وزیرخزانہ نے کہا کہ نجی شعبہ معیشت کا انجن ہے ، ملکی اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے میں نجی شعبے کا کردار اہمیت کا حامل ہے، نجی شعبے کو اس ضمن میں فعال کردار ادا کرناچاہیے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لئے وجودی خطرات ہیں ، آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا کہ 250 ملین کی ایک بڑی مارکیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان وسطی ایشیا، چین، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے حوالے گیٹ وے کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے امریکی سرمایہ کاروں کو ملک کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ، معدنیات اور زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ اس موقع پر جاز سی ای او عامر ابراہیم نے حکومتی معاشی پالیسیوں اور معیشت کی استعداد پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ ملاقات کے دوران معروف امریکی کمپنی فلپ مورس کی جانب سے ملک میں مزید سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ دیاگیا ۔ جنوبی ایشیا کے لئے عالمی بینک کے علاقائی نائب صدر مارٹن ریزر نے معاشی استحکام کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کی تعریف کی اور اس حوالے سے پاکستان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے لئے چالیس ارب کا دس سالہ پروگرام عالمی بنک کی جانب سے ملک سے وابستگی کے عزم کا عکاس ہے۔ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آئی ایم ایف بہادر بیجانی نے حکومت کی معاشی پالیسیوں اور اصلاحاتی عمل کی تعریف کی۔