حمیداللہ بھٹی
پاک سعودیہ دوستی کی تابناک تاریخ کئی عشروں پر محیط ہے۔ دونوں ممالک میں عوامی روابط کے ساتھ اعلیٰ سطح کے دوطرفہ دورے بھی معمول ہیں۔رواں ماہ بدھ 19مارچ کو وزیرِ اعظم شہباز شریف نے وزیرِ اعظم کامنصب سنبھالنے کے بعدسعودیہ کا دوسرا سرکاری دورہ کیاہے جس سے باہمی تعلقات میں مزید بہتری آنے کا امکان ہے ۔دورے کے دوران وزیرِ اعظم نے رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں زیاراتِ مقدسہ کے ساتھ دوطرفہ تعاون بڑھانے کے امکانات کاجائزہ لیا۔ پاکستان چاہتاہے سعودیہ صنعت و زراعت میں سرمایہ کاری بڑھائے تعلیمی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے میں کشاد ہ دلی دکھائے۔ گزشتہ برس اپریل 2023 کوبھی شہباز شریف نے سعودی عرب کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تھا ۔اِس دوران معمول کے تعلقات بہتر بنانے کے ساتھ دوطرفہ تعاون کے فروغ پر بات چیت ہوئی لیکن موجودہ دورے میں جس قدر اُنھیں پزیرائی ملی ہے اُس کی روشنی میں یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اِس دورے سے دونوں ممالک میں موجود بدگمانیوں کا نہ صرف خاتمہ ہوا ہے بلکہ ہر شعبے میں تعاون کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ سعودی سرمایہ کاری اب بھی پاکستان میں کم ہے کیونکہ سعودی قیادت اِس حوالے سے بھارت کو ترجیح دیتی ہے۔ بھارتی کردار کومشرقِ وسطیٰ میں فروغ دینے میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کا اہم کردار ہے جنھیں بھارت اپنا دوست کہہ کر عرب ممالک میں رسوخ بڑھاتا رہا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ ماضی میں فلسطینیوں کی خیرخواہی کا دم بھرنے والا اب اسرائیل کا قریبی دوست اور اتحادی ہے۔ ریاستوں کے باہمی تعلقات مستقل نہیں ہوتے۔ یہ حالات و مفاد کے تابع ہوتے ہیں ۔اسی لیے عرب ممالک کا بھارت کی طرف جھکائو برقرارہے ۔اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان معاشی کے ساتھ عالمی کردار بہتر بنانے پر توجہ دینے لگا ہے اب دوست ممالک سے تعاون بڑھانے اورمزید قریب ہونے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنارہونے لگی ہیں۔
سعودی عرب اور یمن جنگ کے دوران غیر جانبدار رہنے کی پاکستانی پالیسی نے ریاض اور اسلام آباد کو دورکردیا تھا مقدس مقامات کی سرزمین ہونے کی وجہ سے سعودیہ کو مسلم ممالک میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اِس بنا پر سعودی قیادت کو یقین ہوتا ہے کہ وہ جس مسلم ریاست کو آواز دے گی اُس کاجواب ہمیشہ مثبت آئے گا حالانکہ مملکتوں کے تعلقات مفادات کے تناظر میں بڑھتے اور کم ہوتے ہیں۔ سعودی قیادت کی یہ توقع کچھ غلط بھی اِس بنا پر نہیں کہ ایک تو مقدس مقامات کی سرزمین ہے ۔دوم تیل کی دولت کی وجہ سے مسلم ممالک میں مالی حوالے سے خوشحال ہے۔ اسی لیے مذہبی لگائو اور مالی امداد جیسی توقعات اُسے مسلم ممالک میں اہم کرتی ہیں۔ پاکستان نے تو ہمیشہ سعودی احکامات کی بجاآوری کی ہے۔ اسی لیے غیر جانبداری اختیار کرنااُسے سخت ناگوار گزرا،جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں گرمجوشی کی جگہ سرد مہری آئی۔ ابتدامیںپاکستان نے سفارتی زرائع سے پیداشدہ صورتحال درست کرنے کی کوشش کی مگر بات نہ بن سکی کچھ دوست ممالک کا کردار بھی تلخی کم نہ کر سکا ۔یوں تاریخ میں پہلی بار پاک سعودیہ تعلقات خراب ہوئے حالانکہ ماضی میں پاکستان نے ہمیشہ سعودیہ کی ہاں میں ہاں ملائی دراصل پاکستان کایمن جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ سعودیہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ علاوہ ازیں شریف خاندان کی حکومت کے دوران تو ایسا ہونابعید ازقیاس تھا جن کی برسوں تک سعودی شاہوں نے مہمان نوازی کی۔ اسی بناپر یقین تھا کہ سعودی آواز پر پاکستان عسکری مدد فراہم کرنے میں تاخیر سے کام نہیں لے لگا لیکن پہلی بار پاکستان نے سعودی فیصلوں میں ساتھ دینے سے اجتناب کیاجوتلخی جنم دینے کا باعث بنا۔
پاکستان نے ایک غلطی یہ کی کہ یمن جنگ کا مسلہ پارلیمنٹ میں پیش کردیا جس پرزوردار بحث ہوئی عمران خان جیسے اپوزیشن رہنمائوں نے شعلہ بیانی سے حکومت کو اِس حد تک زچ کر دیا کہ نواز شریف باوجود کوشش کچھ نہ کر سکے آخرکار بحث ومباحثہ کے بعد پارلیمنٹ نے دس اپریل 2015 کو اپنی افواج بھیجنے کی بجائے یمن جنگ میں غیر جانبدار رہے کی قراردادمنظورکر لی جبکہ سعودیہ کو توقع تھی کہ شریف خاندان احسانات کا بدلہ لڑائی کے لیے فوج بھیج کر چکائے گا مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا غیر جانبدار ی کے فیصلے پر متحدہ عرب امارت نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی بھی دے ڈالی حالانکہ عرب مارات کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ کسی سے لڑناتو درکنار اپنا دفاع کرنے سے بھی قاصر ہے صاف ظاہر تھا کہ اُس نے یہ دھمکی سعودی قیادت کے ایما پر دی تھی۔ اِس لیے تلخی کا ذمہ اکیلے پاکستان کو ٹھہرانا انصاف نہیں ایک طرف اگر توقعات پوری نہ ہونے کارنج تھا تو دوسری طرف مجبوریاں آڑے آئیں ۔
2018 کے عام انتخابات میں شریف خاندان حکومت سے اپوزیشن میں آگئے اورعنانِ اقتدار عمران خان نے سنبھال لی تو اُنھیں معلوم ہوا کہ سعودی ترسیلاتِ زر کھونے کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ نیز قرضوں کی دلدل میں پھنسے پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل کی سہولت جیسی نوازش ایک اور مہربانی ہے۔ پاکستان جسے کئی عشروں سے معاشی بدحالی اور بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ نوازشات بہت اہم ہیں اصل حالات کا علم ہوتے ہی وہی عمران خان جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے یمن جنگ کا حصہ بننے کو ملک کے لیے نقصان دہ تصور کرتے تھے حکومت میں آتے ہی سعودی تعاون بحال کرانے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے نہ صرف سعودی شاہوں سے زاتی تعلقات بنائے بلکہ دوطرفہ تعاون بہتر بنایا افرادی قوت فراہمی کے مزید کئی معاہدے کیے مئی 2021کے دورہ سعودی عرب کے دوران عمران خان نے دوطرفہ تعاون میںاضافے کے لیے ایک کونسل تشکیل پائی جس کاتلخیاں کم کرنے اور شراکت داری کے فروغ میں قابلِ قدرحصہ ہے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے بھی عمران خان کی کوششوں کو بارآور بنانے میں بھرپور ساتھ دیا اِس طرح دوریاں کم ہوئیں اور باہمی تعلقات میں کچھ گرمجوشی دیکھی جانے لگی ۔ پاک سعودیہ بڑھتی شراکت داری ثابت کرتی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی ضرورت ہیں دفاع،توانائی،آئی ٹی،معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں بھی یہ شراکت داری برقرار رہے گی۔ معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں کے مطابق آمدہ پانچ برس کے دوران پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کا حجم پچیس ارب ڈالر ہو گااگر سرمایہ کاری کا یہ سنگِ میل توقعات کے مطابق عبور کر لیا جا تا ہے تو نہ صرف پاکستان کی معیشت میں بہترہو گی بلکہ تیل کے متبادل معیشت بنانے کے سعودی منصوبہ کوبھی تقویت ملے گی ۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: دوطرفہ تعاون سرمایہ کاری دونوں ممالک سعودی قیادت پاک سعودیہ پاکستان نے ممالک میں کے دوران کہ سعودی کے ساتھ
پڑھیں:
سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں ہیں.سعودی وزیر دفاع
ریاض(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 ستمبر ۔2025 )سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودیہ اور پاکستان، جارح کے مقابل ایک ہی صف میں، ہمیشہ اور ابد تک۔(جاری ہے)
سعودی وزیر دفاع نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدے کی خبر اردو زبان میں بھی پوسٹ کی، جس میں انہوں نے لکھا کہ سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں، ہمیشہ اور ابد تک .
برطانوی نشریاتی ادارے نے رپورٹ میں کہا کہ سعودی عرب اور ایٹمی طاقت رکھنے والے پاکستان نے ایک باضابطہ باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس سے عشروں پر محیط سلامتی شراکت داری کو نمایاں طور پر مزید مضبوطی ملی ہے یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب خطے میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے. ایک سینئر سعودی اہلکار نے نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے معاہدے کے وقت سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ معاہدہ کئی برسوں کی بات چیت کا نتیجہ ہے، یہ کسی خاص ملک یا کسی مخصوص واقعے کے ردِعمل میں نہیں بلکہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور گہرے تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کا عمل ہے . انہوں نے دونوں ممالک کے دفاعی معاہدہ کو جامع دفاعی معاہدہ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا دفاعی معاہدہ تمام فوجی وسائل کا احاطہ کرتا ہے. رپورٹ کے مطابق یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب حماس کی سیاسی قیادت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جنگ بندی کی تجویز پر بات چیت کر رہی تھی، تو اسرائیل کی جانب سے حماس قیادت پر فضائی حملے کی کوشش نے عرب ممالک کو شدید برانگیختہ کر دیا عالمی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ایک پیچیدہ خطے میں سٹریٹجک حساب کتاب کو بدل سکتا ہے، اس سے قبل واشنگٹن کے اتحادی خلیجی ممالک اپنی دیرینہ سلامتی کے خدشات دور کرنے کے لئے ایران اور اسرائیل دونوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں . غزہ کی جنگ نے خطے کی صورتِ حال کو تہ و بالا کر دیا ہے اور خلیجی ریاست قطر ایک ہی سال میں 2 مرتبہ براہِ راست حملوں کا نشانہ بنی ہے، ایک بار ایران کی جانب سے اور دوسری بار اسرائیل کی طرف سے سینئر سعودی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس معاہدے کے تحت پاکستان سعودی عرب کو جوہری تحفظ(نیوکلیئر امبریلا ) فراہم کرنے کا پابند ہوگا تو اہلکار نے کہا کہ یہ ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جو تمام فوجی شعبوں کو شامل کرتا ہے. پاکستانی سرکاری ٹیلی وژن نے یہ منظر دکھایا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، جو مملکت کے عملی حکمران سمجھے جاتے ہیں، معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی موجود تھے.