سولہ ہزار قیدیوں کو کاروباری ہنر سکھانے کا منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مارچ 2025ء) ہیومن رائٹس واچ آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کو پابند کیا جاتا ہے۔ اس لیے جیلوں میں بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی ایک چیلنج ہی رہتا ہے۔
تاہم پنجاب کی جیلوں میں اصلاحات کا عمل جاری ہے اور صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ ان مسائل پر قابو پا لیا جائے۔
اسی لیے پنجاب کی جیلوں میں قید ہزاروں سزا یافتہ قیدیوں کو ان دنوں مختلف فنی اور کاروباری ہنر سکھائے جا رہے ہیں تاکہ وہ رہائی کے بعد جرائم کی دنیا سے دور ہو کر اپنی زندگی کا آغاز کسی باعزت روزگار سے کر سکیں۔قیدیوں کے لیے شروع کیا جانے والا اپنی نوعیت کا یہ منفرد منصوبہ جہاں قیدیوں کی زندگی بدلنے کی امید جگا رہا ہے، وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا صرف ہنر سکھانا کافی ہے یا بحالی کے لیے ایک مکمل نظام کی ضرورت ہے؟
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صوبے کی 44 جیلوں میں 37,563 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش موجود ہے لیکن ان میں 67,000 سے زائد افراد قید ہیں۔
(جاری ہے)
ان میں سے 16,000 سے زائد سزا یافتہ قیدی ہیں، جبکہ باقی کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ بہتری کی کوششیں جاری ہیںپنجاب کے محکمہ داخلہ کے سیکریٹری نور الامین مینگل نے بدھ کے روز کوٹ لکھپت جیل میں ایک تقریب کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ صوبے کی جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں کو نجی شعبے کی مدد سے مختلف کاروباری ہنر سکھائے جا رہے ہیں تاکہ انہیں معاشی طور پر خود مختار بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہا، ’’صوبے کی بڑی اور مرکزی جیلوں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چھوٹی صنعتیں قائم کی گئی ہیں، جہاں قیدی مختلف اشیاء تیار کر رہے ہیں، جن میں ہاتھ سے بنے قالین، لوہے کی چارپائیاں، لکڑی کا فرنیچر، سرکاری یونیفارم، قیدیوں کے کمبل، دریاں، چادریں، صابن، ٹف ٹائلز، سلے ہوئےکپڑے، ایل ای ڈی بلب، پرنٹنگ پریس، گھڑیاں، جرابیں، دستانے اور فٹ بال وغیرہ شامل ہیں۔
اسی طرح قیدیوں کو کپڑے سینے اور ہیئر کٹنگ جیسی مہارتیں بھی سکھائی جا رہی ہیں۔‘‘پنجاب کے سیکرٹری داخلہ کے مطابق جیلوں میں تیار کی گئی ان مصنوعات کا کچھ حصہ جیلوں میں استعمال ہو جاتا ہے جبکہ باقی اشیاء مختلف سرکاری اور نجی اداروں کو فروخت کی جا رہی ہیں۔ مثلاً ایک فلاحی ادارہ ہر ماہ 25,000 صابن خریدتا ہے۔ صوبائی محکمہ مواصلات کو ٹف ٹائلز بیچنے کے لیے بھی بات چیت جاری ہے۔
قیدیوں کی محنت کی کمائی، انہیں کے اکاؤنٹس میںلاہور کی کیمپ جیل کے باہر ان مصنوعات کی فروخت و نمائش کے لیے ایک ڈسپلے سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے جبکہ محکمہ جیل خانہ جات کی ایک موبائل وین مختلف علاقوں میں جا کر مختلف تقریبات میں اسٹالز لگانے میں استعمال ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ آن لائن فروخت کے لیے ویب سائٹ (www.
کوٹ لکھپت جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ (ڈویلپمنٹ) شمشاد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قیدیوں کے بنائے قالین خاصی مانگ رکھتے ہیں اور مستقبل میں مزید صنعتوں کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ جیل انڈسٹری سے حاصل ہونے والی آمدن کا ایک مخصوص حصہ بطور معاوضہ قیدیوں کے بینک اکاؤنٹس میں بھیجا جاتا ہے، جس سے وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکتے ہیں،'' ان قیدیوں کے لیے تین ماہ کا تربیتی کورس فری ہے۔
البتہ اس منصوبے میں حصہ لینے والے قیدیوں کی قید کی مدت میں دو ماہ کی تخفیف کر دی جاتی ہے۔‘‘ جرم کا راستہ دوبارہ اختیار نہ کرنے کی ترغیبپنجاب حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ اس منصوبے سے قیدی خود کفیل ہوں گے، جرائم کی شرح میں کمی آئے گی، جیلوں میں لڑائی جھگڑوں اور منشیات کا رجحان کم ہو گا اور ساتھ ہی حکومت کا مالی بوجھ بھی کم ہو گا۔
حکومتی دعوے کے مطابق نجی شعبے کو جیل انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے مواقع ملیں گے اور رہائی کے بعد قیدی ملکی صنعتوں کا حصہ بن کر پیداواری عمل میں اضافہ کریں گے۔جھنگ جیل سے کچھ عرصہ قبل رہائی پانے والے اسد نامی ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگرچہ قیدیوں کو ہنر سکھانے کا عمل ایک مثبت پیش رفت ہے مگر اس سے جیل کے تمام مسائل کا حل ممکن نہیں۔
ان کے بقول بڑے شہروں کی جیلوں میں نگرانی بہتر ہے لیکن دور دراز علاقوں کی جیلوں میں اب بھی کرپشن اور بنیادی سہولتوں کی کمی ہے۔ قیدیوں کو تنگ جگہوں میں رکھا جاتا ہے اور واش رومز کی مناسب سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ اصلاحات ناگزیر ہیںپنجاب بار کونسل کی جیل ریفارمز کمیٹی کے سابق سربراہ ملک محمد طارق نوناری ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مختلف حکومتیں اپنے اپنے دور میں جیلوں کی اصلاح کی کوشش کرتی رہی ہیں، لیکن نظام میں بڑی تبدیلی لانا اتنا آسان نہیں۔
ان کے مطابق جیلوں میں ہرعمر کے قیدی موجود ہوتے ہیں، جن کے مسائل الگ الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ رمضان جیسے مہینے میں کھانے پینے کے اوقات مخصوص ہونے کے باعث بہت سے قیدیوں کو واش رومز کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔انہوں نے مزید کہا، ’’قیدیوں کو ہنر سکھانے کا یہ منصوبہ یقیناً ایک مثبت قدم ہے، جو نہ صرف قیدیوں کی زندگی بدل سکتا ہے بلکہ معاشرے میں جرائم کی شرح میں کمی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
تاہم، اس کا حقیقی اثر تب ہی سامنے آئے گا جب یہ تربیت محض جیل کی چار دیواری تک محدود نہ رہے، بلکہ قیدیوں کی رہائی کے بعد بھی ان کے ساتھ جُڑے رہنے کا کوئی مربوط نظام بنایا جائے۔‘‘سن دو ہزار تیئس میں ہیومن رائٹس آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں زور دیا گیا تھا کہ بدعنوانی اور رشوت رستانی کے خاتمے سے جیلوں کی صورتحال بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ رشوت ستانی کے کلچر نے دولت اور اثر و رسوخ رکھنے والوں اور دیگر تمام قیدیوں کے لیے دو الگ الگ نظام بنائے ہوئے ہیں۔
ادارت: عاطف بلوچ
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی جیلوں میں قیدیوں کو قیدیوں کی قیدیوں کے بتایا کہ کے مطابق جاتا ہے کے لیے کی جیل
پڑھیں:
ٹرمپ کا دورۂ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
امریکا اور برطانیہ نے تجارتی شعبوں میں ایک ساتھ ملکر کام کرنے کا عہد کیا ہے اور متعدد معاہدوں پر دستخط کردیئے گئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ برطانیہ کے دورے پر پہنچ گئے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیلی کاپٹر کے ذریعے چیكرز پہنچے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور بعد ازاں وزیراعظم اسٹار کیئر سے دوبدو ملاقات کی۔
ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، عالمی سیاست اور خطے کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی جس کے دوران دفاعی، سیکیورٹی تعاون کو مزید فروغ دینے، تجارتی تعلقات کو وسعت دینے اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنجز پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے صدر ٹرمپ کو یقین دلایا کہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے خواہشں مند ہیں۔
جس کے جواب میں امریکی صدر نے بھی برطانیہ کو اپنا قریبی اتحادی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک عالمی امن و استحکام کے لیے مل کر کردار ادا کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں مشرقِ وسطیٰ کی حالیہ کشیدگی، یوکرین کی صورتحال اور عالمی معیشت کو درپیش خطرات پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
فریقین نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ دور میں امریکا اور برطانیہ کا اتحاد دنیا میں امن و ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
بعد ازاں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ امریکا اور برطانیہ کے تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے بتایا کہ برطانیہ کے ساتھ تجارتی ڈیل کامیاب رہی اور متعدد تجارتی معاہدوں پر دستخط ہوگئے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا کہ برطانیہ اور امریکا کے درمیان کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رہے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ امریکا اور برطانیہ کے تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں، برطانیہ کے ساتھ تجارتی ڈیل کامیاب رہی۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ ملکر سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت تمام شعبوں میں کام کررہے ہیں، شاندار استقبال پر کیئر اسٹارمر اور خاتون اوّل کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔