لیلتہ القدر: ہزار مہینوں سے افضل رات، رحمتوں اور مغفرت کا بہترین ذریعہ، اسپیکر قومی اسمبلی
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد، : اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے لیلتہ القدر کی بابرکت رات کے حوالے سے جاری اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ یہ مقدس رات ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے، اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنے اور بے شمار رحمتیں سمیٹنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیلتہ القدر وہ رات ہے جس میں قرآنِ پاک نازل ہوا۔ اس رات کی فضیلت ہزار مہینوں سے افضل ہے، اور ان مبارک ساعتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے بے پناہ برکتیں اور عطائیں رکھی ہیں۔
اسپیکر نے کہا کہ یہ مقدس رات اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے، توبہ و استغفار کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان بابرکت گھڑیوں میں ہمیں اپنے وطنِ عزیز پاکستان کے استحکام، ترقی اور خوشحالی کے لیے بھی خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، جن سے نمٹنے کے لیے دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک میں اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ ہم ایک مضبوط، خوشحال اور پرامن پاکستان کی تعمیر کر سکیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی خصوصی دعاؤں میں اپنے شہداء کو یاد رکھنا چاہیے جن کی لازوال اور بے مثال قربانیوں کے باعث ہم سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمارے شہداء ہمارا فخر ہیں جن کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اس بابرکت رات میں اپنے فلسطینی اور کشمیری بہن بھائیوں کی آزادی و حق خود ارادیت کے لیے بھی خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنے کی اپیل کی جو کئی دہائیوں سے ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔
اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سید میر غلام مصطفیٰ شاہ نے کہا کہ لیلتہ القدر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور رات ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیلتہ القدر ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکامات کی مکمل پیروی کی تلقین کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شب ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصلاح کا پیغام دیتی ہے۔ یہ رات ہمیں سکھاتی ہے کہ احکام الٰہی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم اپنے اندر صبر، تقویٰ اور خیر خواہی کی صفات پیدا کریں۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ہمیں لیلتہ القدر کی مبارک ساعتوں میں وطنِ عزیز کی سلامتی و ترقی، فلسطینی و کشمیری بھائیوں کی آزادی اور امت مسلمہ کی یکجہتی کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ٹی ایل پی پر پابندی اچھی بات ہے، کسی دہشتگرد تنظیم سے بات نہیں کرنی چاہیے: اسپیکر پنجاب اسمبلی
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کو احسن اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی دہشتگرد تنظیم سے بات نہیں کرنی چاہیے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کچھ معاملات ایسے ہیں جس پر متفق ہونا پڑے گا، صوبوں میں بیٹھے لوگ وفاق سے نہ بات کریں تو بنیادیں ہل جاتی ہیں، اسمبلی کو احتجاج کا گڑھ بنا دیا گیا، عوام کے پیسے کو ضائع کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنگوں یا قتل کے بعد بھی بات چیت سے ہی مسئلہ حل کیا جاتا ہے، وزیر اعظم نے بات چیت کے دروازے کو کھولا ہے۔اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا بھارتی دہشتگردی کے ثبوت دنیا کے سامنے رکھے ہیں، پاکستان نے اپنی سفارتی و جنگی برتری دونوں ثابت کیں، پاکستانی انٹیلی جنس کی برتری کو بھی دنیا نے تسلیم کر لیا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہے، بھارت بلوچستان میں پیسے دیکر لوگوں کو خرید کر پاکستان میں دہشتگردی کرواتا ہے، پاکستان میں پراکسی کا لبادہ اوڑھ کر بھارتی سرمایہ کاری ہوتی ہے، بھارتی جاسوس کلبھوشن اور جہلم کے اسٹیشن سے بھارتی جاسوس پکڑے۔ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا پہلگام واقعے کا بہانہ بنا کر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا، پہلگام واقعے کو 5 ماہ ہو گئے، 150 دنوں میں ثبوت نہ دیا تو الزام کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، بھارتی سوچ اور مودی نے جنگی فضا قائم کر رکھی ہے، جنگ، خون یا بارود کی بو کس کو پسند ہے، ہمیں مل کر خطے کوپرامن بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی خطے میں اپنی بدمعاشی ثابت کرے گا تو پھر پاکستان بھر پور جواب دے گا، بھارتی مذموم مقاصد کا بھر پور مقابلہ کریں گے، افغانستان میں پہلے بھی جنگی معاملات رہے اس پر اثر پاکستان پر رہا، امید کرتا ہوں پاک افغان مذاکرات نتیجہ خیز ہوں گے۔ملک محمد احمد خان نے کہا کہ پراکسی وار کے نتائج اچھے نہیں ہوتے، بھارت کو بھی نتائج اچھے نہیں ملیں گے، ہمیں امن کی بات نہیں کرنی بلکہ آگے بڑھ کر قدم بڑھانا ہے۔ایک سوال کے جواب میں اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا ٹی ایل پی پر پابندی اچھی بات ہے، کسی بھی دہشتگرد تنظیم سے بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے بزور بازو روکنا ہوگا، بات تو ان سے ہوتی ہے جو بات چیت کو سمجھتے اور یقین رکھتے ہیں، ریاست کو اپنی رٹ نافذ کرنی چاہیے۔