گلیات اور چترال کا گرم چشمہ عالمی سطح پر بایوسفیئر ریزرو قرار
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے خیبر پختون خوا کے گلیات اور چترال بشقار گرم چشمے کو عالمی سطح پر بایوسفیئر ریزرو کا درجہ دے دیا ہے۔
ترجمان کے پی حکومت بیرسٹر ڈاکٹرسیف کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے دو قدرتی مقامات کو عالمی حیثیت اور پہچان مل گئی ہے جس میں گلیات اور چترال گرمہ چشمہ بایوسفیئر ریزرو بن گئے ہیں۔
یونیسکو یہ درجہ ان قدرتی علاقوں کو دیتا ہے جہاں جنگلی حیات، جنگلات، دریاؤں اور دیگر ماحولیاتی نظام کا مؤثر تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ یہ مقامات نہ صرف قدرتی حسن اور حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے اہم ہیں بلکہ یہاں مقامی آبادی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ زندگی گزارتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سنگ میل ماحول کے تحفظ، پائیدار ترقی اور سائنسی تحقیق کے فروغ میں ایک تاریخی پیش رفت ہے اور مقامات کو عالمی تحفظ کی فہرست میں شامل کرنا ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔
بیرسٹر ڈاکٹرسیف نے کہا کہ یہ پیشرفت خیبرپختونخوا کے قدرتی وسائل کو محفوظ بنانے کے عزم کا ثبوت ہے جبکہ حکومت جنگلی حیات اور قدرتی وسائل کو مزید محفوظ بنانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کررہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ ادارے کی جانب سے ''تفریق کرنے والے سماجی و ثقافتی نظریات کو فروغ دینا‘‘ ہے۔
بروس نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ کہ وہ ’’فلسطین کی ریاست‘‘ کو رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے، امریکی پالیسی کے منافی ہے اور اس سے ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیہ کو فروغ ملا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اینا کیلی نے کہا، ''یونیسکو ایسے تقسیم پسند ثقافتی و سماجی مقاصد کی حمایت کرتا ہے جو ان عام فہم پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جن کے لیے امریکی عوام نے نومبر میں ووٹ دیا۔
(جاری ہے)
‘‘
یونیسکو کا ردِعملیونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے واشنگٹن کے فیصلے پر ''گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ اس صورتحال کے لیے پہلے سے تیار تھا۔
انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''یہ دعوے یونیسکو کی اصل کوششوں کے برخلاف ہیں۔‘‘
اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں یونیسکو کے لیے ''غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ کا فیصلہ فرانس کی وابستگی کو کمزور نہیں کرے گا۔
یونیسکو کے اہلکاروں نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے ادارے کے کچھ امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں پر محدود اثر پڑے گا، کیونکہ ادارہ اب متنوع مالی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا صرف 8 فیصد بجٹ ہی امریکہ سے آتا ہے۔
اسرائیل کا ردعملاسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے یونیسکو پر ''مسلسل غلط اور اسرائیل مخالف جانبداری‘‘ کا الزام عائد کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں امریکہ کی ''اخلاقی حمایت اور قیادت‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اسرائیل کو نشانہ بنانے اور رکن ممالک کی سیاسی چالوں کا خاتمہ ضروری ہے، چاہے وہ یونیسکو ہو یا اقوام متحدہ کے دیگر پیشہ ور ادارے۔
‘‘ امریکہ پہلے بھی یونیسکو چھوڑ چکا ہےیونیسکو طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک بین الاقوامی محاذ رہا ہے، جہاں فلسطینی عالمی اداروں اور معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اپنی ریاستی حیثیت تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو اس وقت تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں شامل نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ایک مکمل امن معاہدے کے تحت ریاستی درجہ حاصل نہ کر لے۔
امریکہ نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں یونیسکو پر سوویت نواز جانبداری کا الزام لگا کر اس سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن 2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں دو سال قبل امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی ۔
ادارت: صلاح الدین زین