اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مارچ 2025ء) روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے شمالی بندرگاہی شہر مرمانسک کے دورے کے دوران کہا ہے کہ یوکرین میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے، جس سے معاہدے کیے جا سکیں اور جنگ کے خاتمے کی راہ ہم وار ہو سکے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکی حکام ماسکو اور کییف کے ساتھ بات چیتمیں مصروف ہیں تاکہ دو ہزار بائیس سے جاری اس جنگی تنازعے کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

یوکرین اور یورپی رہنماؤں نے پوٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے سے متعلق سنجیدہ ارادہ نہیں رکھتے اور جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کو طول دینا چاہتے ہیں۔ فروری 2022 میں روس کی یوکرین پر چڑھائی کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ کئی ملین افراد بے گھر اور ہزارہا مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

پوٹن کی عبوری حکومت سے متعلق تجویز اس دیرینہ شکایت کو ظاہر کرتی ہے کہ یوکرین کی موجودہ حکومت مذاکرات کے لیے جائز فریق نہیں کیونکہ صدر وولودیمیر زیلنسکی نے مئی 2024 میں اپنے آئینی اختیارات کی مدت ختم ہونے کے باوجود اقتدار میں رہنے کا فیصلہ کیا۔

پوٹن نے بندرگاہ پر ملاحوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اصولی طور پر، اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی ممالک اور ہمارے شراکت داروں کی سرپرستی میں یوکرین میں ایک عبوری حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’اس کا مقصد انتخابات کرانا اور عوام کے اعتماد کی حامل باصلاحیت حکومت کو اقتدار میں لانا ہوگا تاکہ بعد میں ان کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کی جا سکے۔

‘‘

پوٹن کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے برعکس نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سےروس کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر آمادگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ٹرمپ واقعی امن چاہتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان سے جب پوٹن کی عبوری حکومت سے متعلق تجویز پر سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یوکرین میں حکمرانی کا فیصلہ یوکرین کا آئین اور اس کے عوام کرتے ہیں۔

یوکرین کی جانب سے فوری طور پر اس بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن اب تک کی بات چیت میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

امریکہ نے منگل کو کہا کہ اس نے ماسکو اور کییف دونوں کے ساتھ الگ الگ بات چیت کی ہے تاکہ بحیرۂ اسود میں جنگ بندی ہو، لیکن روس نے بعد میں کہا کہ جنگ بندی کا کوئی بھی معاہدہ فقط اس وقت ہی مؤثر ہوگا جب کچھ مزید شرائط پوری کی جائیں گی، جن میں ایک روس کے سرکاری بینک پر عائد پابندیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے۔

ماسکو اس سے قبل 30 دن کی مکمل جنگ بندی کی امریکی تجویز کو مسترد کر چکا ہے۔ یوکرین کے لیے یورپی مدد جاری رہے گی

جمعرات کو پیرس میں ہونے والی ایک میٹنگ کے بعد یورپی رہنما نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ کییف کی فوج کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کرتے رہیں گے تاکہ یہ یوکرین کی مستقبل کی سلامتی کا بنیادی ستون بن سکے۔

فرانس اور برطانیہ اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ اگر روس کے ساتھ جنگ بندی ہو جائے تو یوکرین میں ایک غیر ملکی امن فورس موجود ہو۔ تاہم ماسکو یوکرین میں کسی بھی غیر ملکی فوجی موجودگی کو مسترد کرتا ہے۔

صدر زیلنسکی متعدد مرتبہ اپنی قانونی حیثیت پر کسی بھی سوال کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ مارشل لا کے تحت یوکرین میں انتخابات منعقد کرنا قانوناً ممنوع ہے، اور جنگ کے دوران ووٹنگ کرانا ویسے بھی ناممکن ہوگا۔

زیلنسکی نے حالیہ دنوں میں بار بار پوٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرین کے ساتھ معدنیات سے متعلق ایک نئے اور وسیع تر معاہدے کی تجویز دی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ معدنیات کا یہ معاہدہ امریکہ کو یوکرین کے مستقبل میں مالی اعانت دے گا اور امن کی راہ ہموار کرے گا۔

واضح رہے کہ تین سال سے زائد عرصے پر محیط اس جنگ میں روسی افواج اب تک یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قبضہ کر چکی ہیں اور ماسکو نے ان میں سے چار علاقوں کو اپنا حصہ قرار دے دیا ہے۔

دوسری جانب گزشتہ برس اگست میں یوکرینی فوج نے ایک اچانک حملے کے ذریعے روسی علاقے کرسک پر قبضہ کر لیا تھا، تاہم روس اب تک اپنے اس مغربی علاقے کا زیادہ تر حصہ دوبارہ حاصل کر چکا ہے۔

ادارت : کشور مصطفیٰ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عبوری حکومت یوکرین میں یوکرین کے چاہتے ہیں چکے ہیں کے ساتھ کے لیے جنگ کے

پڑھیں:

یوکرینی اور روسی وفود میں مذاکرات کا تیسرا دور آج

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) یوکرین جنگ پر بات چیت کے لیے کییف اور ماسکو کے حکام تیسرے دور کے مذاکرات کے لیے ترکی کے شہر استنبول میں بدھ کے روز ملاقات کرنے والے ہیں۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ اس میٹنگ کے دوران تنازعے کے خاتمے سے زیادہ توجہ اس بات پر ہو گی کہ جنگی قیدیوں کے تبادلے کا عمل مزید کیسے آگے بڑھایا جائے۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے بات چیت سے قبل توقعات کو کم کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات چیت ممکنہ طور پر جنگ بندی کی تفصیلات کے بجائے جنگی قیدیوں کے تبادلے کے دوسرے دور پر مرکوز ہو گی۔

انہوں نے کییف میں سفارت کاروں کو بتایا، "ہمیں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں مزید رفتار کی ضرورت ہو گی۔"

ادھر کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بھی کہا کہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے "بڑے سفارتی کام" کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

بات چیت میں تنازعے کا ایک اہم نکتہ کییف کا غیر مشروط طور پر جنگ بندی کا مطالبہ ہے، جبکہ اس حوالے سے روس نے بھی اپنے بیشتر مطالبات کو برقرار رکھا ہے۔ ان مطالبات میں ماسکو کے غیر قانونی طور پر الحاق کیے گئے ملک کے مشرقی علاقوں سے یوکرینی فوجیوں کا مکمل انخلاء بھی شامل ہے۔

یوکرین میں زیلنسکی کے خلاف مظاہرے

صدر وولودیمیر زیلنسکی نے انسداد بدعنوانی سے متعلق دو اداروں کی خود مختاری کو محدود کرنے کے لیے ایک متنازعہ بل پر دستخط کیے ہیں، جس کی وجہ سے منگل کے روز دیر گئے یوکرین کے دارالحکومت کییف اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد مظاہرے کے لیے جمع ہوئے۔

قانون میں ان تبدیلیوں سے پراسیکیوٹر جنرل کو ایسے معاملات کی تحقیقات اور مقدمات پر نیا اختیار حاصل ہو جائے گا، جو اصل میں یوکرین کے انسداد بدعنوانی کے قومی بیورو اور خصوصی انسداد بدعنوانی کے پراسیکیوٹر آفس کے ماتحت آتے ہیں۔

بعض یورپی یونین کے عہدیداروں سمیت دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے دونوں ایجنسیوں کی آزادی نمایاں طور پر کمزور ہو جائے گی اور کسی بھی طرح کی تحقیقات میں زیلنسکی کے حلقے کو زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہو گا۔

ان دونوں ایجنسیوں نے بھی ٹیلی گرام پر ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ اگر حقیقت میں یہ بل قانون بن جاتا ہے، تو یہ ادارے اپنی آزادی کھونے کے ساتھ ہی پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کے ماتحت آ جائیں گے۔

منگل کے روز کا یہ احتجاج غیر معمولی نوعیت کا تھا، کیونکہ جنگ کے دوران ایسی بیشتر ریلیوں کی توجہ گرفتار شدہ فوجیوں یا لاپتہ افراد کی واپسی پر مرکوز رہی ہے۔

یوکرین کے ایک بلاگر اور کارکن، جن کے ایک ملین سے زیادہ آن لائن فالوور ہیں، نے اس احتجاج میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ "بدعنوانی کسی بھی ملک میں ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس سے ہمیشہ لڑنا ضروری ہے۔"

انہوں نے کہا کہ یوکرین کے پاس اس جنگ میں روس کے مقابلے میں بہت کم وسائل ہیں۔ "اگر ہم ان کا غلط استعمال کرتے ہیں، یا اس سے بھی بدتر، انہیں چوروں کی جیبوں میں جانے دیتے ہیں، تو پھر ہماری جیت کے امکانات مزید کم ہو جاتے ہیں۔ ہمارے تمام وسائل کو لڑائی کی طرف جانا چاہیے۔"

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • 5اگست کے احتجاج کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آرہا،جس نے پارٹی میں گروہ بندی کی اسے نکال دوں گا،عمران خان
  • ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور غربت کے خاتمے تک امن قائم نہیں ہوسکتا، چیئرمین سینیٹ
  • یوکرین کا زیلنسکی-پیوٹن براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ، روس کی مختصر جنگ بندی کی تجویز
  • حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہو گا،مولانافضل الرحمان
  • چھبیسویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • 26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • یوکرینی اور روسی وفود میں مذاکرات کا تیسرا دور آج
  • دہشتگردی کے خاتمے کےلئے پوری قوم فورسز کے ساتھ کھڑی ہے، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا
  • پنجاب حکومت کا منشیات کے سدباب کیلئے اہم اقدام، کاونٹر نارکوٹکس فورس قائم
  • پنجاب حکومت کا منشیات کے سدباب کیلئے اہم اقدام، کاؤنٹر نارکوٹکس فورس قائم