میانمار اور تھائی لینڈ میں زلزلے سے ہلاکتیں ایک ہزار سے متجاوز، گمشدہ افراد کی تلاش جاری
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
میانمار اور تھائی لینڈ میں زلزلے سے ہلاکتیں ایک ہزار سے متجاوز، گمشدہ افراد کی تلاش جاری WhatsAppFacebookTwitter 0 29 March, 2025 سب نیوز
میانمار اور تھائی لینڈ میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی، جب امدادی کارکنوں نے ملبے کو کھود کر زندہ بچ جانے والوں کی تلاش شروع کر دی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق وسطی میانمار کے شہر ساگانگ کے شمال مغرب میں 7.
زلزلے سے میانمار کے مختلف علاقوں میں عمارتیں تباہ ہوئیں، پل منہدم ہو گئے اور سڑکیں منہدم ہو گئیں، جب کہ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر منڈلے میں بڑے پیمانے پر تباہی دیکھی گئی۔
برسراقتدار حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ میانمار میں کم از کم 1002 افراد ہلاک اور 2 ہزار 400 کے قریب زخمی ہوئے ہیں، بنکاک میں مزید 10 ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔
مواصلات بری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے الگ تھلگ فوجی زیر اقتدار ریاست سے تباہی کے حقیقی اعداد و شمار ابھی تک سامنے نہیں آئے، اور ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں اضافے کا خدشہ ہے۔
امریکی ماہرین ارضیات کے مطابق یہ ایک صدی سے زائد عرصے میں میانمار میں آنے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا اور زلزلے کے جھٹکے اتنے طاقتور تھے کہ زلزلے کے مرکز سے سیکڑوں کلومیٹر دور بینکاک میں عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔
منڈلے میں ’اے ایف پی‘ کے صحافیوں نے صدیوں پرانا بودھی پگوڈا دیکھا جو زلزلے کی وجہ سے ملبے میں تبدیل ہو گیا تھا۔
پگوڈا کے باہر سڑک پر ایک چیک پوسٹ پر موجود ایک فوجی نے کہا کہ پہلے تو یہ ہلنے لگا، پھر یہ منظر سنگین ہوگیا، یہ عمارت منہدم ہو گئی، ایک راہب بھی مر گیا، کچھ لوگ زخمی ہوئے، ہم نے کچھ لوگوں کو باہر نکالا اور انہیں ہسپتال لے گئے۔
خانقاہ میں بدھا کے مرکزی مجسمے کا سر گر گیا اور اس کے قدم پلیٹ فارم پر رکھے رہ گئے۔
ایسی عمارات میں بھی ہر کوئی اندر سونے کی ہمت نہیں کرتا، کیوں کہ ہم نے سنا ہے کہ ایک اور زلزلہ آ سکتا ہے، میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ایسا کچھ محسوس نہیں کیا۔
منڈلے ہوائی اڈے کے محافظوں نے صحافیوں کو واپس بھیج دیا، ایک نے بتایا کہ یہ کل سے بند ہے، یہان ایک مقام پر چھت گر گئی لیکن کوئی زخمی نہیں ہوا۔
ہوائی اڈے کو پہنچنے والا نقصان ایک ایسے ملک میں امدادی کوششوں کو پیچیدہ بنا دے گا، جہاں 2021 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں شروع ہونے والی 4 سالہ خانہ جنگی کی وجہ سے امدادی خدمات اور صحت کا نظام پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے۔
مدد کے لیے فوج کی نایاب درخواست
حکومت کے سربراہ من آنگ ہلائینگ نے بین الاقوامی امداد کے لیے غیر معمولی طور پر اپیل جاری کی، جو اس آفت کی شدت کی نشاندہی کرتی ہے، پچھلی فوجی حکومتوں نے بڑی قدرتی آفات کے بعد بھی غیر ملکی امداد سے گریز کیا تھا۔
زلزلے کے بعد ملک میں 6 سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا گیا تھا، اور دارالحکومت نیپیڈو کے ایک بڑے ہسپتال میں طبی عملے کو زخمیوں کا کھلی فضا میں علاج کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
ایک عہدیدار نے اسے ’بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا علاقہ‘ قرار دیا۔
ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ میں نے اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا، ہم صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں اب بہت تھکا ہوا ہوں۔
17 لاکھ سے زیادہ آبادی والا شہر منڈلے بری طرح متاثر ہوا ہے، اے ایف پی کی تصاویر میں درجنوں عمارتوں کو ملبے میں تبدیل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک رہائشی نے فون پر بتایا کہ ایک ہسپتال اور ہوٹل تباہ ہو گئے اور شہر میں امدادی کارکنوں کی شدید کمی ہے۔
ہفتہ کی صبح دارالحکومت میں داخل ہونے کے لیے چیک پوائنٹ پر بسوں اور دیگر گاڑیوں کی بڑی قطار کھڑی تھی۔
غیر ملکی امداد کی پیشکشیں اس وقت آنا شروع ہوئیں، جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز امریکی مدد کا وعدہ کیا۔
ٹرمپ سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ میانمار کے فوجی حکمرانوں کی اپیل کا جواب دیں گے تو انھوں نے اوول آفس میں صحافیوں سے کہا کہ یہ خوف ناک ہے، یہ واقعی ایک برا وقت ہے، اور ہم مدد کریں گے. ہم پہلے ہی ملک کے ساتھ بات کر چکے ہیں۔
پاکستان نے اعلان کیا کہ ینگون اور بینکاک میں سفارت خانے ہنگامی صورتحال کی صورت میں پاکستانیوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔
بھارت سے حفظان صحت کی کٹس، کمبل، کھانے کے پارسل اور دیگر ضروری اشیا لے کر ایک ابتدائی پرواز ہفتہ کے روز تجارتی دارالحکومت ینگون پہنچی، چین کا کہنا ہے کہ اس نے امدادی کارکنوں کی 82 رکنی ٹیم میانمار بھیجی ہے۔
امدادی ایجنسیوں نے متنبہ کیا ہے کہ میانمار اتنی بڑی آفت سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہے، زلزلے سے پہلے ہی خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباً 35 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے تھے، جن میں سے کئی کو بھوک کا خطرہ لاحق تھا۔
بنکاک میں عمارت منہدم
بنکاک میں سرحد کے اس پار امدادی کارکن رات بھر اس وقت پھنسے ہوئے افراد کی تلاش میں مصروف رہے, جب ایک زیر تعمیر 30 منزلہ عمارت منہدم ہو گئی، جو چند سیکنڈوں میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی تھی۔
بنکاک کے گورنر چاڈ چارٹ سیٹی پنت نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ شہر بھر میں تقریباً 10 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
لیکن چتوچک ویک اینڈ مارکیٹ کے قریب واقع اس عمارت میں 100 کے قریب مزدور ابھی تک لاپتہ ہیں، یہ عمارت سیاحوں کے لیے مقناطیسی حیثیت رکھتی ہے۔
چاڈچارٹ نے جائے وقوعہ پر صحافیوں کو بتایا ک ہہم اپنے پاس موجود وسائل کے ساتھ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں، کیوں کہ ہر زندگی اہم ہے، ہماری ترجیح ان سب کو بچانے کے لیے جتنی جلدی ممکن ہو سکے کام کرنا ہے۔
بنکاک شہر کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ 100 سے زائد انجینئرز کو عمارتوں کے معائنے کے لیے تعینات کریں گے۔
چیڈچارٹ نے کہا کہ تقریباً 400 افراد شہر کے پارکوں میں کھلی فضا میں رات گزارنے پر مجبور ہوئے، کیوں کہ ان کا گھر واپس جانا محفوظ نہیں تھا۔
بنکاک میں زلزلے کے شدید جھٹکے شاذ و نادر ہی محسوس کیے جاتے ہیں اور جمعے کے روز آنے والے زلزلے کے جھٹکوں نے شہر بھر میں خریداروں اور کارکنوں کو خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
اگرچہ بڑے پیمانے پر کوئی تباہی نہیں ہوئی، لیکن زلزلے کے جھٹکوں نے شہر کے بہت سے بلند و بالا اپارٹمنٹ بلاکس اور ہوٹلوں کی چھتوں پر سوئمنگ پولوں کی کچھ ڈرامائی تصاویر سامنے لائیں۔
بنکاک میں ہسپتالوں کو بھی خالی کرا لیا گیا، ایک خاتون نے اسپتال کی عمارت سے منتقل ہونے کے بعد اپنے بچے کو باہر جنم دیا، ایک ترجمان نے بتایا کہ ایک سرجن نے باہر سے آپریشن مکمل کرنے کے بعد ایک مریض کا آپریشن بھی جاری رکھا۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
بڑے یورپی ملک کا غیر یورپی ممالک کے لیے 5 لاکھ ورک ویزے جاری کرنے کا اعلان
روم(نیوز ڈیسک)اٹلی نے 2026ء سے 2028ء تک غیر یورپی ممالک کے لیے 5 لاکھ ورک ویزے جاری کرنے کا اعلان کردیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ اقدام ملک میں بڑھتی ہوئی لیبر کی قلت کو پورا کرنے اور قانونی امیگریشن کے دروازے کھولنے کی ایک حکمت عملی کا حصہ ہے۔
حکومتی اعلامیے میں کہا گیا کہ 2026ء میں ایک لاکھ 64 ہزار 850 نئے افراد کو کام کی اجازت دی جائے گی جبکہ 2028ء تک مجموعی طور پر 4 لاکھ 97 ہزار 550 نئے ورک ویزے جاری کیے جائیں گے۔
یہ اقدام وزیراعظم جیورجیا میلونی کی قیادت میں قائم دائیں بازو کی حکومت کی جانب سے دوسرا بڑا امیگریشن پلان ہے۔ اس سے قبل 2023ء سے 2025ء کے دوران ساڑھے چار لاکھ سے زائد ویزے جاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا جا چکا ہے۔
حکومت ایک طرف قانونی ورک ویزے جاری کر رہی ہے، تو دوسری طرف غیر قانونی امیگریشن کے خلاف سخت پالیسی بھی اپنائی جا رہی ہے۔
اس میں بحیرہ روم کے ذریعے آنے والے مہاجرین کو روکنے کے اقدامات، خیراتی تنظیموں کی سرگرمیوں پر قدغن اور غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے عمل کو تیز کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
اٹلی کو مزدوروں کی شدید قلت کا سامنا ہے، خاص طور پر زراعت، صنعت اور دیگر اہم شعبوں میں، کیونکہ 2024ء میں پیدائش سے زیادہ 2 لاکھ 81 ہزار اموات ہوئیں اور مجموعی آبادی 37 ہزار کی کمی کے ساتھ 5 کروڑ 89 لاکھ 30 ہزار پر آ گئی۔
آبادی میں کمی کے تسلسل کو روکنے کے لیے تحقیقاتی ادارے Osservatorio Conti Pubblici کے مطابق 2050ء تک کم از کم 1 کروڑ مہاجرین کو ملک میں داخل کرنا ہوگا۔
زراعت کے شعبے میں سرگرم Coldiretti نامی لابی نے حکومت کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام کھیتوں میں مزدوروں کی دستیابی اور خوراک کی پیداوار کو یقینی بنانے میں مدد دے گا۔
اٹلی کے وزیر داخلہ ماتیو پیانتیدوسی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم قانونی امیگریشن کے راستے کھولنے کے لیے پُرعزم ہیں تاکہ ہماری معیشت کے اہم شعبے فائدہ اٹھا سکیں۔
مزیدپڑھیں:سستی سواری جیب پر بھاری ،ہونڈا اٹلس نےموٹر سائیکلیں مزید مہنگی کردیں