وائس آف امریکا سے عملے کی جبری برطرفی، جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وائس آف امریکا کے عملے کی جبری برطرفی کے معاملے پر ایک وفاقی جج نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جمعہ کے روز ایک وفاقی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کی آٹھ دہائیوں پرانی امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی بین الاقوامی نیوز سروس کو ختم کرنے کی کوششوں کو روک دیا، اور اس اقدام کو ’’من مانی اور غیر معقول فیصلہ سازی کا ایک کلاسیکی کیس‘‘ قرار دیا ہے۔
جج جیمز پال اوٹکن نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کو، جو وائس آف امریکہ چلاتی ہے، 1,200 سے زائد صحافیوں، انجینئرز اور دیگر عملے کو برطرف کرنے سے روک دیا، جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فنڈنگ میں کمی کے حکم کے بعد دو ہفتے قبل معطل کردیا گیا تھا۔
اوٹکن نے ایجنسی کو ملازمین یا ٹھیکیداروں کو ’’برطرف کرنے، افرادی قوت میں کمی کرنے، چھٹی پر بھیجنے یا جبری چھٹی دینے‘‘ اور کسی بھی دفتر کو بند کرنے یا بیرون ملک ملازمین کو امریکا واپس آنے کا حکم دینے کی کسی بھی مزید کوشش سے روکتے ہوئے ایک عارضی حکم امتناعی جاری کیا۔
اس حکم میں ایجنسی کو اس کے دیگر نشریاتی اداروں، جن میں ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی، ریڈیو فری ایشیا اور ریڈیو فری افغانستان شامل ہیں، کےلیے گرانٹ فنڈنگ ختم کرنے سے بھی روکا گیا ہے۔ ایجنسی نے جمعرات کو کہا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک جج کے حکم کے بعد وہ ریڈیو فری یورپ کی فنڈنگ بحال کررہی ہے۔
مدعیوں کے وکیل اینڈریو جی سیلی جونیئر نے کہا، ’’یہ پریس کی آزادی اور پہلی ترمیم کےلیے ایک فیصلہ کن فتح ہے، اور ٹرمپ انتظامیہ کے ان اصولوں کی مکمل بے اعتنائی کی سخت مذمت ہے جو ہماری جمہوریت کی وضاحت کرتے ہیں۔‘‘
مین ہٹن میں جمعہ کو ہونے والی سماعت میں، اوٹکن نے ٹرمپ انتظامیہ کو ’’کانگریس کی طرف سے قانونی طور پر مجاز اور مالی اعانت سے چلنے والی ایجنسی کو توڑنے‘‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
اوٹکن نے وائس آف امریکا کے صحافیوں، مزدور یونینوں اور غیر منافع بخش صحافتی وکالت گروپ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے اتحاد کی جانب سے گزشتہ ہفتے کٹوتیوں کو روکنے کےلیے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بعد فیصلہ دیا۔ بالآخر، وہ چاہتے ہیں کہ وائس آف امریکا دوبارہ نشریات شروع کرے۔
مدعیوں نے استدلال کیا کہ شٹ ڈاؤن نے ٹرمپ کے پہلے دور حکومت کے دوران عدالت کے اس فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے کہ وائس آف امریکا کے صحافیوں کے پاس وائٹ ہاؤس کی مداخلت سے بچانے کےلیے آزادی اظہار کی دیوار ہے۔ ان کی نشریات سے غیر موجودگی نے ایک خلا پیدا کر دیا ہے جسے ’’پروپیگنڈہ کرنے والے بھر رہے ہیں جن کے پیغامات عالمی نشریات پر اجارہ داری قائم کریں گے‘‘۔
ٹرمپ اور دیگر ریپبلکنز نے وائس آف امریکا پر ’’بائیں بازو کے تعصب‘‘ اور اس کے عالمی پڑھنے والوں کے سامنے ’’امریکا نواز‘‘ اقدار کو پیش کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا ہے، حالانکہ کانگریس نے اسے غیر جانبدار نیوز آرگنائزیشن کے طور پر کام کرنے کا حکم دیا ہے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے 14 مارچ کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس میں ایجنسی فار گلوبل میڈیا اور چھ دیگر غیر متعلقہ وفاقی اداروں کے فنڈنگ میں کمی کی گئی، اس کے فوراً بعد وائس آف امریکا کی نشریات بند ہوگئیں۔ یہ ان کی حکومت کو سکڑنے اور اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق کرنے کی مہم کا حصہ تھا۔ ٹرمپ نے اس مہینے نیوز ایجنسیوں، بشمول ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ وائس آف امریکا کے معاہدے بھی ختم کرنے کی کوشش کی۔
کانگریس نے موجودہ مالی سال کےلیے ایجنسی فار گلوبل میڈیا کےلیے تقریباً 860 ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وائس ا ف امریکا ٹرمپ انتظامیہ ف امریکا کے ریڈیو فری وائس آف
پڑھیں:
ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
فیڈرل ریزرو چیئر کو صدر ٹرمپ نے خود تعینات کیا۔فیڈرل ریزرو چیئر جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے درآمدی محصولات سے افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور امریکا کے اندر معیشت کی بڑھوتی شدید متاثر ہو گی۔اس کے علاوہ عالمی معیشت سکڑے گی۔جیروم پاول نے یہ بھی کہا کہ محصولات عائد کرتے وقت اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی معاشی ایکٹوٹی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔ صدر ٹرمپ ،پاول کے اس بیان سے ناخوش ہیں اور ان کو فیڈرل ریزرو بورڈ کی چیئر پر نہیں دیکھنا چاہتے۔
جناب ٹرمپ کے مطابق پاول کو استعفیٰ دے دینا چایئے لیکن جب پاول سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے مستعفی ہونے سے یکسر انکار کر دیا۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ انھیں ہٹا سکتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ نہیں۔Yuval Atsmon of Mackenziنے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات سے کارپوریٹ منافع بری طرح متاثر ہو گا اور سپلائی Chainمیں تو ضرور خلل واقع ہو گا۔صدر ٹرمپ کچھ نیا نہیں کر رہے۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس پر برسوں سے یقین رکھتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ کہتے آئے ہیں۔مشہور امریکی ٹی وی شوOprahکی میزبان کے ساتھ دسمبر 1988میں شو کے دوران بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہI will make allies pay.
ٹرمپ کی تجارتی جنگوں سے عالمی تجارت میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔عالمی GDPگرے گی،خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جو زرَ مبادلہ کمانے کے لیے برآمدات پر انحصار کرتے ہیں،بہت حد تک متاثر ہوں گے۔عالمی سپلائی Chainپہلے ہی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے جس سے اشیاء کی پیداوار میں کمی آئے گی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔بڑھتے ٹیرف سے Consumerکو زیادہ ادائیگی کرنی ہو گی۔ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن WTO کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ممالک اس پلیٹ فارم کو آپسی بات چیت کے لیے استعمال کریں اور کم سے کم ٹیرف لگائے جائیں ۔
اس معاملے میں امریکا نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب امریکا ہی اس کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ٹرمپ کے درآمدی محصولات کا بظاہر مقصد امریکی معیشت کو تحفظ فراہم کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے،مگر اس کے منفی اثرات دنیا بھر میں محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ پالیسیاں،مہنگائی، عالمی تجارت میں خلل اور سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ان پالیسیوں سے عالمی معیشت ایک نئے اور مشکل دور میں داخل ہونے جا رہی ہے،جہاں تجارتی جنگیں،سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں پر بوجھ بنیں گی۔
چند ہفتے پہلے ایک کالم میں لکھا جا چکا ہے کہ امریکا کے تمام اقدامات کا اصل ہدف چین ہے۔ چین امریکا کے اعصاب پر سوار ہے۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکا جنگ میں شریک وہ واحد ملک تھا جس کو جنگ سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا،یوں امریکا ایک بڑی معیشت اور سپر پاور کے طور پر ابھرا۔تب سے اب تک امریکا کو چین جیسے حریف کا سامنا نہیں ہوا۔صدر ٹرمپ نے 2 اپریل کو کم و بیش 90ممالک پر درآمدی محصولات عائد کر دیے۔چھ اور سات اپریل کو دنیا کی تمام فنانشل مارکیٹس گر گئیں جس کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔صدر ٹرمپ ٹریڈ وار کے ساتھ Stock market manipulationبھی کرتے رہے۔
جب شیئرز گر گئے تو انھوں نے کہا کہ یہ وقت ہے زیادہ سے زیادہ خریداری کا،اور اگلے روز انھوں نے عائد کردہ ٹیرف کو 90دن کے لیے Pauseکر دیا، یوں فنانشل مارکیٹس واپس اوپر اٹھیں اور خریداروں کو ایک دو دن میں بے پناہ منافع ہوا۔صدر ٹرمپ کا اصل ہدف چونکہ چین ہے اس لیے نوے دن کا Pauseکرتے ہوئے چین کے اوپر کوئی رعایت نہیں کی گئی اور چینی مصنوعات پر محصولات برقرار رکھے گئے۔ویسے لگتا ہے جناب ٹرمپ آنکھیں بند کر کے بلا سوچے سمجھے تیر چلا رہے ہیں۔انھوں نے انٹار کٹکا کے دو ایسے بے آباد جزائر پر بھی محصولات عائد کر دیے جہاں کوئی نہیں رہتا اور پچھلے دس سال میں وہاں کوئی گیا بھی نہیں۔ ہے نہ حیرت انگیز۔
صدر ٹرمپ کے عائد کردہ درآمدی محصولات کے جواب میں چین کینیڈا اور یورپی یونین نے امریکی مصنوعات پر سوچ سمجھ کر اور ہوشیاری سے جوابی ٹیرف عائد کر دیے ہیں۔البتہ ان ممالک نے امریکا کے ان سیکٹرز کو ٹارگٹ کیا ہے جہاں سے صدر ٹرمپ کو سب سے زیادہ سپورٹ ملی اور ووٹ حاصل ہوئے۔امریکی زرعی اجناس اور خاص کر مکئی ان ممالک کی منڈیوں میں بکتی ہے۔امریکی بیف بھی ان ممالک کے نشانے پر رہا۔امریکی سفید فام کسان اور کاروباری حضرات ان محصولات سے بہت متاثر ہوں گے۔
ان کو فوری طور پر نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی۔چین نے جوابی درآمدی محصولات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ چند چبھتے اقدامات بھی اُٹھائے ہیں۔ایک خبر کے مطابق چین نے مشہور طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے بہت سے طیارے خریدنے تھے۔بوئنگ کمپنی میں یہ طیارے تکمیل کے آخری مراحل میں تھے جب جناب ٹرمپ نے ٹریڈ وار چھیڑ دی۔چین نے اب بوئنگ کمپنی کو دیا گیا پورا آرڈر کینسل کرنے کا کہا ہے۔ یہ قدم بوئنگ کمپنی کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔
چین نے ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہوئے بہترین انگریزی زبان میں براہِ راست امریکی صارفین تک رسائی حاصل کی ہے اور انھیں بتایا ہے کہ امریکا کے انتہائی مشہور مہنگے برانڈ،اپنا مال چین میں سستے داموں بنوا کر امریکا لے جاتے ہیں۔امریکا میں اپنا نام اور لوگو کندہ کروا کے بہت مہنگے داموں بیچتے اور امریکی و غیر ملکی عوام کو لوٹتے ہیں۔خواتین کا ایک لیدر بیگ جس کی امریکا میں کم از کم قیمت 30ہزار ڈالر سے اوپر ہے وہی بیگ چین میں بن کر امریکا صرف 1200ڈالر میں پہنچتا ہے۔
اس طرح امریکی کارپوریٹ منافع ہزاروں گنا ہے۔چین نے امریکی صارفین کو ایڈریس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہائی مہنگی برانڈڈ اشیاء سستے داموں آن لائن براہِ راست چین سے خریدیں اور بے بہا بچت کریں۔یوں چین نے مہنگے امریکی برانڈوں کا پول بھی کھول دیا ہے اور براہِ راست خریداری کی ترغیب بھی دی ہے۔چین نے یورپ،امریکا اور کینیڈا کے باشندوں کو ایک ہفتے کے لیے بغیر ویزا چین آنے اور خریداری کی سہولت بھی دی ہے۔یوں چین،ٹرمپ ٹریڈ وار کے جواب میں کئی اسمارٹmoves کر رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے لیے سب سے بہترین راستہ گفت و شنید اور دوستانہ مذاکرات ہی ہیں۔اگر یہ راستہ اپنایا جائے تو ٹریڈ وار سے بچا جا سکتا ہے ۔