ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وائس آف امریکا کے عملے کی جبری برطرفی کے معاملے پر ایک وفاقی جج نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جمعہ کے روز ایک وفاقی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کی آٹھ دہائیوں پرانی امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی بین الاقوامی نیوز سروس کو ختم کرنے کی کوششوں کو روک دیا، اور اس اقدام کو ’’من مانی اور غیر معقول فیصلہ سازی کا ایک کلاسیکی کیس‘‘ قرار دیا ہے۔

جج جیمز پال اوٹکن نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کو، جو وائس آف امریکہ چلاتی ہے، 1,200 سے زائد صحافیوں، انجینئرز اور دیگر عملے کو برطرف کرنے سے روک دیا، جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فنڈنگ میں کمی کے حکم کے بعد دو ہفتے قبل معطل کردیا گیا تھا۔

اوٹکن نے ایجنسی کو ملازمین یا ٹھیکیداروں کو ’’برطرف کرنے، افرادی قوت میں کمی کرنے، چھٹی پر بھیجنے یا جبری چھٹی دینے‘‘ اور کسی بھی دفتر کو بند کرنے یا بیرون ملک ملازمین کو امریکا واپس آنے کا حکم دینے کی کسی بھی مزید کوشش سے روکتے ہوئے ایک عارضی حکم امتناعی جاری کیا۔

اس حکم میں ایجنسی کو اس کے دیگر نشریاتی اداروں، جن میں ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی، ریڈیو فری ایشیا اور ریڈیو فری افغانستان شامل ہیں، کےلیے گرانٹ فنڈنگ ختم کرنے سے بھی روکا گیا ہے۔ ایجنسی نے جمعرات کو کہا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک جج کے حکم کے بعد وہ ریڈیو فری یورپ کی فنڈنگ بحال کررہی ہے۔

مدعیوں کے وکیل اینڈریو جی سیلی جونیئر نے کہا، ’’یہ پریس کی آزادی اور پہلی ترمیم کےلیے ایک فیصلہ کن فتح ہے، اور ٹرمپ انتظامیہ کے ان اصولوں کی مکمل بے اعتنائی کی سخت مذمت ہے جو ہماری جمہوریت کی وضاحت کرتے ہیں۔‘‘

مین ہٹن میں جمعہ کو ہونے والی سماعت میں، اوٹکن نے ٹرمپ انتظامیہ کو ’’کانگریس کی طرف سے قانونی طور پر مجاز اور مالی اعانت سے چلنے والی ایجنسی کو توڑنے‘‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

اوٹکن نے وائس آف امریکا کے صحافیوں، مزدور یونینوں اور غیر منافع بخش صحافتی وکالت گروپ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے اتحاد کی جانب سے گزشتہ ہفتے کٹوتیوں کو روکنے کےلیے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بعد فیصلہ دیا۔ بالآخر، وہ چاہتے ہیں کہ وائس آف امریکا دوبارہ نشریات شروع کرے۔

مدعیوں نے استدلال کیا کہ شٹ ڈاؤن نے ٹرمپ کے پہلے دور حکومت کے دوران عدالت کے اس فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے کہ وائس آف امریکا کے صحافیوں کے پاس وائٹ ہاؤس کی مداخلت سے بچانے کےلیے آزادی اظہار کی دیوار ہے۔ ان کی نشریات سے غیر موجودگی نے ایک خلا پیدا کر دیا ہے جسے ’’پروپیگنڈہ کرنے والے بھر رہے ہیں جن کے پیغامات عالمی نشریات پر اجارہ داری قائم کریں گے‘‘۔

ٹرمپ اور دیگر ریپبلکنز نے وائس آف امریکا پر ’’بائیں بازو کے تعصب‘‘ اور اس کے عالمی پڑھنے والوں کے سامنے ’’امریکا نواز‘‘ اقدار کو پیش کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا ہے، حالانکہ کانگریس نے اسے غیر جانبدار نیوز آرگنائزیشن کے طور پر کام کرنے کا حکم دیا ہے۔

یاد رہے کہ ٹرمپ نے 14 مارچ کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس میں ایجنسی فار گلوبل میڈیا اور چھ دیگر غیر متعلقہ وفاقی اداروں کے فنڈنگ میں کمی کی گئی، اس کے فوراً بعد وائس آف امریکا کی نشریات بند ہوگئیں۔ یہ ان کی حکومت کو سکڑنے اور اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق کرنے کی مہم کا حصہ تھا۔ ٹرمپ نے اس مہینے نیوز ایجنسیوں، بشمول ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ وائس آف امریکا کے معاہدے بھی ختم کرنے کی کوشش کی۔

کانگریس نے موجودہ مالی سال کےلیے ایجنسی فار گلوبل میڈیا کےلیے تقریباً 860 ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: وائس ا ف امریکا ٹرمپ انتظامیہ ف امریکا کے ریڈیو فری وائس آف

پڑھیں:

صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا میں اِس وقت ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ امریکا کو صحافتی آزادی کے علم برداروں میں نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ امریکی ادارے دنیا بھر میں صحافتی آزادی جانچتے رہتے ہیں مگر خود امریکا میں اس حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ شرم ناک ہے۔

امریکی میڈیا گروپ اے بی سی کے رپورٹر ٹیری مورن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے معاون اسٹیفن ملر کو اول درجے کے نفرت پھیلانے والے قرار دینے کی پاداش میں معطل کردیا گیا ہے۔ ٹیری مورن نے ایک ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ امریکی صدر جو کچھ کر رہے ہیں اُس کے نتیجے میں امریکا اور امریکا سے باہر نفرت پھیل رہی ہے۔ ایسی کیفیت کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔

ٹیری مورن نے جو کچھ کہا وہ امریکا میں کسی بھی سطح پر حیرت انگیز نہیں۔ حکومتی شخصیات پر غیر معمولی تنقید امریکی صحافت کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ڈیموکریٹس پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے مگر اُنہوں نے کبھی اِس نوعیت کے اقدامات نہیں کیے۔ سابق صدر جو بائیڈن پر غیر معمولی تنقید کی جاتی رہی مگر اُنہوں نے کسی بھی بات کو پرسنل نہیں لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج بہت الگ، بلکہ بگڑا ہوا ہے۔ وہ امریکی معاشرے اور ثقافت کی بنیادیں ہلانے والے اقدامات کر رہے ہیں۔ میڈیا کو دباؤ رکھنا بھی اُن کے مزاج اور پالیسیوں کا حصہ ہے۔

ٹیری مورن کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر امریکا میں میڈیا کے ادارے جُزبُز ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ اِس نوعیت کے اقدامات سے ٹرمپ انتظامیہ میڈیا کے اداروں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ سب کچھ برداشت نہیں کیا جائے گا اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے علم بردار اداروں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے شدید احتجاج کیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں کروڑوں افراد سے جبری مشقت لی جارہی ہے، رپورٹ
  • ٹرمپ انتظامیہ نے طاقت کا غلط استعمال کر کے تشدد کو ہوا دی، امیگریشن ایڈوکیسی گروپ
  • چینی وزارت  دفاع کا تائیوان کی ڈی پی پی انتظامیہ کے لئے انتباہ
  • صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
  • ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان
  • امریکا، تارکین کیخلاف انتظامیہ کا کریک ڈاؤن، شدید جھڑپیں
  • امریکا، غیر قانونی تارکین وطن کیخلاف انتظامیہ کا کریک ڈاؤن، شدید جھڑپیں
  • وائس چانسلر فاطمہ جناح  کا سر گنگا رام ہسپتال کا دورہ، مریضوں اور عملے کے ساتھ عید کی خوشیاں منائیں
  • چین امریکا تجارتی مذاکرات پیر کو لندن میں ہوں گے
  • بھارتی خفیہ ایجنسی را کیلئے کام کرنے والے 3 دہشتگرد گرفتار