Islam Times:
2025-04-26@02:22:53 GMT

غزہ میں مغربی لبرل ازم کا جنازہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

غزہ میں مغربی لبرل ازم کا جنازہ

اسلام ٹائمز: اسرائیل نے ہمیشہ عالمی رائے عامہ میں اپنی ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو تاریخ کے دوران ہمیشہ ظلم و ستم کا شکار رہا ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا: "7 اکتوبر وہ دن ہے جس نے اسرائیل کے مظلوم نمائی کے افسانے کو ختم کر دیا اور دنیا نے مزاحمت کا نیا چہرہ دیکھا۔" یہ تبدیلی صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں تھی بلکہ یورپی ممالک میں بھی جوانوں کی بڑی تعداد فلسطینی پرچم اٹھا کر سڑکوں پر نکل آئے اور صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ آزاد سوچ کے حامل مغربی مفکرین جیسے نوآم چامسکی اور ناتالی توچی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطین میں مغربی لبرل ازم کا جنازہ نکل چکا ہے۔ امریکہ اور صیہونی رژیم حتی بنیادی ترین بین الاقوامی قوانین کی پابندی بھی نہیں کرتے۔ تحریر: پیمان صالحی
 
امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مقیم فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کی کوششیں جاری ہیں اور اس مقصد کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کے قریبی حلقوں نے عالمی اداروں کو بھی کئی منصوبے پیش کر دیے ہیں جبکہ یہ اقدام مغربی مکتب فکر لبرل ازم کے بنیادی اصولوں سے واضح تضاد رکھتا ہے۔ معروف مغربی فلاسفر جان لاک کی نظر میں ایک حکومت اس وقت تک قانونی جواز کی حامل ہے جب تک وہ انسانوں کے تین فطری حقوق کا خیال رکھے: زندہ رہنے کا حق، آزادی کا حق اور مالکیت کا حق۔ لیکن آج عالمی استکباری طاقتیں فلسطین کی سرزمین میں ان تینوں بنیادی حقوق کی نفی کرنے میں مصروف ہیں: فلسطینیوں کی نسل کشی سے ان کا حق حیات ختم ہو چکا ہے، ان کا گھیراو کر کے حق آزادی چھینا جا چکا ہے اور انہیں جبری جلاوطن کر دینے کی کوششوں سے مالکیت کا حق بھی ضائع ہو گیا ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے بانیوں سے وفاداری کا دعوی کیا ہے لیکن اس دعوے کے برعکس وہ ایک ایسے خطے پر اپنا من مانا جیوپولیٹیکل آرڈر مسلط کرنے کے درپے ہے جہاں کی عوام اس آرڈر کو نہ تو مانتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے اور یہ آرڈر اس عوام کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات کی روشنی میں مسلط کیا جا رہا ہے۔ لبرل ازم کی رو سے انسانوں کی آزادی کسی قیمت پر ختم نہیں کی جا سکتی لہذا کس طرح ممکن ہے کہ امن یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایسے منصوبے پیش کیے جائیں جو قومی صفایا یا جبری جلاوطنی پر مشتمل ہوں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ لبرل ازم کا نعرہ لگانے والے صرف اس وقت تک اس کے اصولوں کی پابندی کرتے ہیں جب تک ان کے مفادات کی تکمیل ہوتی رہتی ہے لیکن جب مفادات سے ٹکراو پیدا ہوتا ہے تو لبرل ازم اور اس کے اصولوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
 
اسلامی مزاحمت کی تنظیموں حماس اور اسلامک جہاد کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ اور رضوان علی شحادہ اور وصفی حسن ابو محمد اور بہاء ابوالعطاء جیسی شخصیات کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اب تک سیاسی طاقت کے روایتی مفہوم پر کاربند ہیں۔ اس مفہوم کی روشنی میں طاقت صرف شخصیات اور فوجی مشینری تک محدود ہے۔ لیکن معروف محقق مالک بن بنی کے بقول ایک تہذیب تین عناصر پر مشتمل ہوتی ہے: انسان، سرزمین اور تفکر۔ حتی اگر کسی جگہ تمام اہم شخصیات کو ختم کر دیا جائے تب بھی جب تک مزاحمتی سوچ موجود ہے اور فلسطین کی سرزمین باقی ہے اسلامی مزاحمت ختم نہیں ہو گی۔ کمانڈرز شہید ہو جائیں گے لیکن جیسا کہ شہید سید حسن نصراللہ نے فرمایا: "مزاحمت افراد نہیں جو ان کے جانے سے ختم ہو جائے بلکہ مزاحمت امت کے اندر روح کی مانند ہے۔"
 
وسائل کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو اسلامی مزاحمت 90 کی دہائی میں پتھر کے انتفاضے سے شروع ہوئی اور حالیہ چند سالوں میں جدید ترین میزائلوں تک پہنچ گئی۔ ٹیکنالوجی کی یہ ترقی اسرائیل کے سیکیورٹی ماہرین کے نقطہ نظر کے برعکس محض بیرونی مدد کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ مقامی سطح پر مزاحمت کی ترقی کا ثمرہ ہے۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوت کے فوجی تجزیہ کار نے جنوری 2024ء میں اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا: "غزہ میں محاصرے کے باوجود ہم ایک ایسے دشمن سے روبرو ہیں جو میزائل اور جنگی مائنوں کی ٹیکنالوجی حاصل کر چکا ہے۔" یہ وسائل اس سوچ کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو اپنا قانونی جواز بین الاقوامی اداروں سے نہیں بلکہ اپنی قوم اور عوام کی حمایت سے حاصل کرتی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی اہم ترین شکست افکار کے میدان میں اس کی شکست ہے۔
 
اسرائیل نے ہمیشہ عالمی رائے عامہ میں اپنی ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو تاریخ کے دوران ہمیشہ ظلم و ستم کا شکار رہا ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا: "7 اکتوبر وہ دن ہے جس نے اسرائیل کے مظلوم نمائی کے افسانے کو ختم کر دیا اور دنیا نے مزاحمت کا نیا چہرہ دیکھا۔" یہ تبدیلی صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں تھی بلکہ یورپی ممالک میں بھی جوانوں کی بڑی تعداد فلسطینی پرچم اٹھا کر سڑکوں پر نکل آئے اور صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ آزاد سوچ کے حامل مغربی مفکرین جیسے نوآم چامسکی اور ناتالی توچی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطین میں مغربی لبرل ازم کا جنازہ نکل چکا ہے۔ امریکہ اور صیہونی رژیم حتی بنیادی ترین بین الاقوامی قوانین کی پابندی بھی نہیں کرتے۔
 
قطر اور مصر کی ثالثی میں اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور امریکہ نے اس کی ضمانت فراہم کی تھی لیکن اسرائیل نے یکطرفہ طور پر معاہدہ ختم کر کے غزہ پر دوبارہ فضائی جارحیت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور اب تک ہزاروں فلسطینی شہریوں کو شہید اور زخمی کر چکا ہے۔ معاہدوں کی خلاف ورزی جدید مغربی فلسفہ سیاست کی رو سے بھی ناجائز اقدام ہے۔ مغربی فلاسفر ہابز اپنی کتاب لویاتھن میں لکھتا ہے: "اگر کسی معاہدے کے اجرا کی یقین دہانی نہ پائی جاتی ہو تو حالات بہت تیزی سے لاقانونیت کی جانب بڑھنے لگتے ہیں۔" ہابز کی نظر میں لاقانونیت کی صورت میں سب ایکدوسرے سے جنگ میں مصروف ہوں گے۔ اسرائیل نے مکتوب معاہدوں کی خلاف ورزی کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی نظر میں ورلڈ آرڈر اور بین الاقوامی قوانین کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جب بھی طاقت سوچ کے مقابلے میں قرار پاتی ہے آخرکار اسے شکست ہوتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بین الاقوامی لبرل ازم کا اسرائیل نے اور صیہونی امریکہ اور ہے اور دیا ہے چکا ہے کر دیا اور اس

پڑھیں:

امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، حافظ نعیم الرحمان

امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ امریکی زبان بولنے والا فلسطینیوں کا نمائندہ نہیں ہو سکتا، قبلہ اول پر صہیونی حملہ آور ہیں، حماس نے 7 اکتوبر کو جائز حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے جبکہ اسرائیلی یہاں منتقل ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کام اپنے حکمرانوں کو جگانا ہے، مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، جو اسرائیل کو مسلمانوں کو مارنے کا کہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے پشت پر کھڑا ہے، جبکہ مسلمان خاموش ہیں، اس لئے بچے شہید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی زبان بولنے والا فلسطینیوں کا نمائندہ نہیں ہو سکتا، قبلہ اول پر صہیونی حملہ آور ہیں، حماس نے 7 اکتوبر کو جائز حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے جبکہ اسرائیلی یہاں منتقل ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کام اپنے حکمرانوں کو جگانا ہے، مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے۔

انہوں نے تاجروں پر زور دیا کہ اپنی مصنوعات بنائیں اور کارخانے لگائیں تاکہ ہم غیر مسلموں کی مصنوعات کا مقابلہ کر سکیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ تاجر اپنی مصنوعات کے قیمتیں بھی مناسب رکھیں تاکہ لوگ خرید سکیں، اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ علمائے کرام کے جہاد کے اعلان کا مذاق نہ اُڑایا جائے، ایک ایک بندہ اگر بندوق اٹھا نہیں سکتا تو اپنے حکمرانوں کو تو مجبور کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 26 اپریل کی ہڑتال کسی کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی اسرائیل کیخلاف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین سے دکھائوے کی محبت
  • نوازشریف کا وہ بیان جو بھارت نے عالمی عدالت میں پیش کیا اس پر سابق وزیراعظم قوم سے معافی مانگیں
  • شام بھی اسرائیل کیساتھ تعلقات کی بحالی کیلیے تیار؛ امریکی رکن کانگریس کا دعوی
  • پوپ کا غزہ پر موقف، کوئی اعلی اسرائیلی عہدیدار آخری رسومات میں شریک نہیں ہو گا
  • امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • غزہ، مزاحمت کاروں کے حملے میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک، 7 زخمی
  • منرل پالیسی زبردستی لاگو کرنے کی کوشش کی گئی تو بھرپور مزاحمت کرینگے، مجمع علماء و طلاب روندو
  • لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا
  • استنبول سمیت مغربی ترکی 6.2 شدت کے زلزلے سے لرز اٹھا
  • پی ٹی آئی رہنما عالیہ حمزہ کی ضمانت منظور، رہا کرنے کا حکم