ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر چڑھ گئے۔ ان کی ناحق موت کو ابھی چار برس ہی گزرے ہوںگے کہ1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ برس تھی، وہ پاکستان کے اکثریتی عوام کے محبوب لیڈر تھے، مگر سندھیوں کی رگوں میں لہو کی طرح دوڑتے تھے۔
اس تحریک کا آغاز پورے پاکستان میں ہوا مگر یہ تحریک جا ٹھہری، دیہی سندھ میں۔کراچی میں یہ تحریک زور نہ پکڑ سکی۔ شہرِ دادو، لاڑکانہ، نوابشاہ اور سندھ کے دیگر شہروں میں آگ بھڑک اٹھی، جب جنرل ضیاالحق نے دورانِ تحریک دادوکا دورہ کیا۔
اس دورے کے دوران لوگوں نے جوتوں کے ساتھ راستوں پر کھڑے ہوکر جنرل ضیاء کا استقبال کیا تھا۔ یہ تحریک جمہوریت کی بحالی کے لیے تھی مگر سندھ میں اس تحریک نے اس لیے طول پکڑا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق سندھ کی دھرتی سے تھا۔
سندھی اس بات سے واقف تھے کہ اعلیٰ عدالت ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے گی کیونکہ جج آمر سے ڈرتے تھے۔ بھٹو صاحب کا قتل بے شک عدالت کے حکم سے ہوا، لیکن اس کے پیچھے تھے جنرل ضیاء۔ ایسی تحریکیں قوموں کے مزاج بدل دیتی ہیں، تاریخ رقم کرتی ہیں۔ ادب و شاعری کی تخلیق ہوتی ہے، مزاحمت جنم لیتی ہے۔ بحث و مباحثہ ہوتے ہیں اور ایسے ہی سیاسی لیڈر اور پارٹی ارکان پیدا ہوتے ہیں۔
اس زمانے میں میرے والد جلا وطنی اور پابندِ سلاسل کی صعوبتیں کاٹ کر ضعیف ہو چکے تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے آغاز سے ایک سال پہلے انتقال کرچکے تھے، مگر وہ اپنی زندگی میں یہ کہتے اور لکھتے تھے کہ یہ آمر نہ جانے اس ملک کوکہاں لے جائے گا اور وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ سندھ جو صدیوں سے صوفی ثقافت کا امین ہے، اس آمرکو ضرور مزاحمت سے جواب دے گا۔ پھر ان کے انتقال کو صرف ایک ہی سال ہوا تھا کہ ایم آر ڈی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس زمانے میں سوشل میڈیا کا وجود نہ تھا، پرنٹ میڈیا پر مکمل سنسرتھا۔
ٹی وی چینل صرف ایک تھا اور وہ بھی سرکاری۔ صرف ایک ریڈیو چینل بی بی سی تھا اور اس کے رپورٹر مارک ٹیلی تھے، جو پاکستان کے بارے میں تبصرے کرتے تھے اور یہاں خبریں دیتے تھے اور وہ خبریں بی بی سی سے نشر ہوتی تھیں۔ جب لوگوں کی ہلاکتوں کا سنا جاتا تو لوگوں کا لہو گرم ہوتا تھا۔
تحریک کے تین سال بعد جب بے نظیر بھٹو صاحبہ لاہور آئیں تو ان کا ایک ولولہ انگیز استقبال کیا گیا، اس استقبال کی مثال آج بھی کہیں نہیں ملتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو جلا وطن رہیں اور یہاں پارٹی کی بقاء میں بھٹو صاحب کے بعد سب سے بڑا کردار غلام مصطفی جتوئی کا تھا۔
تمام وڈیروں نے جیل کی ہوا کھائی مگر کچھ ہی دنوں میں معافی نامے پر سائن کرکے آ زاد ہوئے۔ یہ تحریک اس طرح سے وڈیروں کے ہاتھوں سے نکل گئی اور یہ تحریک رسول بخش پلیجو اور ان کے جیسے کئی قوم پرست سرخوں کے ہاتھوں میں آگئی۔
میں بھی ایک ایسے باپ کا بیٹا تھا جو بائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔ یعنی سندھ کے حقوق اور صوبائی خود مختاری کی بات کرتے تھے مگر پاکستان کے وفاق پر ان کا بھرپور یقین تھا۔ میرے والد کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو بنگالیوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ مجھ سمیت سیکڑوں نوجوان اس تحریک سے متاثر ہوئے اور سیاست میں اپنا قدم رکھا۔ جی ایم سید نے ایم آر ڈی کی تحریک کی مخالفت کی تھی۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ چاہے یہ ملک آمریتوں کے قبضے میں رہے اور اندر سے کمزور ہو کیونکہ سندھ کو حقوق کبھی بھی جمہوریت سے نہیں ملیں گے۔
ایم آر ڈی کی تحریک کے پانچ سال بعد جنرل ضیاالحق کی موت ایک ہوائی حادثے میں ہوئی اور بے نظیر بھٹو اس ملک کی وزیرِ اعظم بنیں، مگر آمریتیں جو کل تک براہِ راست تھیں، انھوں نے اپنی ماہیت تبدیل کر دی اور اب بلواسطہ طور پر وہ ہائبرڈ جمہوریت کے نام پر اب بھی مسلط ہیں۔
چالیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد آج سندھ سے ایک اور مضبوط تحریک کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ تحریک دریاؤں کی تحریک ہے، پانی کی تحریک ہے۔ یہ تحریک وڈیروں اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہے۔ سندھ کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پانی کی تقسیم کے حوالے سے پیپلز پارٹی سمجھوتے کا شکار ہوئی ہے۔
اس تحریک کا آغاز ان زمانوں میں ہوا ہے جب سوشل میڈیا کا وجود ہے، جس نے تمام لوگوں کو متحد کردیا ہے۔ اس تحریک کی قیادت وڈیرے نہیں بلکہ قوم پرست کررہے ہیں۔ اس تحریک سے جو شخصیات ابھر رہی ہیں وہ بلاول بھٹو نہیں بلکہ ذوالفقارجونئیر ہیں جو بھٹوکے پوتے اور میر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ہیں اور دوسرے جی ایم سید کے پوتے زین شاہ ہیں، رسول بخش پلیجو کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو اور ڈاکٹر قادر مگسی ہیں۔
اسی طرح بہت سے قوم پرست گروہ اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ خواتین ریلیوں اور جلوسوں میں مردوں کے شانہ بشانہ راستوں پر نکل آئی ہیں۔ طالب علم اپنے اساتذہ کے ہمراہ اسکول یونیفارمز میں رستوں پر مظاہرے کررہے ہیں۔ سندھ کی وکلاء برادری اس تحریک کو مضبوط بنا رہی ہے۔ اس تحریک میں جمعیتِ علمائے اسلام(ف) بھی شامل ہو رہی ہے۔ ماہِ رمضان کے گزرنے کے بعد یہ تحریک یقینا زور پکڑے گی۔ مجبور ہوکر پیپلز پارٹی نے 25 مارچ کو پورے سندھ میں مظاہروں کی کال دی لیکن لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ میرا سیاست کی طرف رجحان ایم آر ڈی کی تحریک کے سبب تھا اور میرے جیسے سیکڑوں نوجوان اس میدان میں اسی سبب اترے ہوںگے۔ یہ ایم آر ڈی کی تحریک سے ہی جواز بنا کہ 1990 کی دہائی میں سندھی اخبارات کا اجراء ہوا، وگرنہ اس سے پہلے صرف اردو اخبارات کا ہی غلبہ تھا۔ پانی کی اس تحریک سے نہ صرف نوجوان بلکہ بچے بھی متاثر ہو کر سیاست اور مزاحمت کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔
یہ تحریک نہ صرف مزاحمت کو جنم دے رہی ہے بلکہ اس تحریک سے ادب، شاعری، موسیقی اورگیت بھی جنم لے رہے ہیں۔ سندھ پچاس سال تک صرف بھٹوکے نام کے نعرے لگاتا رہا،گیت گاتا رہا آج وہ ہی سندھ، دریا کے نعرے لگا رہا ہے اور دریا ہی کے گیت گا رہا ہے۔کل تک جو سندھ وڈیرے کو ووٹ دیتا تھا، آج وہ اس ووٹ پر سوچ و بچارکر رہا ہے۔
موجودہ پانی کی تقسیم کی تحریک اور ایم آر ڈی کی تحریک میں فرق یہ ہے کہ ایم آر ڈی کی تحریک میں ایجنڈا بحالی جمہوریت تھا مگر یہ تحریک پانی کی منصفانہ تقسیم کی تحریک ہے۔ اس کا اثر براہِ راست وفاق پر پڑے گا، بھٹو سندھ میں وفاق کی علامت تھے اور یہ قوم پرست جو اس تحریک کے ہراول دستہ ہیں، ان کا وفاق پر اعتبار نہیں۔
سندھ کے اندر ایک نیا بیانیہ جنم لے چکا ہے۔ سندھ حکومت نے اس بیانیے کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جب روک نہ سکی تو خود کواس بیانیے کی طرف راغب کیا۔ ان کی سولہ برس بری حکمرانی بھی اس بیانیے کی وجہ ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی بہ حیثیت ایک سیاسی جماعت خود وڈیروں کا ایک وطیرہ بن کر رہ گئی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایم ا ر ڈی کی تحریک ذوالفقار علی بھٹو تحریک کا ا غاز پیپلز پارٹی اس تحریک سے تحریک کے یہ تحریک رہے ہیں پانی کی سندھ کے اور یہ رہا ہے کے بعد
پڑھیں:
کلاسیکی تحریک کے اردو اد ب پر اثرات
فنون لطیفہ ہو یا شعرو ادب ،کلاسیکل تحریک ایسی تحریک کو کہا جاتا ہے جو قدیم یونانی ،رومی اور تاریخ کے ابتدائی ادوار کے اصولوں، جمالیات اور فکری اقدارو روایات کو اپنا موضوع بناتی ہے۔اردو ادب کی تاریخ لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’اردو ادب میں کلاسیکی تحریک براہ راست،تو مغرب کی طرح ایک منظم تحریک کے طور پر نہیں آئی،لیکن اس کا اثر فارسی اور عربی کلاسیکی ادب کے ذریعے ابتدا ہی سے اردو شاعری اورنثر میں موجود رہا‘‘۔
کلاسیکی تحریک کے زیر اثرتخلیق ہونے والے ادب کابنیادی وصف یہ رہا ہے کہ اس میں سادگی ،توازن ،ترتیب و تہذیب اور اخلاقی اقدار و روایات کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ اردو کے شعری ادب میں خصوصاً غزل میں عشق و محبت اور اخلاقیات جیسے موضوعات باندھے جاتے رہے ہیں ۔ جسے عرف عام میں کلاسیکی روایت کانام دیا جاتا ہے۔ اردو داستان اور مثنوی میں بھی مذکورہ روایات کا اثر بہر حال ملتا ہی ہے خصوصاً قصہ گوئی میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا رہا ۔
کلاسیکی ادب میں عموماً فطرت ،انسانی کردار ،اخلاقی روایات اور فلسفیانہ حیات کے مستقل اصولوں پر ارتکاز کیا گیا۔شمالی ہندوستان کے شعرا میر انیس ،ولی دکنی ،میر تقی میر ،سودا اور نظیر اکبر آبادی کے اسلوب نگارش میں جوسادگی،اور تہذیبی تواز ن جھلکتا ہے وہ کلاسیکیت کے فارسی اسلوب کا آئینہ دار ہے۔
انیسویں صدی میں جب بدیشی ادب کے تراجم کے چل چلائو کا زمانہ آیا تو مغربی کلاسیکی تحریک کے قواعد و ضوابط اپنے جلو میں لئے ہوئے ہی آیا۔ یوں معروضیت کی روایت کو بھی تقویت حاصل ہوئی اور اردو ادب میں تنقیدی اصول بھی اسی تناظر میں مرتب کئے گئے اور یہ کلاسیکی شعور کی بیداری کا سنہری دور تھا جس میں قدیم ادب کی آبیاری و پاسداری کا رواج عام ہوا۔ادب قدیم ہو یا جدید اس میں اگر فکری اور تہذیبی شعور کا فقدان ہو تو ہم اسے عمدہ ادب نہیں کہہ سکتے ۔کیونکہ انسانی تہذیب کی قدیم ادبی روایات کی بنیاد عقل ، منطق ،اصول پسندی اور اعتدال پر مبنی رہی ہے۔جو آج بھی توازن اور اعتدال کو معیاری ادب کا مستحکم حوالہ تصور کیا جاتا ہے ۔
یو نان اور روم کی قدیم تہذیب جہاں افلاطون ،ارسطو ،ہیروڈس،ہومراور سافیکل جیسے نابغہ روزگار لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے ادب و فن کے لئے اصول وضع کئے ،ان کے نکتہ نظر کے مطابق ’’ادب کا مقصد کردار سازی ،اخلاقی تربیت اور فطرت کے حسن و توازن کا اظہار تھا‘‘۔
رومی ادب کے امتزاج اس حسن کو دوبالاکردیا۔پھر اس کے بعد جب مغر ب نے نئی کروٹ لی جسے نشاہ الثانیہ (Renaissance) کہا جاتا ہے تو مغرب نے نئے تہذیبی شعور کے ساتھ کلاسیکی اقدار کو گلے لگایا،یوں سترھویں اور اٹھارہویں صدی میں انگلستان اور فرانس میں کلاسیکی تحریک کے طفیل ایک بار پھر اد بی ماحول کی فضا بنی اور ڈرائیڈن ودیگر معتبر ادیبوں نے کلاسیکی تحریک کے زیر سایہ نئے ادبی اصول مرتب کئے ۔ اور ادب جو عقل و شعورسے ماورا جذباتیت کے اظہار کاذریعہ بن کے رہ گیا تھا اس میں ایک عقل و خرد اور استدلال نے جگہ پالی ۔
یہ ایک ادبی معجزہ تھا جس میں نئے اخلاقی قواعدوضوابط ترتیب دیئے گئے ،زندگی کی صداقتوں کو ادب کا موضوع بنایا گیا۔ادب اور فنون لطیفہ کے نئے سانچے ڈھالے گئے اور پیش پا افتادہ خیالات کے کہنہ پیریوں معیوب سمجھ کر ان سے انحراف کو ادبی مزاج کا لازمہ بنایا گیا۔ حقیقت پسندی کو شعار بنایا گیا ۔ زندگی کی تلخیاں ادب کا تازہ موضوع بنیں ۔پھر جب اظہار پر پابندیوں کی روش چلی تو علامت و تجرید بھی ہتھیار بنے ۔
مگر جو حسن کلاسیکی ادب میں ہے اس کا نکھار کوئی نہیں چھین سکا۔اردو ادب نے فقط کلاسیکی تحریک کا اثر ہی قبول نہیں کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر شعرو ادب ، فلسفہ و نفسیات میں جو بھی معروضی تبدیلیاں آئیں انہیں اپنی روح میں جذب کیا ۔