Jasarat News:
2025-07-04@04:08:06 GMT

پانچ جولائی ایک تاریخ

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پانچ جولائی کو پیپلز پارٹی کی حکومت ختم اور برطرف نہیں ہوئی تھی بلکہ ڈاکٹر نذیر شہید کے قاتلوں کی حکومت برطرف ہوئی تھی۔ جو بات سچ ہے وہ نوجوان نسل کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے بھٹو حکومت اور ان کی جمہوریت کی یاد دھانی قوم کو مسلسل کرانے کی ضرورت ہے۔ جن کو بھٹو صاحب کی حکومت کے بارے کچھ جاننا ہے وہ بھٹو کے مخالفین کو نہ پڑھیں خود بھٹو صاحب کے چہیتے کارکنوں کی کتا ب ہی مطالعہ فرما لیں۔ رانا شوکت محمود، پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر رہے، بھٹو کے صوبائی وزیر رہے، اپنی کتاب انقلاب اور رد انقلاب میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ بھٹو صاحب کے پریس سیکرٹری خالد حسن کی کتاب مطالعہ کرلی جائے آنکھیں کھل جائیں گی کہ بھٹو کی جمہوریت کیسی تھی؟ بھٹو صاحب نے ایک بار سکندر مرزا سے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کے لیے آپ کی خدمات ناگزیر ہیں، جب ہمارے ملک کی تاریخ معروضی مورخین لکھیں گے تو آپ کا نام مسٹر جناح سے بھی پہلے رکھا جائے گا‘‘۔ مکمل چاپلوسی۔ پیپلزپارٹی ایک سیاسی جماعت ہے اس کو اپنا پروگرام، اپنا منشور اور اپنی تاریخ اپنے رنگ اور مزاج کے مطابق ہی بیان کرنی ہے۔ بالکل کرے، کوئی نہیں روک سکتا مگر وہ دوسروں کو بے خبر نہ سمجھے۔
جب ہم سیاسی واقعات کو کسی تعصب کے بغیر دیکھیں گے اور غلطیوں سے سبق سیکھیں تو آگے بڑھ سکیں گے۔ خالد حسن اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہیں بھٹو صاحب کی حکومت کی برطرفی میں امریکا کا کوئی کردار نہیں ملا۔ بھٹو صاحب اپنے دوستوں پر بھی بہت کم بھروسا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے دور میں ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید کیا گیا، خواجہ رفیق قتل ہوئے، نواب محمد احمد خان قتل ہوئے، ڈاکٹر نذیر احمد جنہیں سید اسد گیلانی کو دی گئی تنبیہ کے بعد ان کے کلینک میں گولی مار کر شہید کیا گیا تھا۔ خواجہ رفیق کو پنجاب اسمبلی کے پیچھے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے گولی مار دی گئی تھی۔ عبدالصمد اچکزئی کو ان کے گھر پر دستی بم حملے میں قتل کیا گیا۔ ایم پی اے اور بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مولوی شمس الدین کو ان کی گاڑی میں گولی مار دی گئی تھی اپنی جان بچانے کی کوششوں سے بچنے والوں میں ولی خان بھی شامل تھے، جنہوں نے حملے میں اپنے ڈرائیور اور ذاتی محافظ کو کھو دیا تھا۔ میاں طفیل محمد کو جیل میں بدتمیزی کا نشانہ بنایا گیا، اس زمانے کے اخبارات کا مطالعہ کیجیے، بہت کچھ مل جائے گا۔ اس وقت بدنام زمانہ فوس ایف ایس ایف تھی جسے پولیس افسر حق نواز ٹوانہ نے بنایا تھا۔ نواب محمد احمد خان کے قتل کے وقت مسعود محمود اس کے سربراہ تھے۔ یہ ایک نجی آرمی تھی۔ چودھری سردار سابق آئی جی پولیس پنجاب کی سوانح عمری دی الٹیمیٹ کرائم کا مطالعہ کیجیے‘ بہت کچھ اس میں مل جائے گا۔ ان کے مطابق ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود بھٹو صاحب کے چیف سیکورٹی آفیسر سعید احمد خان اور اس وقت کے ڈی آئی جی سردار عبدالوکیل، سب کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بات یہی تک محدود نہیں بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی مخالف خواتین کے خلاف اس وقت کی نتھ فورس کو جس طرح استعمال کیا! یہ سب کچھ غضب ناک تھا۔
چودھری ظہور الٰہی جن کے سیاسی وارث اس سے مفاہمت کیے بیٹھے ہیں ان کے خاندان نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ان کے خلاف 117 مقدمات بنائے گئے۔ اس میں بھینس چوری کا معاملہ بھی شامل تھا۔ دوسری جانب دیکھیے جب اقتدار کے آخری دنوں میں بھٹو صاحب نے مولانا مودودی سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تو مولانا نے انہیں عزت دی، گھر پر ملاقات کی اور کارکنوں سے کہا خبردار کوئی میرے مہمان کو گزند پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔
بھٹو صاحب انتقامی مزاج کے تھے فیصل آباد اس وقت لائل پور سے پی پی پی کے ایم این اے مختار رانا ان کے غصے کا نشانہ بنے، شدید جسمانی تشدد کیا گیا‘ پنجابی کے درویش شاعر استاد دامن نے بھٹو مخالف نظم لکھی ان کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ ہینڈ گرنیڈ رکھنے کا الزام لگایا۔ جے اے رحیم کابینہ کے ایک سینئر رکن تھے ان کا قصور یہ تھا کہ وہ بھٹو صاحب کے عشائیہ سے ذرا جلدی نکل گئے انہیں رات ایک بجے ایف ایس ایف کے ہاتھوں ذلیل کرایا گیا۔ ملک معراج خالد نے اپنی سوانح عمری معراج نامہ میں بیان کیا ہے کہ بھٹو اور کھر اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے تھے۔ معراج خالد کو ایک بار ظہور الٰہی کی بیٹی کا فون آیا، جس کا لاہور کالج آف ہوم اکنامکس میں داخلہ روک دیا گیا تھا۔ معراج ایک نفیس انسان تھے بھٹو صاحب سے داخلے کی اجازت چاہی تو بھٹو صاحب مشتعل ہوگئے، دلائی کیمپ بھی بھٹو صاحب سے جڑا ہوا ہے‘ افتخار تاری، چودھری ارشاد اور میاں اسلم یہاں قید کیے گئے۔ جنرل کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’’ورکنگ ود ضیا‘‘ میں واقعات بیان کیے ہیں جنرل گل حسن اور ائر مارشل رحیم خان نے بھٹو کو اقتدار میں لانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ان دونوں کو انتہائی ذلت آمیز طریقے سے برطرف کر دیا گیا، استعفوں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا، بے شمار واقعات ہیں اس دور کے اور یہ بھی سچ ہے کہ پیپلزپارٹی آج کچھ بھی کہے مگر تاریخ بہت بے رحم ہے۔
1977 کے انتخابات میں جہاں تک دھاندلی کی بات ہے اپنی انفرادی جیت کو یقینی بنانے کے لیے جو پہلی اینٹ بھٹو نے بنائی تھی وہ خود وزیر اعظم کے بلامقابلہ انتخاب سے رکھی گئی تھی، اس کی مثال ان کے وزیر اعلیٰ اور چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے بھی رکھی۔ بس پیپلزپارٹی کو اسی کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ بھٹو صاحب کے مداح اپنی سیاسی وابستگی رکھیں مگر تاریخ کا بھی مطالعہ کرتے رہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بھٹو صاحب کے کی حکومت کیا گیا کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان : مستونگ میں نامعلوم مسلح افراد کی تحصیل دفتر ‘ بینکوں اور بازار میں فائرنگ ایک بچہ ہلاک‘ پانچ افراد زخمی

کوئٹہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم جولائی ۔2025 )بلوچستان کے ضلع مستونگ میں نامعلوم مسلح افراد نے تحصیل کے دفتر اور بینکوں پر حملہ کیا ہے پولیس حکام کے مطابق ان حملوں میں اب تک کم از کم ایک بچہ ہلاک اور پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں ڈی ایس پی مستونگ محمد یونس مگسی نے بتایا کہ مسلح حملہ آوروں نے پہلے مستونگ شہر میں تحصیل آفس پر حملہ کیا ہے.

(جاری ہے)

نجی ٹی وی کے مطابق یونس مگسی نے بتایا کہ اس حملے کے بعد پولیس اہلکار پہنچے اور حملہ آوروں کے ساتھ مقابلہ ہوا اور مقابلے کے بعد حملہ آور تحصیل آفس سے نکل کر ایک بینک میں داخل ہوئے جہاں پولیس اہلکاروں کے پہنچنے کے بعد انہوں نے راکٹ فائر کیے ڈی ایس پی کا کہنا تھاکہ ایف سی کی نفری بھی شہر میں پہنچ گئی ہے اور سکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کا مسلح افراد کے ساتھ مقابلہ جاری ہے.

انہوں نے بتایا کہ اس وقت جانی اور مالی نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم اب تک ایک بچے کی ہلاکت کے علاوہ پانچ افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے. دوسری جانب سرکاری حکام کے مطابق مستونگ کے ہسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کردی گئی ہے مسلح افراد کے حملے کے بعد شہر میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور شہر کے مرکزی علاقے خالی ہوگئے ہیں مستونگ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے متصل جنوب میں واقع ایک ضلع ہے جو کہ کوئٹہ سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے مستونگ کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے ضلع مستونگ میں بھی بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں.

مستونگ میں ماضی میں پیش آنے والے بڑے واقعات میں سے بعض کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں جبکہ بعض کہ ذمہ داری مذہبی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے حالیہ واقعے کی ذمہ داری فی الحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے ایک اور رپورٹ کے مطابق حملہ آوروں کی جانب سے شہر کے مرکزی بازار میں بھی اندھا دھندفائرنگ کی گئی اور متعدد سرکاری گاڑیوں اور املاک کو نذر آتش کیا گیا واقعے کے بعد بازار بند ہوگیا ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری علاقے میں پہنچ گئی ہے. 

متعلقہ مضامین

  • شوہرکے مظالم سے تنگ خاتون پانچ بچوں سمیت بے گھر،انصاف کیلیے دربدر
  • آہنگِ قرآن،الفاظ کا درو بست
  • ’کیک پر لکھ دینا چھیپا صاحب کی طرف سے تحفہ ہے لیکن یہ مت بتانا میں نے دیا ہے‘
  • پانچ رنز پر 7 آؤٹ: بنگلا دیشی کھلاڑی نے سری لنکا سے شکست کی وجہ بتا دی
  • حج 2026ء کے لیے رجسٹریشن کی آخری تاریخ 9 جولائی ہے، وزارت مذہبی امور
  • باجوڑ بم دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر سمیت پانچ افراد ہلاک
  • لاہور اور کراچی کی شاندار تقریبات
  • پنجاب بھر میں پانچ روزہ بارشوں کا الرٹ شہریوں کی تشویش میں اضافہ
  • بلوچستان : مستونگ میں نامعلوم مسلح افراد کی تحصیل دفتر ‘ بینکوں اور بازار میں فائرنگ ایک بچہ ہلاک‘ پانچ افراد زخمی