Jasarat News:
2025-11-04@06:18:12 GMT

پانچ جولائی ایک تاریخ

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پانچ جولائی کو پیپلز پارٹی کی حکومت ختم اور برطرف نہیں ہوئی تھی بلکہ ڈاکٹر نذیر شہید کے قاتلوں کی حکومت برطرف ہوئی تھی۔ جو بات سچ ہے وہ نوجوان نسل کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے بھٹو حکومت اور ان کی جمہوریت کی یاد دھانی قوم کو مسلسل کرانے کی ضرورت ہے۔ جن کو بھٹو صاحب کی حکومت کے بارے کچھ جاننا ہے وہ بھٹو کے مخالفین کو نہ پڑھیں خود بھٹو صاحب کے چہیتے کارکنوں کی کتا ب ہی مطالعہ فرما لیں۔ رانا شوکت محمود، پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر رہے، بھٹو کے صوبائی وزیر رہے، اپنی کتاب انقلاب اور رد انقلاب میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ بھٹو صاحب کے پریس سیکرٹری خالد حسن کی کتاب مطالعہ کرلی جائے آنکھیں کھل جائیں گی کہ بھٹو کی جمہوریت کیسی تھی؟ بھٹو صاحب نے ایک بار سکندر مرزا سے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کے لیے آپ کی خدمات ناگزیر ہیں، جب ہمارے ملک کی تاریخ معروضی مورخین لکھیں گے تو آپ کا نام مسٹر جناح سے بھی پہلے رکھا جائے گا‘‘۔ مکمل چاپلوسی۔ پیپلزپارٹی ایک سیاسی جماعت ہے اس کو اپنا پروگرام، اپنا منشور اور اپنی تاریخ اپنے رنگ اور مزاج کے مطابق ہی بیان کرنی ہے۔ بالکل کرے، کوئی نہیں روک سکتا مگر وہ دوسروں کو بے خبر نہ سمجھے۔
جب ہم سیاسی واقعات کو کسی تعصب کے بغیر دیکھیں گے اور غلطیوں سے سبق سیکھیں تو آگے بڑھ سکیں گے۔ خالد حسن اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہیں بھٹو صاحب کی حکومت کی برطرفی میں امریکا کا کوئی کردار نہیں ملا۔ بھٹو صاحب اپنے دوستوں پر بھی بہت کم بھروسا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے دور میں ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید کیا گیا، خواجہ رفیق قتل ہوئے، نواب محمد احمد خان قتل ہوئے، ڈاکٹر نذیر احمد جنہیں سید اسد گیلانی کو دی گئی تنبیہ کے بعد ان کے کلینک میں گولی مار کر شہید کیا گیا تھا۔ خواجہ رفیق کو پنجاب اسمبلی کے پیچھے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے گولی مار دی گئی تھی۔ عبدالصمد اچکزئی کو ان کے گھر پر دستی بم حملے میں قتل کیا گیا۔ ایم پی اے اور بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مولوی شمس الدین کو ان کی گاڑی میں گولی مار دی گئی تھی اپنی جان بچانے کی کوششوں سے بچنے والوں میں ولی خان بھی شامل تھے، جنہوں نے حملے میں اپنے ڈرائیور اور ذاتی محافظ کو کھو دیا تھا۔ میاں طفیل محمد کو جیل میں بدتمیزی کا نشانہ بنایا گیا، اس زمانے کے اخبارات کا مطالعہ کیجیے، بہت کچھ مل جائے گا۔ اس وقت بدنام زمانہ فوس ایف ایس ایف تھی جسے پولیس افسر حق نواز ٹوانہ نے بنایا تھا۔ نواب محمد احمد خان کے قتل کے وقت مسعود محمود اس کے سربراہ تھے۔ یہ ایک نجی آرمی تھی۔ چودھری سردار سابق آئی جی پولیس پنجاب کی سوانح عمری دی الٹیمیٹ کرائم کا مطالعہ کیجیے‘ بہت کچھ اس میں مل جائے گا۔ ان کے مطابق ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود بھٹو صاحب کے چیف سیکورٹی آفیسر سعید احمد خان اور اس وقت کے ڈی آئی جی سردار عبدالوکیل، سب کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بات یہی تک محدود نہیں بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی مخالف خواتین کے خلاف اس وقت کی نتھ فورس کو جس طرح استعمال کیا! یہ سب کچھ غضب ناک تھا۔
چودھری ظہور الٰہی جن کے سیاسی وارث اس سے مفاہمت کیے بیٹھے ہیں ان کے خاندان نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ان کے خلاف 117 مقدمات بنائے گئے۔ اس میں بھینس چوری کا معاملہ بھی شامل تھا۔ دوسری جانب دیکھیے جب اقتدار کے آخری دنوں میں بھٹو صاحب نے مولانا مودودی سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تو مولانا نے انہیں عزت دی، گھر پر ملاقات کی اور کارکنوں سے کہا خبردار کوئی میرے مہمان کو گزند پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔
بھٹو صاحب انتقامی مزاج کے تھے فیصل آباد اس وقت لائل پور سے پی پی پی کے ایم این اے مختار رانا ان کے غصے کا نشانہ بنے، شدید جسمانی تشدد کیا گیا‘ پنجابی کے درویش شاعر استاد دامن نے بھٹو مخالف نظم لکھی ان کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ ہینڈ گرنیڈ رکھنے کا الزام لگایا۔ جے اے رحیم کابینہ کے ایک سینئر رکن تھے ان کا قصور یہ تھا کہ وہ بھٹو صاحب کے عشائیہ سے ذرا جلدی نکل گئے انہیں رات ایک بجے ایف ایس ایف کے ہاتھوں ذلیل کرایا گیا۔ ملک معراج خالد نے اپنی سوانح عمری معراج نامہ میں بیان کیا ہے کہ بھٹو اور کھر اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے تھے۔ معراج خالد کو ایک بار ظہور الٰہی کی بیٹی کا فون آیا، جس کا لاہور کالج آف ہوم اکنامکس میں داخلہ روک دیا گیا تھا۔ معراج ایک نفیس انسان تھے بھٹو صاحب سے داخلے کی اجازت چاہی تو بھٹو صاحب مشتعل ہوگئے، دلائی کیمپ بھی بھٹو صاحب سے جڑا ہوا ہے‘ افتخار تاری، چودھری ارشاد اور میاں اسلم یہاں قید کیے گئے۔ جنرل کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’’ورکنگ ود ضیا‘‘ میں واقعات بیان کیے ہیں جنرل گل حسن اور ائر مارشل رحیم خان نے بھٹو کو اقتدار میں لانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ان دونوں کو انتہائی ذلت آمیز طریقے سے برطرف کر دیا گیا، استعفوں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا، بے شمار واقعات ہیں اس دور کے اور یہ بھی سچ ہے کہ پیپلزپارٹی آج کچھ بھی کہے مگر تاریخ بہت بے رحم ہے۔
1977 کے انتخابات میں جہاں تک دھاندلی کی بات ہے اپنی انفرادی جیت کو یقینی بنانے کے لیے جو پہلی اینٹ بھٹو نے بنائی تھی وہ خود وزیر اعظم کے بلامقابلہ انتخاب سے رکھی گئی تھی، اس کی مثال ان کے وزیر اعلیٰ اور چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے بھی رکھی۔ بس پیپلزپارٹی کو اسی کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ بھٹو صاحب کے مداح اپنی سیاسی وابستگی رکھیں مگر تاریخ کا بھی مطالعہ کرتے رہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بھٹو صاحب کے کی حکومت کیا گیا کے لیے

پڑھیں:

تاریخ کی نئی سمت

ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔

پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔

نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔ 

لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔

اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔

نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔

ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔

یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔

ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔

افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔

پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔

فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔

اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔

ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔

مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔

گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔

افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔

اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔

نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔

پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔

نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔

متعلقہ مضامین

  • اٹلی: برفانی تودے کی زد میں آکر جرمن کوہ پیماؤں سمیت پانچ افراد ہلاک، دو زخمی
  • ملک میں مہنگائی ایک سال کی بلند ترین سطح 6.24فیصد تک پہنچ گئی، متعدد اشیا مہنگی ہو گئیں
  • بابا گورونانک کے جنم دن کی تقریبات کا آغاز، سکھ یاتریوں کی آمد کا سلسلہ جاری
  • بابا گورو نانک کا 556واں جنم دن، گوردوارہ جنم استھان کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا
  • سندھ سے ایک ہزار ہندو یاتری خصوصی ٹرین کے ذریعے ننکانہ پہنچ گئے 
  • خرابات فرنگ
  •   ایف بی آر کو جولائی تا اکتوبر 270 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا
  • تاریخ کی نئی سمت
  • بابا گورو نانک کے جنم دن کی تقریبات، صوبائی وزرا اور اعلیٰ حکام کا ننکانہ صاحب کا دورہ
  • بابا گورونانک کا 556ویں جنم دن، ننکانہ صاحب کے تعلیمی اداروں میں 3 روزہ تعطیل