86 سالہ جوان کے ہاتھوں میں لہو کی تلوار
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سید علی خامنہ ای کے ہاتھ میں یہ "لہو کی تلوار" درحقیقت مظلومیتِ عالم کا پرچم ہے، جو شہیدوں کے خون سے سجا ہے۔ 86 سالہ جسم میں جوان روح آج بھی صیہونیت کے خلاف میدانِ جنگ میں کھڑی ہے۔ دشمن اور مغربی میڈیا جب اس گمان میں تھا کہ علی خامنہ ای اب ہمیشہ کے لئے چھپے رہیں گے، وہ اب دوبارہ دکھائی نہیں دیں گے۔ لیکن شب عاشور حیدر کرار، غیر فرار کے بیٹے نے اپنے جد کی طرح میدان میں اتر کر وقت کے مرحب و عنتر کے غرور و گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا۔ میدانی اور روانی دونوں میدانوں میں صیہونیت کو شکست سے دچار کیا۔ صیہونیت کی شکست محض ایک جنگ کا اختتام نہیں، بلکہ "حق کی آخری فتح" کا آغاز ہے۔ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.
خونِ شہیدوں سے سُرخ ہونے والی اس تلوار کی دھار پر صیہونیت کی شکست کندہ ہے۔ یہ تلوار ایک ایسے "86 سالہ جوان" کے ہاتھوں میں ہے، جس کا جسم بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا ہے، لیکن روح آج بھی اُس جوان مجاہد کی مانند ہے، جو عرصۂ شش درہ سے صیہونی طاقتوں کے خلاف جنگِ حق کی ڈائریکٹ لی کمانڈ کر رہے ہیں۔ یہ شخصیت "رہبرِ معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی" ہیں۔ وہ رہنماء جس کے ہاتھ میں "لہو کی تلوار" محض علامت نہیں، بلکہ استقامت و حریت، عزمِ صمیم و یقین و محکم اور شہیدوں کے خون سے لکھی گئی فتح و نصرت کی داستان ہے۔
ان کی زندگی جہادِ باطنی و ظاہری کی عملی تفسیر ہے۔ 1939ء میں مشہد کے علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے اس سیدِ حسینی نے چار سال کی عمر میں قرآن سے تعلیم کا آغاز کیا۔ سترہ سال کی عمر میں درجہ اجتہاد اور چوبیس سال کی عمر میں کامل مجتہد بن گئے۔ انقلابِ اسلامی کے صفِ اول کے رہنماء، دفاعِ مقدس میں امام امت امام خمینی کے ترجمان اور ملک کے مقبول ترین صدر رہنے کے بعد، آج 86 برس کی عمر میں بھی ان کی روح کی جوانی کا راز "عزم کی تازگی" ہے۔ جوانی عمر سے نہیں، ارادے کی مضبوطی سے ہوتی ہے۔ 1981ء میں صہیونی ایجنٹ کے حملے میں ان کا جسم اپاہج ہوا، مگر ارادوں کی طاقت کم نہ ہوئی۔
زمانہ انہیں بڑھاپے کا قیدی سمجھے، لیکن یہ شخصیت شہیدوں کے خون سے سینچے گئے انقلابِ اسلامی کا محافظ اور اسلام کے جغرافیے کا نگہبان ہے۔ آپ کا مطالعہ اس قدر وسیع ہے کہ تیزخوانی میں عالمی سطح پر صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ کتابخوانی آپ کی زندگی کا اہم ترین مشغلوں میں سے ایک ہے۔ جوانوں میں یہ جوش دیکھنے کو ملتا ہے کہ رہبرِ انقلاب کس نئی کتاب کی سفارش کرتے ہیں۔ آپ نہ صرف ایرانی مصنفین بلکہ بین الاقوامی ادیبوں کی تخلیقات کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ شہداء کی یادداشتیں آپ کے نزدیک خاص اہمیت رکھتی ہیں، کیونکہ شہیدوں کا خون انسان کے عزم کو پختہ کرتا ہے۔ لہو تلوار سے زیادہ موثر ہے۔
"لہو کی تلوار" فولاد کی نہیں، بلکہ تربیت اور توکل کی تلوار ہے۔ اس میں عزمِ حقیقی، ایمانِ کامل اور رضائے الہیٰ کا امتزاج ہے۔ روح اللہ خمینی اور رہبرِ معظم نے قوم کو اس طرح تربیت دی کہ ان کی نسل نے تمناوں کو شہادت پر قربان کرنا سیکھ لیا۔ یہ تلوار شہیدوں کے خون، پختہ ارادوں اور اسلامی بیداری کی علامت ہے۔ 2025ء میں جب صیہونی ریاست نے ایران پر حملہ کیا تو شہیدوں کے ورثاء نے جہادِ علمی میں ایسی کامیابیاں حاصل کیں کہ ایرانی میزائلوں نے تل ابیب کے مراکز کو خاک میں ملا دیا۔ آئرن ڈوم کے پرخچے اڑ گئے۔ نتن یاہو اپنی کابینہ میں بے بسی کا شکار رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے براہِ راست مداخلت کی کوشش کی، مگر امریکی اڈے ایران کے نشانے پر آگئے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اسے "عراق جنگ سے بھی بڑی غلطی" قرار دیا۔ رہبرِ انقلاب کے الفاظ تھے: "صہیونی حکومت کی شکست اور امریکا کے منہ پر یہ طمانچہ، ایرانی قوم کے اتحاد کا معجزہ ہے۔"
یہ تلوار فولاد کی نہیں، بلکہ شہیدوں کے لہو کی طاقت ہے۔ ایران-عراق جنگ سے لے کر آج تک، لاکھوں شہیدوں کا خون اس کی آبِ حیات ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای شہداء کی یاد کو زندہ رکھنے پر زور دیتے ہیں، کیونکہ شہیدوں کی زندگیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ مظلوموں کی حمایت کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، خواہ وہ غزہ ہو، کشمیر ہو یا بحرین۔ رنگ و نسل کی تفریق کو رد کرتے ہوئے، آپ نے اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار دے کر اسلامی وحدت کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس بارہ روزہ جنگ میں فتح صرف ایران کی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کی مشترکہ کامیابی تھی۔
رہبرِ انقلاب کی اصطلاح "اسلامی بیداری" مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثرات کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ ایرانی قوم نے ثابت کیا کہ ایک ملت، ایک قوم، وحدت و اتحاد اور "یکجہتی" سے دشمن کو شکست دے سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس عصر کے چند چی گویرا کو جمع کریں، تب بھی سید علی خامنہ ای کا کردار ان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپ کی فقیرانہ زندگی، تاریخی بصیرت (جیسا کہ آپ کی کتاب "قرآن میں اسلامی طرزِ تفکر کے بنیادی خدوخال" سے عیاں ہے) اور دفاعی، جنگی، سیاسی حکمتِ عملی نے سپر اور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
سید علی خامنہ ای کے ہاتھ میں یہ "لہو کی تلوار" درحقیقت مظلومیتِ عالم کا پرچم ہے، جو شہیدوں کے خون سے سجا ہے۔ 86 سالہ جسم میں جوان روح آج بھی صیہونیت کے خلاف میدانِ جنگ میں کھڑی ہے۔ دشمن اور مغربی میڈیا جب اس گمان میں تھا کہ علی خامنہ ای اب ہمیشہ کے لئے چھپے رہیں گے، وہ اب دوبارہ دکھائی نہیں دیں گے۔ لیکن شب عاشور حیدر کرار، غیر فرار کے بیٹے نے اپنے جد کی طرح میدان میں اتر کر وقت کے مرحب و عنتر کے غرور و گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا۔ میدانی اور روانی دونوں میدانوں میں صیہونیت کو شکست سے دچار کیا۔ صیہونیت کی شکست محض ایک جنگ کا اختتام نہیں، بلکہ "حق کی آخری فتح" کا آغاز ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سید علی خامنہ ای شہیدوں کے خون سے کی عمر میں کی شکست
پڑھیں:
لگتا ہے فوجداری نظام انصٓف با اثر افراد کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوجاتا ہے،عدالت عظمیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ نے 34 سال پرانے قتل کیس میں ملزم کی اپیل منظور کرلی، عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے فوجداری نظام انصاف طاقتور اور بااثرافراد کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوجاتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جسٹس اطہر من اللہ نے 34 سالہ پرانے قتل کے ایک مقدمے میں نامزد ملزم کی اپیل پر 20 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وہ سزا جو کسی قیدی کو ایک کمزور، ناکام اور سمجھوتا شدہ نظام انصاف کے باعث برداشت کرنا پڑے، نہ تو قانونی حیثیت رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ انصاف میں تاخیر کا سب سے زیادہ نشانہ وہ افراد بنتے ہیں جو مالی لحاظ سے اس قدر کمزور ہیں کہ اپنی مرضی کا وکیل رکھنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ فوجداری نظام انصاف، تفتیش سے لے کر اپیل کی سماعت تک، طاقتور اور بااثر افراد کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ایک کمزور اور سمجھوتا شدہ نظام انصاف قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچاتا ہے، جس سے بدعنوانی، آمریت اور طاقتور طبقے کی حکمرانی کو فروغ ملتا ہے۔ فیصلے کے مطابق سیاسی مداخلت اور کرپشن سے پاک فوجداری نظام انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ عدالت نے موجودہ کیس میں نوٹ کیا کہ 1991 میں اپیل کنندہ کم عمر تھا اور اس کا ماضی کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ملتا، اس کے علاوہ، عناد قتل بھی اپیل کنندہ کے والد سے منسوب کیا گیا اور ریکور کیے گئے آتشیں اسلحے کے شواہد کو شک سے بالا تر نہیں سمجھا گیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اپیل کنندہ عمر قید سے بھی زیادہ سزا جیل میں کاٹ چکا ہے، ان تمام وجوہات کی بنا پرعدالت عظمیٰ نے اپیل جزوی طور پر منظور کر لی ہے۔