پاکستان کا نظام صحت خود بیمار ہے اور ہر سال آبادی میں 61 لاکھ کا اضافہ ہو جاتا ہے، وزیر صحت
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال آبادی میں 61 لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے،جبکہ 68 فیصد بیماریاں گندا پانی پینے سے پھیلتی ہیں۔
وفاقی وزیر صحت بنیادی مرکز صحت گولڑہ شریف میں بگ کیچ اپ راؤنڈ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تقریب بچوں کو بارہ جان لیوا بیماریوں سے بچانے کیلئے ہے، جوبچے کوویڈ کے زمانے میں روٹین ویکسی نیشن سے محروم رہے یہ ان کیلئے ہے، مہم میں آئندہ بارہ دن تک بچوں کی ویکیسی نیشن کرینگے۔
مصطفی کمال نے کہا کہ پاکستان کا نظام صحت خود بیمار ہے، ہیلتھ کئیر سسٹم میں خرابیان ہیں، پمز اسپتال ہزاروں لوگوں کے لئے بنا تھا، اب لاکھوں لوگ آگئے تو مریض کہاں جائیں گے، اسپتال میں جائیںں تو لگتا ہے ابھی جلسہ ختم ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اربوں روپے لگا کر ہسپتال بنارہے ہیں ،مزیدکتنے ہسپتال بنائیں گے؟ 70 فیصد لوگ بڑے اسپتالوں میں غیر ضروری جاتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں آبادی 3.
پاکستان کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہیپاٹٹس کے مریضںوں میں پاکستان سب سے آگے ہے، 2 کروڑ 60 بچے اسکول سے باہر ہیں جبکہ پاکستان کے 40 فصد بچے غزائیت کی قلت کے باعث کمزور ہیں، ان کی نشوونما نہیں ہوپاتی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان میں استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد میں ریکارڈ اضافہ
ویب ڈیسک: پاکستان میں گزشتہ مالی سال کے دوران استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد نے تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو لیا جبکہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک میں غربت کی شرح بڑھ کر 45 فیصد ہو گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مالی سال 2024 کے دوران پاکستان نے 11 لاکھ 37 ہزار ٹن استعمال شدہ کپڑے درآمد کیے، جن کی مالیت 51 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہی۔ یہ گزشتہ سال کے 9 لاکھ 90 ہزار ٹن (43 کروڑ 40 لاکھ ڈالر) کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔
جشن آزادی:پنجاب کے 41 اضلاع میں بیک وقت آتشبازی
یہ نمایاں اضافہ ایک طرف سستے کپڑوں کی بڑھتی ہوئی طلب کو ظاہر کرتا ہے تو دوسری جانب ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور گہری ہوتی غربت کو بھی واضح کرتا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جو مقامی طور پر تیار کردہ برانڈڈ اشیا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اب لنڈا بازار یا ہفتہ بازاروں کا رخ کر رہے ہیں۔ شیرشاہ اور بنارس جیسے یہ بازار کم آمدنی والے طبقے کے لیے زندگی کی اہم ضرورت بن چکے ہیں، جہاں استعمال شدہ کپڑے، جوتے اور دیگر اشیا نئی برانڈڈ اشیا کے مقابلے میں نہایت کم قیمت پر دستیاب ہیں۔
پنجاب میں جشنِ آزادی پر 41 اضلاع میں بیک وقت آتشبازی
عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً 45 فیصد آبادی اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جب کہ نیا معیار فی کس یومیہ 4.20 ڈالر مقرر کیا گیا ہے، جو پہلے 3.65 ڈالر تھا۔ اس نئے معیار نے نچلے درمیانے طبقے میں غربت کی شرح کو 39.8 فیصد سے بڑھا کر 44.7 فیصد کر دیا ہے۔ پاکستان سیکنڈ ہینڈ کلوٹنگ مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی ایس ایچ سی ایم اے) کے جنرل سیکرٹری محمد عثمان فاروقی نے استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد میں اضافے کو بڑھتی ہوئی غربت سے منسلک کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کم اور متوسط آمدنی والے خاندان بڑی تعداد میں سستی استعمال شدہ اشیا پر انحصار کر رہے ہیں۔
پاک فوج خطرات سے نمٹنے کیلئے تیار، آزادی و خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے: فیلڈ مارشل
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ استعمال شدہ کپڑوں پر عائد مختلف ٹیکسز اور ڈیوٹیز کو کم کیا جائے، جن میں 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی، 5 فیصد کسٹمز ڈیوٹی، 6 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس اور تقریباً 5 فیصد سیلز ٹیکس شامل ہیں۔
عثمان فاروقی کے مطابق یہ ٹیکسز ان لوگوں کے لیے استعمال شدہ کپڑوں کو بھی مہنگا بنا دیتے ہیں جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ استعمال شدہ کپڑوں کے خریدو فروخت میں شامل تاجروں کو بھی اضافی ٹیکسز ادا کرنے پڑتے ہیں، جن میں خرید و فروخت کی قیمت کے فرق پر 5 فیصد سیلز ٹیکس شامل ہے، اور مقامی تاجروں کو سالانہ 6 لاکھ روپے سے زائد آمدنی ہونے پر انکم ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔
یوم آزادی کے موقع پر گوگل کا ڈوڈل تبدیل
فنانس بل 2024 میں استعمال شدہ کپڑوں کے درآمد کنندگان کو ودہولڈنگ ایجنٹ نامزد کیا گیا ہے، جنہیں تقسیم کاروں، ڈیلروں اور ہول سیلرز سے 0.1 فیصد ایڈوانس ٹیکس وصول کرنا لازمی ہے۔ لیکن اگر یہ پارٹیاں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں رجسٹرڈ نہ ہوں تو ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 2 فیصد یا غیر مطابقت رکھنے والے ریٹیلرز کے لیے 2.5 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔
فاروقی کے مطابق استعمال شدہ کپڑوں کے کاروبار سے وابستہ بہت سے افراد ایف بی آر میں رجسٹرڈ نہیں ہیں اور اکثر ان کے پاس مستقل کاروباری مقام یا درست ریکارڈ موجود نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ ٹیکس قوانین پر عمل نہیں کر پاتے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کا فائدہ عام عوام تک منتقل ہونا چاہیے۔
نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں، انہیں بہترین مواقع فراہم کیے جائیں گے: علی امین گنڈا پور
انہوں نے ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے اور استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دینے کا مطالبہ کیا تاکہ کم آمدنی والے طبقے کا مالی بوجھ کم ہو سکے۔ استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد زیادہ تر یورپی ممالک، امریکا، جاپان، کوریا، چین اور کینیڈا سے کی جاتی ہے۔
پاکستان میں خصوصی زونز میں قائم برآمد کنندگان 60 سے 70 فیصد درآمدات پر قابض ہیں، یہ یونٹس غیر ترتیب شدہ کپڑوں میں سے اعلیٰ معیار کی اشیا الگ کرتے ہیں، جنہیں بعد میں دوبارہ برآمد کیا جاتا ہے، جب کہ صرف 10 سے 20 فیصد مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے۔ استعمال شدہ کپڑوں پر درآمدی ڈیوٹی 36 روپے فی کلوگرام اور جوتوں پر 66 روپے فی کلوگرام عائد ہے۔
فاروقی کے مطابق ان ٹیکسز میں کمی ملک کے پسماندہ طبقے کو ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔
مارکیٹ سروے کے مطابق استعمال شدہ درآمدی جینز 300 سے 400 روپے میں ملتی ہیں، جب کہ سیکنڈ ہینڈ قمیض 250 سے 300 روپے میں دستیاب ہے، اس کے برعکس لاہور میں تیار ہونے والے نئے سپورٹس جوتے 2 ہزار 500 سے 3 ہزار 500 روپے میں اور ویتنام یا چین میں تیار کردہ برانڈڈ جوتے 4 ہزار سے 5 ہزار 500 روپے میں فروخت ہوتے ہیں، تاہم استعمال شدہ سپورٹس جوتے 600 سے 800 روپے میں مل جاتے ہیں، جو زیادہ تر خریداروں کے لیے قابل برداشت ہیں۔
سستی استعمال شدہ اشیا کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث لینڈا بازار اب ضروری بن گئے ہیں، جو مہنگی نئی اشیا کے متبادل فراہم کر رہے ہیں، جیسے جیسے پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے، یہ بازار کم آمدنی والے طبقے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، جو بڑھتی ہوئی غربت میں گزارا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔