امریکہ میں صیوہنی بیانیے کی مسلسل شکست
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ڈیموکریٹس، امریکی نوجوانوں اور غیر سفید فام کمیونٹیز کے رویوں میں تبدیلی فلسطینی کاز کے لیے ایک بنیادی اور امید افزا رجحان ہے۔ یہ تبدیلیاں فلسطینی عوام کی مزاحمت، آزاد میڈیا کے انکشافات، بین الاقوامی سطح پر یکجہتی کی سرگرمیوں اور خود قابض حکومت کے نہتے عوام کے خلاف جرائم کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
حالیہ تحقیق اور معتبر رائے شماری مسئلہ فلسطین اور صیہونی حکومت کے حوالے سے امریکی رائے عامہ میں نمایاں تبدیلی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ غاصب صیہونی ریاست کے حامی تجزیہ کاروں کو جس چیز کی گہری تشویش ہے وہ امریکی معاشرے میں روایتی طور پر موجود حامی پاور بیسز میں کمی کا رجحان ہے۔ مچل بارڈ جیسے صیہونی تجزیہ کاروں نے گیلپ پول کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے صیہونی حکومت کے لیے امریکی عوامی حمایت میں نمایاں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
فلسطینی عوام کے لیے ہمدردی میں اضافہ
ان جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کے لیے امریکی عوام میں ہمدردی کی سطح تاریخی طور پر اوسط 49% سے 46% تک گر گئی ہے، جو 2001 کے بعد کی سب سے کم سطح ہے۔ یہ کمی 2010-2010 میں صیہونی حکومت کے لیے 62% ہمدردی کی سطح کے مقابلے میں نمایاں کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسری طرف جب صیہونی حکومت کی حمایت میں کمی آئی ہے، فلسطینیوں کے لیے امریکی ہمدردی 33 فیصد کی تاریخی بلندی پر پہنچ گئی ہے۔
صہیونی تجزیہ کار اس اضافے کو سوالات پوچھے جانے کے انداز میں تبدیلی یا غیر متعلقہ عوامل سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم، خاص طور پر غزہ کے خلاف بارہا جارحیت اور محاصرے اور قبضے کے نتیجے میں تباہ کن انسانی صورت حال کے دوران، امریکی رائے عامہ میں تبدیلی کے تناظر میں براہ راست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
امریکی سیاسی جماعتوں میں تقسیم
سب سے اہم پیش رفت امریکہ میں صیہونی حکومت کی حمایت میں دو حزبی اتفاق رائے کا خاتمہ ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف 21 فیصد ڈیموکریٹس صیہونی حکومت کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، جبکہ ان میں سے 59 فیصد فلسطینیوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ 75 فیصد ریپبلکن اب بھی صیہونی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان یہ 54% فرق امریکی معاشرے میں صیہونی حکومت کے غیر مشروط حامیوں کی نظریاتی تنہائی کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈیموکریٹس (12 فیصد) اور آزاد رائے دہندگان (30 فیصد) میں نیتن یاہو کی انتہائی کم مقبولیت بھی اس رجحان کا ثبوت ہے۔
امریکی نوجوانوں کے رویوں میں تبدیلی
صہیونی لابی کے لیے ایک اور بڑا چیلنج نوجوان امریکیوں (18 سے 34 سال کی عمر کے) کے رویوں میں ڈرامائی تبدیلی ہے۔ اس سنی گروہ کی صیہونی حکومت کے لیے حمایت 2018 میں 65 فیصد سے کم ہو کر صرف 29 فیصد رہ گئی ہے، جب کہ ان میں سے 48 فیصد فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، نئی نسل کے افراد جو سرد جنگ کی داستانوں سے کم متاثر ہیں اور انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے مسائل سے زیادہ واقف ہیں، وہ غاصب صیہونی حکومت کی نسل پرستانہ پالیسیوں اور غاصبانہ قبضے کی حقیقتوں سے زیادہ واقف ہیں۔
غیر سفیدفام، صیہونی حکومت کے چیلنجز
صیہونی تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیلی حکومت کو ہمیشہ غیر سفید فام امریکیوں کی حمایت حاصل کرنے میں چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ خاص طور پر امریکہ میں بڑی اور بڑھتی ہوئی لاطینی کمیونٹی، جسے سیاسی تجزیہ میں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان معاشروں میں نوآبادیاتی اور نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے آپس میں جڑے ہوئے مباحثے نے فلسطینی کاز کے ساتھ ان کی زیادہ یکجہتی کا باعث بنا ہے، صیہونیت کے حامی تجزیہ کاروں کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار بذات خود اس بات کا ثبوت ہیں۔
سب سے اہم یہ ہے کہ امریکہ میں حکومت کے سرکاری بیانیے کی ناکامی بھی ہے۔ ڈیموکریٹس، امریکی نوجوانوں اور غیر سفید فام کمیونٹیز کے رویوں میں تبدیلی فلسطینی کاز کے لیے ایک بنیادی اور امید افزا رجحان ہے۔ یہ تبدیلیاں فلسطینی عوام کی مزاحمت، آزاد میڈیا کے انکشافات، بین الاقوامی سطح پر یکجہتی کی سرگرمیوں اور خود قابض حکومت کے نہتے عوام کے خلاف جرائم کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ جہاں صہیونی لابی پیسے اور سیاسی دباؤ کے ذریعے اس رجحان کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہیں عالمی رائے عامہ کی عدالت بتدریج فلسطینیوں کے حامی کیمپ میں شامل ہو رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی حکومت کی کے رویوں میں میں تبدیلی امریکہ میں کی حمایت کرتے ہیں کے خلاف گئی ہے
پڑھیں:
امریکہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، محمد اورنگزیب
بلوم برگ کو انٹرویو میں وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ سے مزید کپاس اور سویا بین خریدنے کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے پر بھی بات چیت جاری ہے تاکہ امریکی مصنوعات کے لیے پاکستانی منڈیوں کے دروازے کھل سکیں۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، ہم تعمیری انداز میں آگے بڑھیں گے، جلد ہی ایک سرکاری وفد امریکہ جائے گا۔ عالمی جریدے بلوم برگ کو انٹرویو میں وزیرِ خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ سے مزید کپاس اور سویا بین خریدنے کا خواہش مند ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے پر بھی بات چیت جاری ہے تاکہ امریکی مصنوعات کے لیے پاکستانی منڈیوں کے دروازے کھل سکیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ امریکی مصنوعات پر پاکستان میں کوئی غیر ضروری جانچ پڑتال یا رکاوٹیں ہیں تو اس کا جائزہ لینے کو تیار ہیں، پاکستان میں امریکی فرموں کی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہیں گے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ خصوصی طور پر کان کنی اور معدنیات کے نئے شعبوں میں امریکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں گے، پاکستان معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے کا خواہشمند ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کے سفر میں سرمائے کے حصول کے لیے عالمی مالیاتی منڈیوں سے رجوع کریں گے، پاکستان کو معاشی اتار چڑھاؤ کے چکر سے نکالنا ہمارا نصب العین ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان کو مستحکم ترقی کے سفر پر گامزن کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔