کچھ باتیں کتاب "معنوی آزادی" کے بارے میں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: انکی کتاب میں قرآن و حدیث کے اقتباسات کے علاوہ داستان، شعر، مشرق و مغرب کے دانشمندوں کے نظریات اور ان پر تنقیدی جائزہ سب کچھ ملتا ہے، جو ملالت کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ انکی کتابیں محض علمی گھتیاں سلجھانے کیلئے نہیں ہوتیں، بلکہ انکی کوشش ہوتی ہے کہ سماجی مسائل و مشکلات کو علمی انداز سے حل کیا جائے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی انکی کتاب "معنوی آزادی" ہے۔ دراصل یہ انکی تقاریر کا مجموعہ ہے، جسکو بعد میں کتابی شکل دی گئی ہے۔ جناب سجاد حسین مہدوی اور سید سعید حیدر زیدی صاحب نے اسکا اردو ترجمہ کرنے کی کاوش انجام دی ہے اور دارالثقلین نامی ادارے نے اس کو زیور طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ اس کتاب میں انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کی ایک اہم مشکل کو موضوع سخن قرار دیا گیا ہے۔ تالیف: شہید آیت اللہ مرتضیٰ مطہری
خلاصہ: کاشف رضا
شہید آیت اللہ مرتضیٰ مطہری مذہبی اور انسانی علوم کے اندر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ قدیم و جدید علوم کے اندر خاص تبحر رکھتے تھے، جن کا اعتراف مشرق و مغرب کے دانشمند کرتے ہیں۔ علم کلام ہو، منطق و فلسفہ ہو، عرفان و معنویت کی ابحاث ہوں یا فقہ و معارف کی گھتیاں، ہر میدان میں وہ مرد قلندر ثابت ہوئے ہیں، جس کی گواہی ان کی کتابیں دیتی ہیں۔ ان کی تقریر ہو یا تصنیف، ہر دو صورت میں ان کا مخاطب کبھی احساس خستگی کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ خشک سے خشک تر موضوع کو بھی اس انداز و پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ ہر سن و سال کا شخص بغیر کسی تفریق مذہب و قوم ان کے بیان کردہ معارف سے مستفید ہوتا ہے۔ ان کی کتابوں میں علمی ابحاث خشک رسوماتی انداز میں بیان نہیں ہوتیں، وہ اپنی ابحاث کو فکری سوال میں بدل دینے کے ماہر ہیں اور جواب میں ایک ہی موضوع کی کئی مختلف زاویوں سے جراحی کر دیتے ہیں۔
ان کی کتاب میں قرآن و حدیث کے اقتباسات کے علاوہ داستان، شعر، مشرق و مغرب کے دانشمندوں کے نظریات اور ان پر تنقیدی جائزہ سب کچھ ملتا ہے، جو ملالت کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ ان کی کتابیں محض علمی گھتیاں سلجھانے کے لئے نہیں ہوتیں، بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سماجی مسائل و مشکلات کو علمی انداز سے حل کیا جائے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ان کی کتاب "معنوی آزادی" ہے۔ دراصل یہ ان کی تقاریر کا مجموعہ ہے، جس کو بعد میں کتابی شکل دی گئی ہے۔ جناب سجاد حسین مہدوی اور سید سعید حیدر زیدی صاحب نے اس کا اردو ترجمہ کرنے کی کاوش انجام دی ہے اور دارالثقلین نامی ادارے نے اس کو زیور طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ اس کتاب میں انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کی ایک اہم مشکل کو موضوع سخن قرار دیا گیا ہے۔ آج کی دنیا جہاں مادیت اپنے عروج کو چھو رہی ہے، ہر انسان زیادہ سے زیادہ مادیت جمع کرنے میں لگا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود اپنے اندر ایک کھوکھلا پن محسوس کرتا ہے۔
وہ اس وجہ سے ہے کہ انسان نے مادی اور ظاہری آزادی کے لئے تو جنگیں لڑی ہیں، قتل و کشتار کا بازار گرم کیا ہے، لیکن معنوی اور روحانی آزادی کو سرے سے ہی فراموش کر دیا ہے۔ اس کتاب میں شہید مطہری نے آزادی کی اقسام بیان کرتے ہوئے سماجی و معنوی آزادی پر روشنی ڈالی ہے اور قرآن میں ان کے آپسی تعلق کو خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے انسانی ضمیر کے کردار کو بھی اجاگر کیا ہے۔ انسانی اور حیوانی انانیت کے فرق کو واضح کیا ہے۔ بزرگ روحوں اور بزرگوار روحوں کا تقابل کرنے کے لئے نہج البلاغہ اور حضرت امام حسین کے کلام سے اقتباس کیا ہے۔ بحث کے تسلسل میں قرآنی عقیدے "غیب پر ایمان" کی وضاحت کی ہے۔ غیبی امداد کے قاعدے کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں ایک اہم بحث "معیار انسانیت" کی ہے، جس کے ذیل میں انسان کامل و انسان ناقص کو بیان کیا گیا ہے۔ معیار انسانیت کے بارے میں پائے جانے والے مختلف نظریات، جیسے کہ "علم، اخلاق و عادات، انسان دوستی، ارادہ، آزادی، فریضہ کی ادائیگی اور زیبائی" پر نقد و تنقید کی گئی ہے۔
کتاب کے آخری حصے میں "مکتب انسانیت" کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، جس کے اندر انسان و حیوان کے درمیان بنیادی فرق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ انسان کی اصالت پر مبنی مکاتب کے اندر موجود تضاد کو واضح کرتے ہوئے آگوست کانٹ کے "دین انسانیت" کا علمی بنیادوں پر تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ جس میں شہید نے انسانی زوال کی صدیوں پر محیط تاریخ کو مختصر مگر مفید انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان جس نے خود کو اس کائنات میں عظیم اور بلند مقام پر فرض کیا ہوا تھا، وہ خود کو اور زمین کو کائنات کا مرکز و محور گردانتا تھا، وہ تقریباً نیم خدائی کی منزل پر فائز تھا، لیکن پچھلی دو تین صدیوں میں شکوک و شبہات نے پے در پے اس خیال پر کاری ضربیں لگانا شروع کردیں۔
پہلی ضرب یہ تھی کہ زمین نظام شمسی اور کائنات کا مرکز و محور نہیں ہے، لہذا انسان بھی مقصد تخلیق کائنات نہیں۔ دوسری ضرب یہ تھی کہ جو انسان خود کو آسمانی مخلوق سمجھتا تھا، خلیفۃ اللہ اور نفخہ الاہی کا گمان کرتا تھا، نظریہ انواع و ارتقاء کے حیاتیاتی پہلو نے اس کی عمارت کو بھی خدشہ دار کر دیا۔ آخری ضرب یہ لگائی گئی کہ انسانی اقدار، عشق و عقلانیت ان سب کا منشا انسان کے اندر کوئی خدائی یا آسمانی پہلو نہیں بلکہ انسان کا شکم ہے۔ انسان اور باقی حیوانات حتیٰ نباتات میں سوائے ظاہری امتیازات کے کوئی فرق نہیں، انسان بھی ایک مشین مانند چیز ہے، البتہ اس کی پیچیدگیاں باقی مشینوں سے زیادہ ہیں۔ ان سب شبہات کے جواب میں شہید اسلام و قرآن کے اصالت انسانیت و اقدار اور ان کے معیار کو بیان کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: معنوی آزادی اس کتاب میں ان کی کتاب کرتے ہوئے کہ انسان کے اندر گئی ہے کی ایک کیا ہے اور ان گیا ہے
پڑھیں:
واٹس ایپ کی ڈیلیٹڈ اکاؤنٹس بارے پالیسی اور حمیرا اصغر کے اکاؤنٹ پر مبینہ سرگرمیاں
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے 8 جولائی کو کئی ماہ پرانی لاش برآمد ہونے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ وہ لاش معروف اداکارہ حمیرا اصغر کی تھی۔ معاملے میں نیا موڑ اس وقت آیا جب ان کے واٹس ایپ اکاؤنٹ پر مبینہ سرگرمیوں نے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔
اداکارہ کی گمشدگی کا دعویٰ کرنے والے اسٹائلسٹ دانش مقصود نے بتایا کہ حمیرا کے فون پر آخری سرگرمی 5 فروری کو دیکھنے میں آئی۔ ان کے مطابق اس دن نہ صرف اداکارہ کے واٹس ایپ کی پروفائل تصویر ہٹا دی گئی بلکہ ان کا لاسٹ سین بھی غائب کر دیا گیا۔ یہ سب اس وقت ہوا جب اداکارہ کی لاش کئی ماہ سے بے یارو مددگار پڑی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: حمیرا اصغر کے خلاف کرایہ داری کیس کی تفصیلات سامنے آگئیں
دانش کا کہنا ہے کہ ان کی حمیرا سے آخری بات چیت 2 اکتوبر کو ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن پیغامات کبھی پڑھے نہیں گئے۔ دانش کے بقول جب مسلسل خاموشی رہی تو انہوں نے 5 فروری کو سوشل میڈیا پر اداکارہ کی گمشدگی کی پوسٹ لگانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم پوسٹ لگانے کے اگلے ہی دن جب انہوں نے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں واٹس ایپ اکاؤنٹ پر واضح تبدیلیاں محسوس ہوئیں۔ پروفائل تصویر غائب تھی اور لاسٹ سین بھی بند ہو چکا تھا۔
ادھر تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ اداکارہ کی موت 7 اکتوبر 2024 کو ہوئی تھی اور اسی روز شام 5 بجے تک ان کا فون استعمال ہوا۔ اس تناظر میں اگر واٹس ایپ کی پالیسی کو مدنظر رکھا جائے تو کوئی بھی اکاؤنٹ اگر مسلسل 120 دن غیر فعال رہے تو کمپنی کی جانب سے اسے خودکار طور پر ڈیلیٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں صارف کی پروفائل تصویر بھی ہٹ جاتی ہے اور لاسٹ سین بھی غائب ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حمیرا اصغر نے واٹس ایپ ہیک ہونے کی شکایت درج کرائی، ڈی آئی جی ساؤتھ کا انکشاف
7 اکتوبر کے بعد 120 دن 4 فروری 2025 کو مکمل ہوتے ہیں، یعنی یہ ممکن ہے کہ حمیرا کا واٹس ایپ اکاؤنٹ کمپنی کی پالیسی کے تحت خودکار طریقے سے غیر فعال ہوا ہو۔ تاہم یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ ان کا موبائل فون کب تک انٹرنیٹ سے منسلک رہا یا اس دوران کسی تیسرے فرد نے ان کے فون یا واٹس ایپ اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کی۔
اداکارہ کی موت اور ان کے واٹس ایپ پر دیکھی گئی سرگرمیوں کے درمیان وقت کا فاصلہ اور انکشافات اب تفتیشی اداروں کے لیے ایک نیا سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ اس معاملے میں تفتیش جاری ہے اور جلد مزید تفصیلات سامنے آنے کی توقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news حمیرا اصغر موبائل فون واٹس ایپ