اسپتالوں اور لیبارٹریز کی فیس متعین کرنیکا کیس، کے پی حکومت کو ایکٹ میں ترمیم کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
عدالتی حکم نامے کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے 2019 میں فیس متعین کرنے سے متعلق فیصلہ دیا تھا، صوبائی حکومت اور دیگر فریقین ایکٹ میں ترمیم کے عمل کو تیز کریں جبکہ فریقین ایک ماہ میں ترمیم کریں اور رپورٹ پیش کریں۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا میں پرائیوٹ لیبارٹریز، کلینکس اور اسپتالوں کی فیس متعین کرنے سے متعلق کیس میں پشاور ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت کو ایک مہینے میں ایکٹ میں ترمیم کا حکم دے دیا۔ پشاور ہائیکورٹ نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ عدالتی حکم نامے کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے 2019 میں فیس متعین کرنے سے متعلق فیصلہ دیا تھا، صوبائی حکومت اور دیگر فریقین ایکٹ میں ترمیم کے عمل کو تیز کریں جبکہ فریقین ایک ماہ میں ترمیم کریں اور رپورٹ پیش کریں۔ درخواست گزارہ مہوش محب کاکا خیل ایڈووکیٹ کا موقف تھا کہ صوبے میں نجی اسپتالوں، کلینکس اور لیبارٹریز کے فیس ایک نہیں ہے، صوبے میں تمام نجی اسپتال، کلینکس اور لیبارٹریز خودساختہ فیس لے رہے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ نے 2019 اور 2023 میں فریقین کو فیسوں سے متعلق احکامات جاری کیے تھے لیکن صوبائی حکومت اور ہیلتھ کیئر کمیشن نے عدالتی فیصلہ پر ابھی تک عمل نہیں کیا۔ مہوش محب کاکاخیل ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت نے صوبائی حکومت اور ہیلتھ کیئر کمیشن کو ایک ماہ میں فیسوں سے متعلق ترمیم کا حکم دیا ہے، ہیلتھ کیئر کمیشن کی ترمیم کا مسودہ 2022 سے زیر التواء ہے، ہیلتھ کیئر کمیشن صوبے میں فیسوں کو ریگولرائز کرنے کا پابند ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پشاور ہائیکورٹ نے ہیلتھ کیئر کمیشن صوبائی حکومت اور ایکٹ میں ترمیم فریقین ایک فیس متعین ترمیم کا میں فیس کا حکم
پڑھیں:
انسداد دہشتگردی ایکٹ کے مجرموں کو معافی غیر آئینی قرار، عدالت عالیہ کا فیصلہ
عدالت نے محکمہ داخلہ اور آئی جی جیل خانہ جات کو ہدایت دی کہ قانون کے منافی تمام معافیاں واپس لی جائیں اور آئندہ کسی بھی رعایت کے اجرا میں قانونی تقاضوں کی مکمل پاسداری کی جائے۔ اسلام ٹائمز۔ عدالت عالیہ بلوچستان انسداد دہشتگردی ایکٹ میں سزا یافتہ مجرموں کی سزائیں معاف کرنے کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے آئی جی جیل جات اور محکمہ داخلہ کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ ان قیدیوں کو دی گئی معافیاں واپس لی جائیں۔ ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 (ATA) کے تحت سزا یافتہ مجرم کسی بھی قسم کی عام یا خصوصی معافی کے حق دار نہیں ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ دفعہ 21-ایف کے مطابق دہشت گردی کے مجرموں کی سزائیں کم نہیں کی جا سکتیں، اور یہ شق کسی تشریح یا نرمی کی متحمل نہیں ہے۔ جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس نجم الدین مینگل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے تمام آئینی درخواستیں خارج کر دیں۔ عدالت نے کہا کہ اس قانون کا مقصد عوامی تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف سختی کو یقینی بنانا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے جو عام قوانین پر فوقیت رکھتا ہے۔ دہشت گردی کے مجرم ایک علیحدہ قانونی طبقہ ہیں، اس لیے انہیں معافی سے محروم رکھنا آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ عدالت نے محکمہ داخلہ اور آئی جی جیل خانہ جات کو ہدایت دی کہ قانون کے منافی تمام معافیاں واپس لی جائیں اور آئندہ کسی بھی رعایت کے اجرا میں قانونی تقاضوں کی مکمل پاسداری کی جائے۔ فیصلے کے مطابق تمام سزا یافتہ قیدی اپنی سزا کا کم از کم دو تہائی حصہ لازمی کاٹیں، جبکہ عدالت نے بی کلاس سہولتوں اور غیر قانونی رعایتوں کا بھی نوٹس لیا۔