اسلام ٹائمز: ایران ایک ایسا ملک ہے، جو نہ صرف قدرتی تنوع رکھتا ہے بلکہ ایک ایسا معاشرہ بھی تشکیل دیتا ہے، جو تعلیم، تہذیب اور اجتماعی ذمہ داری سے مزین ہے۔ پانی کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے، مگر اس کی نوعیت وہ نہیں، جو سیاسی بیانیوں میں دکھائی جاتی ہے۔ یہ ایک قابلِ انتظام صورتحال ہے اور ایران مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے سنجیدگی سے حل کرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ ایران کی کہانی بحران کی نہیں۔۔۔۔ تدبیر، توازن اور بصیرت کی کہانی ہے۔ تحریر: سید انجم رضا

ایران ہمیشہ سے ایک منفرد جغرافیائی اور تہذیبی اہمیت رکھنے والا ملک رہا ہے۔ چار موسموں کی متوازن سرزمین، زرخیز وادیاں، بلند پہاڑ، وسیع بیابان اور پانی سے بھرپور شمالی علاقے۔۔۔۔ یہ سب ایران کو خطے کی ایک مکمل جغرافیائی اکائی بنا دیتے ہیں۔ اسی متنوع طبیعت کے ساتھ ایران کی آبادی بھی مسلسل بڑھ رہی ہے اور آج اسّی ملین نفوس کا یہ ملک تیزی سے شہری طرزِ زندگی اپنا رہا ہے۔ ایران کی ایک چوتھائی آبادی تہران اور اس کے گرد آباد ہے۔ جدید سہولتیں، روزگار، تعلیم اور طبی خدمات۔۔۔۔ یہ سب عوامل لوگوں کو شہروں کی طرف کھینچتے ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے کی طرح ایران میں بھی شہری زندگی کی کشش ایک فطری امر ہے۔

لیکن اسی کے ساتھ ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے: کیا شہروں کی طرف بڑھتی یہ ہجرت مستقبل میں مسائل پیدا نہیں کرے گی۔؟ ایرانی حکومت اس سوال کا جواب پہلے ہی دے چکی ہے۔ ریاست کو ادراک ہے کہ اگر آبادی کا سیاسی و معاشی دباؤ مسلسل شہروں پر بڑھتا رہا تو بنیادی ڈھانچے پر بوجھ آئے گا۔ اسی لیے دہی علاقوں کو مضبوط بنانے اور شہری ہجرت کو متوازن رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایران کے دیہی علاقوں میں بجلی، گیس، پانی، صحت، تعلیم اور سڑکیں اس انداز میں موجود ہیں کہ شہری و دیہی فرق کم سے کم محسوس ہو۔

پانی کا مسئلہ، حقیقت کیا ہے؟
مغربی میڈیا گذشتہ کچھ برسوں سے یہ بیانیہ بنا رہا ہے کہ ایران شدید پانی کے بحران کا شکار ہے۔۔۔۔ ایک کمزور، مشکلات سے گھرا ہوا ملک۔ یہ تاثر سیاسی تناظر میں سمجھ بھی آتا ہے، لیکن حقائق کہیں زیادہ متوازن ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران میں گھریلو استعمال کے لیے پانی کی کمی نہیں۔ شہری علاقوں میں پینے اور استعمال کے پانی کی براہِ راست فراہمی موجود ہے اور گھروں میں پانی ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ شمالی ایران، مغربی سرحدیں، کردستان اور آذربائیجان کے علاقے پانی کے لحاظ سے بھرپور ہیں۔ لاکھوں زائرین اور سیاح ہر سال ایران کا رخ کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود شہری پانی کے نظام میں کوئی نمایاں دباؤ نظر نہیں آتا۔

البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ گذشتہ دس برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جس نے بعض علاقوں، بالخصوص اصفہان، شیراز، سیستان اور کرک۔۔۔۔ کو کچھ متاثر کیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف ایران کا نہیں؛ خطے کے تمام ممالک اسی عالمی تبدیلی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایران کی مستقبل بینی یہ ہے کہ وہ خلیج فارس کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ یہ منصوبہ ایران کی آنے والی نسلوں کے لیے پانی کی مکمل تحفّظ کا ضامن بن سکتا ہے۔

تعلیم یافتہ معاشرہ اور قومی شعور
ایران کا سماج خواندگی کے اعتبار سے خطے میں نمایاں ہے۔ ننانوے فیصد خواندگی اور ایک باشعور عوام۔۔۔۔ یہ وہ عوامل ہیں، جو لوگوں کو وسائل کے ذمہ دارانہ استعمال کی طرف راغب کرتے ہیں۔ پانی کے معاملے پر حکومتی اپیلیں اسی اجتماعی شعور کی بنیاد پر ایک موثر پیغام بن کر سامنے آتی ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے کا اپنے زیرِ انتظام دفاتر و اسکولز میں پانی کی کفایت شعاری کا اعلان اسی مشترکہ ذمہ داری کا ایک عملی اظہار ہے۔

ایران۔۔۔۔۔ چار موسموں کی ایک کہکشاں
ایران وہ سرزمین ہے، جہاں چاروں موسم اپنے بھرپور رنگوں کے ساتھ اترتے ہیں۔ پہاڑوں کی برف، صحراؤں کی سنہری تپش، شمال کی سبز وادیوں کی نمی اور جنوب کی گرم ہواؤں کا لمس۔۔۔۔۔ سب ایک ہی نقشے میں سانس لیتے ہیں۔ قدرت نے اپنے خزانوں میں سے بہت کچھ اس دھرتی کی جھولی میں ڈال دیا ہے؛ پانی ہو یا زرخیز مٹی، معدنیات ہوں یا موسمی تنوع۔۔۔ یہ سب ایران کی پہچان ہیں۔ ایران ایک ایسا ملک ہے، جو نہ صرف قدرتی تنوع رکھتا ہے بلکہ ایک ایسا معاشرہ بھی تشکیل دیتا ہے، جو تعلیم، تہذیب اور اجتماعی ذمہ داری سے مزین ہے۔ پانی کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے، مگر اس کی نوعیت وہ نہیں، جو سیاسی بیانیوں میں دکھائی جاتی ہے۔ یہ ایک قابلِ انتظام صورتحال ہے اور ایران مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے سنجیدگی سے حل کرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ ایران کی کہانی بحران کی نہیں۔۔۔۔ تدبیر، توازن اور بصیرت کی کہانی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پانی کا مسئلہ ایک ایسا ایران کی کی کہانی پانی کے پانی کی ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

ایف-35 کی سعودی عرب کو فروخت، خواب حقیقت میں بدلنے والے نہیں

اسلام ٹائمز: ایف-35 کی سعودی عرب کو فروخت، باوجود اس کے کہ اسے ’’بڑی ڈیل‘‘ کہا جا رہا ہے، تین بنیادی عوامل کے باعث خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل نہیں کر سکتی، نمبر ایک اسرائیل کی فوجی برتری برقرار رکھنے کا امریکی قانونی اور عملی عزم دوسرا عرب ریاستوں کو ماضی میں ایف-35 جیسے سودوں کا معطل یا محدود کیا جانا اور تیسرا یہ کہ امریکی اسلحہ پالیسی کا یک‌ طرفہ اور کنٹرول مرکوز ڈھانچہ۔ اس کے علاہ امارات کا تجربہ، امریکی و اسرائیلی حکام کے واضح بیانات، اور معتبر تھنک ٹینک رپورٹس ثابت کرتی ہیں کہ اگر یہ جنگنده سعودی عرب کو مل بھی جائیں تو یہ محدود اور قابو میں رکھی گئی صلاحیتوں کے ساتھ ہوں گے اور خطے کے فوجی توازن میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں لائیں گے۔ خصوصی رپورٹ:

سعودی عرب کو ایف-35 جنگی طیاروں کی فروخت، اگرچہ بظاہر ایک بڑی اور تاریخی ڈیل دکھائی دیتی ہے، لیکن عملی طور پر تین بنیادی محدودیتوں کے باعث اس کا علاقائی طور پر طاقت کے توازن پر اثر خاصا کم محسوس ہوتا ہے۔ محمد بن سلمان کے دورۂ امریکہ کے دوران وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ سعودی عرب کو جدید ایف-35 لائٹننگ-2 جنگی طیارے فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ خبر فوری طور پر علاقائی و بین الاقوامی میڈیا میں بڑا موڑ اور طاقت کے توازن کو بدلنے والا اقدام قرار دی گئی۔ امریکی خارجہ پالیسی کی تاریخ، واشنگٹن اور تل ابیب کے حالیہ سرکاری بیانات، معتبر تھنک ٹینک رپورٹس اور ماضی کے تجربات کا سرسری جائزہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ ابتدائی شور و غوغا کے باوجود یہ سودا مغربی ایشیا کے فوجی توازن میں کوئی فیصلہ کن تبدیلی لانے کا امکان نہیں رکھتا۔

امریکی پالیسی کا ایک ناقابلِ تبدیل اصول:
امریکہ 1968 سے اور بالخصوص 2008 میں کانگریس کے قانون کی منظوری کے بعد، اس بات کا پابند ہے کہ عرب ممالک کو فروخت ہونے والا کوئی بھی ہتھیار اسرائیل کی فوجی برتری (Qualitative Military Edge) کو نقصان نہ پہنچائے۔ یہ ایک قانونی تقاضا ہے، صرف سفارتی بیان نہیں بلکہ ہر اسلحہ پیکج کی منظوری سے پہلے پینٹاگون اور محکمۂ خارجہ کی سخت جانچ سے مشروط ہوتا ہے۔ 20 نومبر 2025 کو بنیامین نتن یاہو نے نئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کے بعد کہا کہ امریکہ نے ایک بار پھر اسرائیل کی معیاری فوجی برتری کے تحفظ کے اپنے واضح عزم کی توثیق کی ہے، یہ عزم کل بھی تھا، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے بھی تصدیق کی کہ واشنگٹن نے اس حوالے سے مکمل ضمانتیں فراہم کی ہیں۔ نتن یاہو نے مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا کہ یہ عزم عملی طور پر کس طرح نافذ کیا جائے گا۔

یہ ضمانتیں کیسے لاگو کی جاتی ہیں: 
عرب خریداروں کو محدود اور کم صلاحیت والے ورژنز کی فراہمی، جن میں اہم الیکٹرانک وارفیئر اور کمیونی کیشن سسٹمز نہیں ہوتے۔ اہم طویل‌ بردار ہوا سے ہوا میں مار کرنیوالے میزائلوں تک رسائی نہ دینا مثلاً AIM-260 جو صرف اسرائیل اور چند قریبی اتحادیوں کے پاس ہے۔ اسی طرح سافٹ ویئر کنٹرول اور ریموٹ ڈی ایکٹیویشن کی امریکی صلاحیت برقرار رکھنا تاکہ ہنگامی حالات میں طیارے کو غیر فعال کیا جا سکے۔ فی الحال اسرائیل کے پاس 45 سے زائد F-35I (اسرائیلی مخصوص ورژن جس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں شامل ہیں) موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر سعودی عرب 48 طیارے بھی حاصل کر لے تو بھی یہ اسرائیلی ورژن جیسے نہیں ہوں گے، اور ان کی فراہمی کم از کم اس دہائی کے آخر تک ممکن نہیں۔

F-35 اور عرب امارات:
اکتوبر 2020 میں ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ وہ امارات کو 50 ایف-35 فروخت کرے گی۔ اسے بھی ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا گیا، لیکن صرف ایک سال بعد بائیڈن حکومت نے اسے معطل کیا اور ڈی فیکٹو طور پر روک دیا۔ اس کی وجوہات میں چین کے ساتھ اماراتی عسکری تعلقات پر امریکی تشویش، امریکی سیکیورٹی شرائط اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر سے انکار اور اسرائیل کی فوجی برتری برقرار رکھنے کی ضرورت کو مدنظر رکھنا شامل تھا۔ دسمبر 2021 میں امارات نے اعلان کیا کہ وہ امریکی تکنیکی و عملیاتی شرائط کی وجہ سے اس سودے سے دستبردار ہو رہا ہے۔ یہ مثال بتاتی ہے کہ ایف-35 کی فروخت کا اعلان اس کی حقیقی اور مکمل ترسیل کی ضمانت نہیں ہوتا بالخصوص اس وقت جب خریدار کے چین یا روس کے ساتھ گہرے تعلقات ہوں، جیسا کہ سعودی عرب کے معاملے میں بھی موجود ہے۔

عرب خریداروں کے بارے میں امریکی یک‌ طرفہ اپروچ:
خلیجی ممالک کے لیے امریکہ کی اسلحہ پالیسی دو بنیادوں پر قائم رہی ہے، نمبر ایک امریکی دفاعی صنعت کے لیے اربوں ڈالر آمدنی کی فراہمی اور دوسرے خریدار ملک پر اسٹریٹجک کنٹرول برقرار رکھنا۔ سعودی عرب 2010 سے اب تک 130 ارب ڈالر سے زائد امریکی اسلحہ خرید چکا ہے، لیکن ان میں سے بڑی تعداد یا تو کبھی مکمل ترسیل نہیں ہوئی یا شدید عملیاتی پابندیوں کے ساتھ ہے۔ ایف-35 کی فروخت بھی یہی نمونہ دہراتی ہے۔ یہ سودا نہ صرف لاک ہیڈ مارٹن کے لیے 142 ارب ڈالر کی آمدنی کا ذریعہ ہے، بلکہ اس کے پرزوں، اپ گریڈز اور گولہ بارود کے ذریعے سعودی عرب کی طویل المدت انحصاریت بھی یقینی بناتا ہے۔ بنیادی ٹیکنالوجی ہمیشہ امریکہ کے پاس رہتی ہے اور حساس سیاسی حالات میں سپورٹ روکنے کی صلاحیت بھی واشنگٹن کے ہاتھ میں ہے۔ اٹلانٹک کونسل نے نومبر 2025 کی رپورٹ میں لکھا کہ ایف-35 کی فروخت سعودی فضائی قوت سے زیادہ امریکی دفاعی صنعت کو طاقتور بناتی ہے اور ریاض کو اسٹریٹجک انحصار کی حالت میں رکھتی ہے۔

موجودہ صورتحال اور آپریشنل رکاوٹیں:
سب سے خوش بین اندازے کے مطابق بھی سعودی عرب 2030 سے پہلے کوئی عملیاتی ایف-35 حاصل نہیں کرے گا، کیونکہ لاک ہیڈ مارتھن کی پیداواری لائن پہلے سے بھری ہوئی ہے، سعودی پائلٹوں کی تربیت کئی سال لے گی اور امریکی کانگریس میں کسی بھی سیاسی تبدیلی سے سودے کا رک جانا ممکن ہے۔ چین کے ساتھ سعودی عسکری تعاون امریکی انٹیلیجنس کی نظر میں بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ پینٹاگون کی دفاعی انٹیلیجنس ایجنسی نے نومبر 2025 کی رپورٹ میں خبردار کیا کہ چین کے ساتھ سعودی میزائل پروگرام ایف-35 ٹیکنالوجی کے افشا ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے، یہی وجہ امارات کے کیس میں بھی امریکی انکار کا سبب بنی۔

ایف-35 کی سعودی عرب کو فروخت، باوجود اس کے کہ اسے ’’بڑی ڈیل‘‘ کہا جا رہا ہے، تین بنیادی عوامل کے باعث خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل نہیں کر سکتی، نمبر ایک اسرائیل کی فوجی برتری برقرار رکھنے کا امریکی قانونی اور عملی عزم دوسرا عرب ریاستوں کو ماضی میں ایف-35 جیسے سودوں کا معطل یا محدود کیا جانا اور تیسرا یہ کہ امریکی اسلحہ پالیسی کا یک‌ طرفہ اور کنٹرول مرکوز ڈھانچہ۔ اس کے علاہ امارات کا تجربہ، امریکی و اسرائیلی حکام کے واضح بیانات، اور معتبر تھنک ٹینک رپورٹس ثابت کرتی ہیں کہ اگر یہ جنگنده سعودی عرب کو مل بھی جائیں تو یہ محدود اور قابو میں رکھی گئی صلاحیتوں کے ساتھ ہوں گے اور خطے کے فوجی توازن میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں لائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ’فنڈز کا مسئلہ نہیں،‘ وزیرِاعلیٰ سندھ کی شہریوں کیلئے فوری اور معیاری کام کی ہدایت
  • خود کو آگ لگانے کا خواب دیکھ کر شہری نے حقیقت میں خودسوزی کرلی
  • کراچی: خود کو آگ لگانے کا خواب دیکھ کر شہری نے حقیقت میں خودکشی کرلی
  • کراچی میں شہری نے خودسوزی کا خواب حقیقت بنا کر جان دے دی
  • خواب میں خود کو آگ لگانے کا منظر دیکھ کر شہری نے حقیقت میں خودکشی کرلی
  • ایران میں خشک سالی
  • موضوع: ایران میں پانی کا بحران۔۔۔۔ حقیقی صورت حال کیا ہے؟
  • غزہ کا مسئلہ کیا ہوا؟
  • ایف-35 کی سعودی عرب کو فروخت، خواب حقیقت میں بدلنے والے نہیں