کوئٹہ میں کانگو وائرس سے رواں سال کی پہلی ہلاکت رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
کوئٹہ میں رواں سال کانگو وائرس سے ایک شخص ہلاک ہوگیا ہے جو کہ کانگو وائرس سے رواں سال کی پہلی ہلاکت ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایک 18 سالہ مریض کانگو وائرس کا شکار تھا جس نے کچھ عرصہ اسپتال میں سخت تکلیف میں رہنے کے بعد دم توڑ دیا۔
پشین کا رہائشی نوجوان کوئٹہ کے فاطمہ جناح جنرل اینڈ چیسٹ اسپتال میں داخل تھا جہاں اس کا انتقال ہوا۔
مریض کو 29 مارچ کو تشویشناک حالت میں اسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور ٹیسٹ میں کانگو وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد شہری کو آئسولیشن وارڈ میں رکھا گیا تھا۔
یہ 2025 میں کوئٹہ میں کانگو وائرس سے متعلق پہلی موت ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے کریمین کانگو ہیمرج فیور (سی سی ایچ ایف) کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے ایڈوائزری جاری کیں ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ بیماری کی زیادہ منتقلی کے تناظر میں صورتحال کے بارے میں چوکنا رہنا اور کانگو وائرس کی منتقلی کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
ایڈوائزری میں مزید کہا گیا کہ یہ بیماری نیرو وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مویشی، بکرے، بھیڑ اور خرگوش جیسے جانور اس وائرس کے بردار ہوتے ہیں جو ایک کیڑے کے کاٹنے سے یا ذبح کے دوران اور اس کے فوراً بعد متاثرہ خون یا ٹشوز سے رابطے کے ذریعے لوگوں میں منتقل ہوتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کانگو وائرس سے
پڑھیں:
کراچی میں ڈاکٹر کی ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج، معاملہ کیا ہے؟
کراچی کے تھانہ صدر میں ڈاکٹر امتیاز احمد کی جانب سے ڈاکٹر عمر سلطان، ڈاکٹر شاہد علی اعوان اور ڈاکٹر وقار عمرانی امیت 30 سے 35 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طلبا کے لیے ڈریس کوڈ کا اعلان کیوں کیا؟ جامعہ کراچی نے وضاحت کردی
درج ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ 24 اپریل کو وہ جناح اسپتال کے او پی ڈی کمپلیکس میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے کہ اس دوران مذکورہ ڈاکٹروں سمیت 30 سے 35 افراد او پی ڈی میں داخل ہوئے اور او پی ڈی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ڈاکٹر امتیاز احمد نے بتایا کہ ہم نے جواب دیا کہ ہم او پی ڈی بند نہیں کریں گے جس کے بعد یہ افراد مشتعل ہوئے اور ہم پر تشدد کیا جبکہ او پی ڈی میں توڑ پھوڑ بھی کی۔
درج مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ ساری کارروائی ڈاکٹر یاسین عمرانی کے کہنے پر ہوئی ہے لہٰذا ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔
جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر کی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان ڈاکٹر محمد علی کے مطابق مریضوں کو دیکھنے والے ینگ ڈاکٹرز پر ہونے والا تشدد قابل مذمت ہے۔
ترجمان ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق یہ حملہ ایک انتظامی پوسٹ کے لیے کرایا گیا ہے جس میں باہر کے لوگوں کا تعاون حاصل کیا گیا۔
مزید پڑھیے: چھوٹی سی عمر میں جج، ڈاکٹر اور انجینیئر بننے والی 3 لڑکیوں کی کہانی
ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق جناح اسپتال کے سیکیوریٹی انچارج ڈپٹی ڈائریکٹر یاسین عمرانی کو نااہلی کی بنیاد پر ٹرانسفر کیا گیا جس کے بعد ان کی انتظامی پوسٹ کو بچانے کے لیے مریضوں کو علاج سے محروم کرنے کے لیے ایک ناکام کوشش کی گئی۔
ترجمان نے بتایا کہ اس وقت سندھ کے کسی بھی اسپتال میں سروس بند نہیں ہے اور تمام اسپتالوں میں مریضوں کا علاج جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اوپی ڈی کمپلکس جناح اسپتال ڈاکٹر بمقابلہ ڈاکٹر