سسٹم میں پانی نہیں تو یہ کینالز کیسے بنارہے ہیں؟ وزیر آب پاشی سندھ کا سوال
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
وزیر آب پاشی سندھ جام خان شورو نے استفسار کیا ہے کہ جب سسٹم میں پانی ہی نہیں تو یہ کینالز کیسے بنارہے ہیں؟
کراچی سے جاری بیان میں وزیر آب پاشی سندھ نے کہا کہ پورے سندھ کو پانی کی فراہمی صوبائی حکومت کےلیے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور سندھ کے عوام کینالز کے مخالف ہیں، پارٹی نے وفاق کو باور کروادیا ہے کہ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے۔
جام خان شورو نے مزید کہا کہ کینالز سندھ کےلیے بڑے نقصان دہ ہیں، اس معاملے پر پی پی اور سندھ حکومت خاموش نہیں بیٹھے گی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
ایف بی آر اور ڈیجیٹل ایکو سسٹم
وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے اعلان کرتے ہوئے ایف بی آر میں جدید اور عالمی معیار کے ڈیجیٹل ایکو سسٹم کی تشکیل کی منظوری دی ہے یہ فیصلہ اُن کی زیرِ صدارت ایف بی آر کی جاری اصلاحات پر ہونے والے جائزہ اجلاس میں کیا گیا۔
وزیراعظم نے واضح ہدایت دی کہ صرف ’ڈیجیٹائزیشن‘ کافی نہیں، بلکہ ایک مکمل مربوط اور طاقتور ڈیجیٹل ایکو سسٹم قائم کیا جائے، مزید برآں وزیر اعظم نے عالمی شہرت یافتہ ماہرین کی خدمات لینے کا بھی عندیہ دیا تاکہ یہ نظام عالمی معیار پر پورا اتر سکے۔
وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ خام مال کی تیاری، درآمد، مصنوعات کی مینوفیکچرنگ اور صارف کی خریداری تک کے تمام مراحل کا ڈیٹا ایک ہی مربوط نظام میں شامل کیا جائے اور یہ نیا نظام اس قدر مؤثر ہونا چاہیے کہ پوری ویلیو چین (Value Chain) کی براہ راست ڈیجیٹل نگرانی ممکن ہو سکے۔
ڈیجیٹل ایکو سسٹم کو قومی ترقی کے لیے ایک سنگِ میل کے طور پر تسلیم کیا جانا اہم پیش رفت ہے، ڈیجیٹل ایکو سسٹم چونکہ بہت سی ٹیکنالوجیز کو باہم مربوط کر کے موثر نگرانی کے ذریعے بہترین کارکردگی کا حصول ہے اور یہ تفصیلات آنا ابھی باقی ہے کہ حکومت کون کون سی ٹیکنالوجیز کو اس نظام کا حصہ بنائے گی، ڈیجیٹل ایکو سسٹم میں شامل عمومی ٹیکنالوجیز کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
ڈیجیٹل ایکو سسٹم میں مصنوعی ذہانت (AI) اور مشین لرننگ (ML) جو ڈیجیٹل نظام کو سیکھنے موازنہ کرنےاور بہتر فیصلے کرنے کے قابل بناتی ہیں، ایف بی آر جیسے اداروں کے لیے یہ ٹیکنالوجیز ٹیکس چوری کی نشان دہی، ڈیٹا کا تجزیہ اور خودکار رپورٹس کی تیاری جیسے امور میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اس نظام میں (Digital Twins) بھی اہم ہے، جو کسی بھی مشین، نظام یا عمل کی ڈیجیٹل نقل ہوتی ہے، جو کہ نگرانی کرتے ہوئے مقرر کردہ معیار کے مطابق جائزہ لیتے ہوئے مسائل کی نشان دہی اور حل پیش کرتا ہے۔
اگر اس تصور کو ایف بی آر کی ویلیو چین پر لاگو کیا جائے تو خام مال کی آمد سے لے کر مصنوعات کی فروخت تک ہر قدم پر ڈیٹا کی نگرانی اور بہتری کا عمل انجام دیا جا سکتا ہے۔
EPR (Extended Producer Responsibility)یہ نظام اداروں کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ نہ صرف مصنوعات کی فروخت بلکہ ان کی بعد از استعمال کے بھی ذمہ دار ہوں، ایف بی آر اس اصول کو بزنس ماڈلز میں ضم کر کے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ترقی میں توازن پیدا کر سکتا ہے۔
ڈیجیٹل ایکو سسٹم کی فعالیت میں RFID اور QR کوڈز جیسے ٹولز بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو اشیاء کی شناخت، ٹریکنگ اور رجسٹریشن میں فوری معلومات فراہم کرتے ہیں، ٹیکس سسٹم میں اگر درآمدی یا مقامی مصنوعات کو RFID یا QR کوڈ سے منسلک کر دیا جائے تو اس کی شناخت، نقل و حرکت اور فروخت کی مکمل نگرانی ممکن ہو سکتی ہے۔
انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) مختلف مشینوں اور سسٹمز کو انٹرنیٹ سے جوڑ کر ایک ’سمارٹ‘ نظام میں تبدیل کرتا ہے، ایف بی آر اگر اپنی تنصیبات اور سسٹمز کو IoT سے منسلک کرتا ہے تو نہ صرف روز مرہ کے امور خودکار ہوں گے بلکہ انسانی مداخلت میں بھی کمی آئے گی۔
Big Data Analyticsوسیع جمع شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کر کے درست رہنمائی فراہم کرتا ہے، ایف بی آر جیسے ادارے اس ڈیٹا کا استعمال کر کے ٹیکس پالیسیوں میں بہتری، کاروباری رجحانات کی پیش گوئی اور شفاف فیصلے کر سکتے ہیں۔
Cloud Computingڈیٹا کو انٹرنیٹ پر محفوظ، تیز اور باآسانی قابل رسائی بناتا ہے۔ Cloud-based solutions ایف بی آر کے ڈیٹا بیس کو محفوظ بنانے کا اہتمام کر سکتا ہے۔
Blockchainٹیکنالوجی اس تمام نظام کو محفوظ، شفاف اور ردوبدل سے محفوظ بنانے میں مدد دیتی ہے، اس کی مدد سے ٹیکس ریکارڈز ریفنڈز اور لین دین کو ایسے بلاکس میں محفوظ کیا جا سکتا ہے، جنہیں کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا، اور یہی شفافیت اور اعتماد کی بنیاد ہے۔
یہ تمام ٹیکنالوجیز ڈیجیٹل ایکو سسٹم نظام میں باہم منسلک ہو کر کام کرتی ہیں تو ایک جدید، موثر، شفاف اور تیز رفتار نظام وجود میں آتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کی ترقی اور جدت میں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے یقیناً بہتر کردار ادا کیا اور معیشت کے موجودہ استحکام میں بھی ان بہت اہم کردار ہے۔
لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عمومی طور پر ماضی میں کئی پالیسیوں اور اصلاحاتی دعوؤں کا اعلان تو ہوا، مگر ان پر عملدرآمد یا تو بہت محدود رہا یا مکمل طور پر غیر مؤثر ثابت ہوا، اگر وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق یہ نیا ڈیجیٹل نظام واقعی عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ پاکستان کے لئے ایک بڑی خدمت ہو گی۔
اگر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا تو یہ پاکستان کی بدقسمتی کی ایک اور کڑی کہلائے گا، جہاں وژن تو موجود ہوتا ہے مگر عمل درآمد مفقود
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں