Daily Ausaf:
2025-06-09@19:35:30 GMT

اپنے اپنے محاذ پر لڑیں تو اچھا ہو

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

خواب دکھانا ہر دور کے حکمرانوں کی عادت رہی ہے ،یہ ایک ایسی چوسنی ہے جسے ہر بار عوام بھی پذیرائی بخش دیتے ہیں ۔وہ بھول،جاتے ہیں کہ پہلے بھی کئی ایسے،خواب ان کی آنکھوں میں سجائے گئے۔ایسی دلکش اور خوش نما چوسنیاں انہیں مہیا کی گئیں جو ایسی ثابت ہوتی ہیں کہ کچھ لذت عطا کرنے کی بجائے دھیرے دھیرے ان کے وجود کیلئے جونکیں بن جاتی ہیں ۔وزیر اعظم شہباز شریف کا نیا خواب دلوں میں ایک جوت تو جگا گیا ہے بجلی سستی کررہے ہیں مگر اس خواب کی تعبیر کیا سامنے آتی ہے یہ راز جلد کھل جائے گا ۔دراصل یہ حکمرانوں کی وہ گتھیاں ہوتی ہیں جنہیں سلجھاتے، سلجھاتے ان کے دماغ کی طنابیں ٹوٹنے کے قریب ہوجاتی ہیں آخر کو یہ ہوتا ہے کہ کسی سازش یا سیاسی بے عملی کے نتیجے میں حکومت کے تاروپود بکھر جاتے ہیں۔یہ آج کی بات نہیں پون صدی کا قصہ ہے جو نہ جانے الف لیلیٰ کی داستاں کی مثل کنتی اور طوالت اختیار کرتا ہے ۔ہم تو منتظر آنکھوں سے تعبیر کی کرچیاں ہی چنتے رہتے ہیں ۔پہلے حرف و صوت کا رشتہ مضبوط ہوتا تھا تولوگ باگ خواب بانٹ لیتے تھے مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب رشتہ ناپید ہوچکا ،فگار انگلیاں نہ جانے کیا کچھ بنتی ہیں کتنے مرقعے تراشتی ہیں مگر سب بے سود یا پھر ممتاز شاعر ممتازاطہر کے بقول :
مصوروں نے ہزار رنگوں کے دشت ناپے
مگر کسی نے وہ ایک چہرہ نہیں بنایا
یا مرحوم مقبول تنویر نے کیا خوب کہا تھا کہ
کہ تری تمنا میں چلتے چلتے بسیط صحرا نے آلیا ہے
خیال کر جسم کے کنویں سے
میں سانس کیسے نکالتا ہوں
انہیں کیفیات کے سائبان تلے ہم اور ہمارے آفتادگان خاک جی رہے ہیں ۔حکمران اور سیاستدان تو ہمارے حال پر رحم کرنے والے کبھی نہیں رہے ،مقتدرہ اور اسٹیبلشمنٹ اپنے مستقبل کی خاطر کسی اور روگ کو پالنے سے سوا رہتے ہیں ۔بجلی سستی کرنے کی بات مریم بی بی کرتیں (اگر وہ وزیر اعظم ہوتیں)تو در یقین پر ہونے والی دستک کی صدا درون دل تک پہنچتی مگر یہ بات شہباز شریف محترم کی زبان سے نکلی ہے وہ مجذوب آدمی ہیں اور اس مجذوب کی بڑیں ہم نصف صدی سے سن رہے ہیں ۔یہ تو اتنے جذباتی ہیں کہ صدر آصف علی زرداری کے بارے بڑے تیز وتند ہی نہیں عبرتناک فیصلے کرنے کے دعوے داغتے رہے اور جب وقت آیا تو سب کچھ طاق نسیاں پر رکھ کر مرشد کے چرنوں میں جا بیٹھے کہ زرداری کی تو شخصیت ہی ایسی ہے کہ چاہیں تو سنگلاخ پہاڑ بھی ان کے رو برو دست بستہ آ کھڑے ہوں ۔ان کی صحت سلامت رہے کہ ابھی ایک بار پھر ان کی زبان سے ’’پاکستان کھپے‘‘ سننا باقی ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے حالات دگرگونی کی انتہا پر ہیں ۔جنرل عاصم منیر بلوچستان کے بارے سچ کہتے ہیں کہ ’’ ملک دشمنوں کے سہولت کار بھی نہیں چھوڑیں گے‘‘ ایسا ہی ہوناچاہیے مگر پہلے یہ طے کرنا،ہوگا کہ یہ سہولت کار ہیں کون ؟ جن پر اسٹیبلشمنٹ کے وہ اہلکار انگلی رکھیں گے جو حکمرانوں کی بے جاآشیر باد سے عشرت،کی زندگی بسر کرتے ہیں یا حکومت سے اختلاف رائے رکھنے والے دھڑوں کے وہ لوگ جنہیں منظر عام سے ہٹا کر مرضی کے فیصلے کرنے کی رٹ مضبوط و محفوظ کرنی ہے ،انہیں دیوار سے لگاناہے جو حکمرانوں کے لئے نوشتہ دیوار ہیں ۔اس پر ایک سے زیادہ آرا نہیں ہوسکتیں کہ چہار سو لگی دہشت گردی کی آگ بجھانا بہت ضروری ہے مگر ایک آگ کے پیچھے جو ایک اور آگ کار فرما ہے اس کی شعلگی پر بھی کنٹرول کرناہے کہ حکمران اور ان کے اندھے اور گونگے بہرے باد خواں و باد فروش اور بادسنج جسے فروتر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ چیف آف آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ’’بلوچستان میں غیر ملکی تعاون سے چلنے والی پراکسیز کامیاب نہیں ہونے دیں گے ،اصل چہرے بے نقاب کریں گے‘‘۔مطلب یہ کہ عساکر پاکستان ایسی تمام غیر ملکی حمایت یافتہ سازشوں کو ناکام بنائیں گے جو ریاستی عملداری کے راستے کی رکاوٹ ہیں اور یہی بلوچستان میں امن اور ترقی کے راستے کی دیوار ہیں تو معذرت کے ساتھ جناب چیف سے سوال ہے پھر حکومت اور وزیروں مشیروں کے بے پناہ اخراجات کیوں کر اٹھائے جارہے ہیں؟
یہ ساری ذمہ داریاں پاک فوج کے توانا کندھوں پر ڈال دی جائیں ،عساکر کو جدید ترین ہتھیاروں کی سہولیات سے مزین کیا جائے کہ حکمرانوں سے یہ بوجھ سہارا نہیں جاتا۔انہیں تو اپنے عشرت کدوں کی رونق کی فکر لاحق رہتی ہے، ملک و ملت ان مسئلہ ہوتا تو ہر جانب بے عملی دکھائی نہ دیتی ۔سندھ ہو ،خیبر پختونخواہ ہو کے بلوچستان دہکتے ہوئے الائو ہیں جن کے درو دیوار لرز رہے ہیں ایک پنجاب ہے جس کی وزیر اعلیٰ لگن سے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں ،انہوں نے پورا رمضان المبارک مہنگائی کے جن کو آہنی بوتل میں بند رکھا اور اب بھی جستجوئے پیہم میں مصروف نظر آتی ہیں ۔صحت کی فکر ،کسانوں کی پراگندہ حالی اور تعلیم ان کی ترجیحات ہیں اللہ کرے وہ استقلال کے اسی جذبے سے کام کرتی ہیں جس کا جنون ان پر سوار ہے۔عساکر کے سربراہ جن مخمصوںسے میں مبتلا ہیں ،جن واہموں سے نبرد آزما ہیں ان سے لڑنا دراصل ان کا محاذ نہیں ،وہ توجغرافیائی سرحدوں کے آمین جو کسی طور محفوظ نہیں ہیں دشمن اندر نہیں باہر بہت ہیں جنہیں ہمارا وجود کس طور برداشت نہیں، باقی اللہ مالک ہے۔ہر کوئی اپنے اپنے محاذ کی فکر کرے تو اچھا ہو۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کرنے کی رہے ہیں ہیں کہ

پڑھیں:

ڈاکٹر، مگر کونسا؟

آج عید کا دن ہے یعنی خاص دن سو صاحب آج کا کالم بھی خاص ہی ہونا چاہیے!

ہم سے بہت لوگ پوچھتے ہیں کہ کسی بھی بیماری کا علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹر کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ مشکل سوال ہے جناب اور جواب ڈھونڈنا اس سے بھی مشکل۔

پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ جس طرح ڈرائیونگ کی کتاب پڑھنے سے کوئی اچھا ڈرائیور نہیں بنتا یا فلائنگ لائسنس لینے سے اچھا پائلٹ نہیں بنتا بالکل اسی طرح ڈگریاں لینے سے کوئی بھی اچھا ڈاکٹر نہیں بنتا لیکن جس طرح جہاز اڑانے کے لیے لائسنس ہونا ضروری ہے اسی طرح مریض کا علاج کرنے کے لیے ڈگریاں اور لائسنس دونوں ضروری ہیں، سو ڈاکٹر کی قابلیت کا نمبر بعد میں آئے گا ۔

پہلے ڈگریوں کی بات کر لیں۔

ایم بی بی ایس مخفف ہے بیچلر آف سرجری / بیچلر آف میڈیسن۔ 5 برس کے اس کورس میں سرجری، میڈیسن، گائنی، ای این ٹی، آئی، سکن، میڈیکو لیگل، اناٹومی، فزیالوجی، بائیو کیمسٹری، پیتھالوجی، کمیونٹی میڈیسن، فارماکالوجی، جنیٹکس، ریسرچ  اور پیڈیٹرکس کی بنیادیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اسپتال میں ہسٹری لینا اور مریض کا معائنہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ کورس اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی طالب علم اسے مکمل طور پہ نہیں پڑھ سکتا۔ بہت اچھے طالب علم بھی 70، 75 فیصد تک محدود رہتے ہیں۔

ان 5 سالوں میں وارڈوں میں ڈیوٹی ضرور لگتی ہے لیکن معاملہ ابتدائی اصول سیکھنے تک ہی رہتا ہے۔ یاد رہے کہ ان 5 برسوں میں آزادانہ طور پہ علاج کرنا سکھایا نہیں جاتا۔ جو بھی مریض داخل ہوں ان پہ کلاسیں لی جاتی ہیں لیکن ہر مریض میں سب علامات نہیں ہوتیں اور اسی طرح 5 برس گزر جاتے ہیں مگر بہت سی بیماریوں کا تذکرہ زبانی کلامی ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مریض اس ہسپتال میں آتا ہی نہیں اور اگر کبھی آئے بھی تو جو بھی طالب علم اس دن موجود نہیں ہوں گے وہ اسے دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔

یہ اور بات ہے کہ ایک بڑی تعداد زمانہ طالب علمی میں مریضوں کے پاس ہی نہیں پھٹکتی، انہیں ہسٹری اور معائنہ انتہائی بورنگ لگتا ہے۔

ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب کرنے کی باری  آتی ہے۔ وہ لازمی ٹریننگ ہے اور اس کے بعد ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کسی بھی ڈاکٹر کو رجسٹر کرتی ہے۔

ہاؤس جاب کرنے کی مدت ایک سال ہے اور حالیہ برسوں میں اس کا طریقہ کار ہمارے زمانے سے بدل چکا ہے۔ ہمارے دور میں فریش گریجویٹ یہ فیصلہ کرتا تھاکہ اسے کسی ایک مضمون میں ایک سال یا کسی 2 مضامین میں 6، 6 مہینے عملی ٹریننگ کرنی ہے جن میں اس کی دل چسپی ہو اور وہ اس میں سپیشلائزیشن کر سکے۔

جیسے ہم نے 6 ماہ گائنی اور 6 ماہ میڈیسن میں ہاؤس جاب کیا۔ 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی ہم صرف اس قابل تھے کہ بغیر کسی پیچیدگی کے، انتہائی آسان سے مریض خود سے دیکھ سکیں۔ نہ تو آزادانہ تشخیص کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی دوائیں اعتماد سے لکھ سکتے تھے۔ یاد رہے کہ ہم ان اچھے طالب علموں میں شامل تھے جو اعزاز کے ساتھ پاس ہوئے تھے اور جنہیں سیکھنے میں بے انتہا دل چسپی تھی سو اگر ہمارا یہ حال تھا تو سوچ لیجیے کہ ایک درمیانے قسم کے طالب علم کو کیا آتا ہو گا؟

آج کل ہاؤس جاب کا طریقہ بدل چکا ہے۔ دورانیہ تو ایک برس ہی ہے لیکن اب 4 مضامین میں 3، 3 ماہ کا عملی تجربہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔

5 برس ایم بی بی ایس اور ایک سال ہاؤس جاب کے بعد پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو آر ایم پی بنا دیتی ہے جو ڈاکٹرز نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔ عوام اسے ایک اور ڈگری سمجھتی ہے جبکہ اس کا مطلب ہے کہ رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز۔

ملک عزیز میں یہ گریجویٹس، رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز شہر شہر پھیل جاتے ہیں اور اپنی دکان کھول کر پریکٹس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پریکٹس کی اجازت تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کام بھی آتا ہے؟

جس کا اگر ایمانداری سے جواب دیاجائے تو وہ ہوگا، نہیں۔

ایم بی بی ایس کاعلم اتنا ہی ہے جتنا کسی بی اے پاس کا یعنی بیچلر آف آرٹس، یا بی بی اے کا یعنی بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن یا بی کام یعنی بیچلر آف کامرس۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ بی اے، بی بی اے یا بی کام والے اگر کوئی غلطی کریں تو صبر کیا جا سکتا ہے کہ یا حساب کتاب میں غلطی ہو گی یا کسی بزنس تیکنیک میں یا آرٹس کے مضامین میں لیکن اگر ایم بی بی ایس والا غلطی کرے تو یہ غلطی انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے کہ اس سے انسانی جسم متاثر ہوتا ہے۔

اب آپ یہ اندازہ بھی لگا لیں کہ اگر ایم بی بی ایس والوں کا یہ حال ہے جو 6 برس کی محنت کے بعد میڈیکل کالج سے نکلے ہیں تو ڈسپنسرز، دائی یا ایل ایچ وی کا کیا عالم ہو گا جس میں کچھ مہینوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور ٹریننگ کے علاوہ زبانی پڑھائی جانے والے مختصر کورس کے مضامین پہ بھی دسترس نہیں ہوتی۔

اب بات کرتے ہیں اسپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹرز کی۔ چونکہ ہمارا تعلق گائنی سے ہے سو اسی کی مثال دیں گے مگر اس کلیے کا سب مضمونوں پہ اطلاق ہو گا۔

وطن عزیز میں اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد مختلف ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ پہلے ڈگریوں کا نام بتا دیتے ہیں اور پھر ان میں دی جانے والی عملی ٹریننگ کی تفصیل بتائیں گے۔

ڈی جی او – ڈپلوما ان گائنی آبس

ایم ایس گائنی – ماسٹرز آف سرجری گائنی

ایم سی پی ایس – ممبر آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز

ایف سی پی ایس – فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز

کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ڈاکٹرز کی اسپیشلائزیشن کے دورانیے اور عمل کی نگرانی کرتا ہے اور پھر ٹریننگ کی مدت کے بعد امتحان لے کر پاس یا فیل کرتا ہے۔ اس ادارے سے پاس ہونے کے بعد پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو اسپیشلسٹ یا کنسلٹنٹ کے طور پہ رجسٹر کر لیتی ہے اور ڈاکٹر کو لائنسس مل جاتا ہے کہ وہ اب اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مطابق مریض کا علاج کرے گا۔

اس سے پہلے کہ آگے چلیں، سوال پھر وہی ہے ڈگری  لینے کے بعد قابلیت کا فیصلہ کیسے کریں؟

باقی آئندہ

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ایم بی بی ایس تشخیص ڈاکٹر طب علاج میڈیسن میڈیکل

متعلقہ مضامین

  • وفاق کو قرض دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکادعویٰ
  • وفاق ہم سے امداد مانگ رہا ہے، ہم امداد دینے کے قابل بھی ہیں، وزیرعلیٰ علی امین گنڈاپور
  • شکر ہے نون لیگی یہ نہیں کہتے علامہ اقبال والا خواب بھی نواز شریف نے دیکھا تھا، پرویز الہیٰ
  • شکر ہے (ن) لیگ والوں نے یہ نہیں کہا اقبال والا خواب نوازشریف نے دیکھا تھا، پرویزالہیٰ
  • علی ظفر کی بے دردی سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
  • اسرائیل غزہ کے حقائق کو دنیا بھر سے چھپا رہا ہے، اقوام متحدہ کا اعلان
  • عید پر صحیح جانور چننا بچوں کا کھیل نہیں، جرمن سفیر ایلفرڈ گرانیس
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟
  • بار بی کیو کے لیے کون سا کوئلہ اچھا ہوتا ہے؟
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟