Daily Ausaf:
2025-11-03@18:14:18 GMT

امریکی پالیسیاں، امریکی نقاد نوم چومسکی کی نظر میں

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس وقت صدام حسین بش کا حلیف اور دوست تھا، اس لیے اسے مثبت جواب موصول ہوا۔ واشنگٹن کا کہنا تھا کہ اسے عراق کی جانب سے اپنا اسلحہ تباہ کرنے کی تجویز پسند آئی ہے، تاہم اسے مسائل یا اسلحے کے نظام کے ساتھ مشروط نہیں کرنا چاہیے۔ اسلحے کے دیگر نظاموں کا اس میں کوئی ذکر نہیں تھا اور اس کا سبب یہ ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری اسلحہ ہے (تقریبا دو سو ایٹم بم)۔ ممکن ہے اس کے پاس کیمیاوی اور بایولوجیکل اسلحہ بھی ہو، تاہم ’’اسرائیلی ایٹمی ہتھیار‘‘ ایک ایسا فقرہ ہے جو کوئی بھی امریکی اہلکار ادا نہیں کر سکتا۔ یہ فقرہ سوال اٹھائے گا کہ اسرائیل کو دی جانے والی تمام امداد غیر قانونی کیوں نہیں؟ کیونکہ ۱۹۷۷ء میں متعارف کرائے جانے والے قوانین کے تحت اس ملک کی امداد نہیں کی جا سکتی جو خفیہ طریقے سے اسلحہ تیار کر رہا ہو۔
عراق کے حملے سے قطع نظر امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں ہر اس ’’امن عمل‘‘ کو مسترد کیا ہے جس میں بحران کے حل کے لیے بین الاقوامی کانفرنس یا فلسطین کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ پچھلے بیس سال سے امریکہ اپنے اس موقف پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ میں رائے شماری اس کا ثبوت ہے۔ دسمبر ۱۹۹۰ء میں خلیجی بحران کے دوران بین الاقوامی کانفرنس کے مطالبے کو ۲ کے مقابلہ میں ۱۴۴ ووٹ ملے۔ مخالفت کرنے والے ممالک صرف امریکہ اور اسرائیل تھے اور اس کا عراق اور کویت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
امریکہ نے انتہائی ڈھٹائی سے عراق کو جارحیت سے پر امن طریقے سے واپسی کی بھی اجازت نہیں دی جو بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق تھی۔ اس کے برعکس امریکہ نے سفارتی کوششوں سے کترانے کو ترجیح دی اور بحران کو تشدد کے منظر نامے تک محدود کیا۔ جس میں سپر پاور کسی رکاوٹ کا سامنا کیے بغیر تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے اپنے مخالف پر لازمی فتح حاصل کرے گا۔
سفارتکاری سے انکار کرتے ہوئے امریکہ نے خلیج میں اپنے اہم مقاصد حاصل کر لیے۔ ہماری خواہش تھی کہ مشرق وسطیٰ میں توانائی کے وسائل ہمارے کنٹرول میں رہیں اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا بڑا حصہ امریکہ اور اس کے اتحادی برطانیہ کی معیشت کا ایندھن بنے۔ امریکہ نے اپنی بالادستی والی حیثیت کو بھی مضبوط کیا اور سبق سکھایا کہ دنیا پر حکمرانی صرف طاقت کے ذریعے کی جائے گی۔ یہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد واشنگٹن نے ’’استحکام‘‘ برقرار رکھنے کے لیے پیش قدمی کی، خلیج کے خاندانی آمریتوں والے ممالک میں جمہوری تبدیلی کے خطرے کو روک دیا اور عراق کو جنوب میں شیعوں اور شمال میں کردوں کو کچلنے کے لیے خفیہ آشیر باد دی۔
بیسویں صدی کے بیشتر حصے میں امریکہ عالمی اقتصادی طاقت اور اس اقتصادی جنگ کا حمایتی رہا ہے جس میں غیر قانونی پابندیوں سے لے کر آئی ایم ایف کے قواعد کا نفاذ شامل ہے۔ تاہم پچھلے بیس سال یا اس سے کچھ زائد عرصے میں امریکہ میں جاپان اور جرمنی کی قیادت میں یورپ کے مقابلہ میں کسی قدر زوال آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی فوجی قوت میں بھی اتنا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے کہ وہ قطعی طور پر سربرآوردہ بن چکی ہے۔
اس کھیل میں سوویت یونین کی موجودگی تو ایک مقررہ حد تک تھی کہ امریکہ کتنی طاقت استعمال کر سکتا ہے، بالخصوص ان علاقوں میں جہاں ہماری روایتی فوجی حیثیت مستحکم نہیں ہے۔ چونکہ سوویت یونین ایک حکومتوں اور سیاسی تحریکوں کی پشت پناہی کر رہا تھا جنہیں امریکہ تباہ کرنا چاہتا تھا، اس لیے یہ خطرہ موجود تھا کہ تیسری دنیا میں امریکہ کی مداخلت ایٹمی جنگ کا موجب بن سکتی ہے۔ سوویت یونین کا خطرہ ختم ہونے کے بعد امریکہ دنیا میں تشدد کے استعمال کے لیے نسبتاً زیادہ آزاد ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو پچھلے چند برسوں کے دوران امریکی تجزیہ نگاروں نے اطمینان کے ساتھ قبول کر لیا ہے۔
★ آزادی کے لیے جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوتی۔ تیسری دنیا کے لوگوں کو ہمارے ہمدردانہ ادراک کی ضرورت ہے اور اس سے زیادہ انہیں ہماری ضرورت ہے۔ ہم امریکہ میں تھوڑا سا شور شرابہ کر کے انہیں بقا کا پروانہ فراہم کر سکتے ہیں۔ کیا وہ اس زیادتی پر غالب آسکتے ہیں جو ہم نے ان پر مسلط کر رکھی ہے؟ اس کا زیادہ تر دارومدار اس پر ہے کہ یہاں امریکہ میں کیا ہوتا ہے۔
تیسری دنیا کے لوگوں کی بہادری حیران کن ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جنوبی مشرقی ایشیا، لاطینی امریکہ اور فلسطین کے مغربی کنارے پر میں نے ان کی بہادری دیکھی ہے۔ یہ ایک لازوال اور جینے کی امنگ بخشنے والا تجربہ ہے۔
قارئین کرام! یہ ان خیالات اور تجزیوں کا مختصر خلاصہ ہے جن کا اظہار نوم چومسکی نے اس کتابچہ میں کیا ہے۔ اس سے زیادہ کی اس کالم میں گنجائش نہیں ہے، تاہم اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ مغرب اور امریکہ کے استعماری عزائم اور ان کی تکمیل کے سامراجی ہتھکنڈے کوئی مخفی راز نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک ایسی کھلی حقیقت ہے جسے خود مغرب کے باخبر اور انصاف پسند دانش ور بھی تسلیم کرتے ہیں اور ضمیر اور انصاف کی آواز بلند کرتے ہیں، انہیں کوئی حجاب نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی ان آوازوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کیا جائے اور ضمیر اور انصاف کے پرچم کو ہر حال میں بلند رکھا جائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تیسری دنیا امریکہ نے اور اس کے لیے اور ان

پڑھیں:

نومبر، انقلاب کا مہینہ

نومبر کی شامیں جب دھیرے دھیرے اُترتی ہیں تو یورپ کے شمال میں سرد ہوا کے جھونکے صرف پتوں کو ہی نہیں، تاریخ کے اوراق کو بھی ہلا دیتے ہیں۔ 1917 نومبر میں جب پیٹرو گراڈ کی سڑکوں پر مزدوروں، کسانوں سپاہیوں اور طلبہ کے نعرے گونج رہے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی تاریخ ایک نئے موڑ پر آ کر ٹھہری۔ روس کے عوام نے صدیوں پر محیط ظلم جاگیرداری اور سامراجی جکڑ سے نکلنے کے لیے ہاتھوں میں سرخ پرچم تھام لیا۔ دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ اقتدار محلات سے نکل کر کارخانوں اورکھیتوں کے بیٹے، بیٹیوں کے ہاتھ میں آیا۔

اکتوبر انقلاب جو ہمارے کیلنڈر میں نومبر میں آیا، صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی، یہ انسان کی برابری، آزادی اور عزتِ نفس کے خواب کی تعبیر تھی۔

لینن اور ان کے رفقا نے جو راہ دکھائی وہ صرف روس کے لیے نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی چنگاری تھی جس نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا تک کے محکوم دلوں میں اُمیدکے چراغ روشن کیے۔

اس انقلاب نے بتایا کہ تاریخ کے پہیے کو صرف طاقتور نہیں گھماتے، کبھی کبھی محروم مزدور اور مفلس بھی اُٹھ کر دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ اکتوبر انقلاب نے دنیا کو یہ سکھایا کہ کوئی سماج اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اس کے مزدور اورکسان زنجیروں میں جکڑے ہوں۔ مگر ہر انقلاب کے بعد وقت کی گرد بیٹھتی ہے۔

خوابوں کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور نئے تضادات جنم لیتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ یہ سوال بھی ابھرا کہ کیا انقلاب محض ایک رومانی تصور تھا یا تاریخ کا ایسا موڑ جس نے انسان کو وقتی طور پر یقین دلایا کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے؟

نومبرکی یاد ہمیں یہ سوچنے پر مجبورکرتی ہے کہ انقلاب محض بندوقوں یا قلعوں کی فتح نہیں ہوتا بلکہ ذہنوں اور دلوں کی آزادی کا نام ہے۔ وہ سماج جو اپنے فکری اور اخلاقی سانچوں کو بدلنے سے گریزکرے، وہ انقلاب کے قابل نہیں ہوتا۔

روس نے یہ جرات کی اس نے بتوں کو توڑا، بادشاہت کو ختم کیا اور محنت کش انسان کو تاریخ کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ مگر جب ہم اس روشنی کو اپنے وطن پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو دل کسی اداس شام کی طرح بھاری ہو جاتا ہے۔

یہاں مزدور اب بھی اپنی مزدوری کے لیے ترستا ہے، کسان اب بھی زمین کا بوجھ اُٹھائے فاقہ کرتا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی انقلاب کے نعرے گونجے۔ ہماری زمین پر جنم لینے والی ترقی پسند تحریکیں چاہے، وہ مزدور تحریک ہو، کسان کمیٹی ہو یا طلبہ کی جدوجہد سب کسی نہ کسی موڑ پر ریاستی جبر، نظریاتی تقسیم اور مایوسی کا شکار ہوئیں۔

ایک زمانہ تھا جب کراچی کی فیکٹریوں سے لے کر پنجاب کے کھیتوں تک سرخ جھنڈا ہوا میں لہرا کرکہتا تھا کہ ’’ دنیا بھر کے مزدور ایک ہو جاؤ‘‘ مگرآج وہ آواز مدھم ہے، نہ وہ جلسے رہے نہ وہ عزم، شاید اس لیے کہ ہماری سیاست نے نظریے کو نکال پھینکا اور موقع پرستی کو گلے لگا لیا۔

جو لوگ مزدوروں کے حق کی بات کرتے تھے، وہ خود سرمایہ داروں کے دربار میں جا بیٹھے، جو قلم عوام کی جدوجہد کا ہتھیار تھا، وہ اب اشتہار کا آلہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں انقلابی جدوجہد کی کمزوری دراصل ہمارے اجتماعی احساسِ زیاں کی علامت ہے۔

ہم نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، وہ نسلیں جو کبھی لینن چی گویرا یا فیض کے الفاظ سے آگ پاتی تھیں، آج کسی موبائل اسکرین پر عارضی غم اور مصنوعی خوشی کی پناہ ڈھونڈتی ہیں۔ یہ وہ خلا ہے جو صرف فکر سے یقین سے اور اجتماعی جدوجہد سے پُر ہو سکتا ہے۔

 نومبرکا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انقلاب ایک دن میں نہیں آتا۔ وہ برسوں کے صبر، قربانی اور شعور سے جنم لیتا ہے۔ روس کے مزدور اگر محض اپنی بھوک کے خلاف اُٹھتے تو شاید تاریخ نہ بدلتی۔ مگر انھوں نے صرف روٹی نہیں، عزت، علم اور انصاف کا مطالبہ کیا۔

یہی مطالبہ آج بھی زندہ ہے ماسکو سے کراچی تک انسان کے دل میں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ انقلاب کا خواب اگر دھندلا بھی جائے تو اس کی چنگاری باقی رہتی ہے۔ وہ چنگاری جو کسی طالب علم کے ذہن میں سوال بن کر جنم لیتی ہے، کسی مزدورکے نعرے میں صدا بن کر گونجتی ہے یا کسی ادیب کے قلم میں احتجاج بن کر ڈھلتی ہے، یہی چنگاری آنے والے کل کی روشنی ہے۔

یہ مہینہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہر وہ سماج جو ظلم اور نابرابری کو معمول سمجھ لے وہ اپنے زوال کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے، اگر روس کے عوام اپنی خاموشی توڑ سکتے تھے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کیوں اپنی تقدیر کے فیصلے چند طاقتور ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں؟

شاید اس لیے کہ ہم نے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا زندگی میں نہیں جیا۔وقت گزر چکا مگر تاریخ کے اوراق کبھی بند نہیں ہوتے۔ شاید کسی اور نومبر میں کسی اور زمین پر نئی نسل پھر سے وہی سرخ پرچم اُٹھائے اورکہے ہم اس دنیا کو بدلیں گے اور جب وہ دن آئے گا تو ماسکو سے کراچی تک ہر انقلابی روح ایک لمحے کے لیے مسکرائے گی۔

آج کے عہد میں جب دنیا ایک بار پھر معاشی ناہمواری، ماحولیاتی تباہی اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے تو اکتوبر انقلاب کی گونج نئے سوال اٹھاتی ہے۔ کیا انسان پھر سے وہی جرات کرسکتا ہے کیا طاقتورکے خلاف کھڑے ہوکر نظام کو بدلنے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے؟

شاید یہی سوال نومبر کی ہوا میں بسا ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے بت پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں مگر ساتھ ہی دنیا کے ہر گوشے میں کوئی نہ کوئی مزدور طالب علم یا ادیب اب بھی انصاف اور برابری کے خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

وہ شاید تھکے ہوئے ہیں مگر ہارے نہیں۔ شاید آنے والے برسوں میں یہ بکھری ہوئی چنگاریاں مل کر پھر سے ایک روشنی بن جائے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکا، 4 لاکھ 55 ہزار خواتین رواں سال ملازمتیں چھوڑ گئیں
  • مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • وینیزویلا پر حملہ کر کے مجھے اقتدار دیں، نوبل امن انعام یافتہ خاتون کی امریکہ کو دعوت
  • امریکہ امن کا نہیں، جنگ کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے، ثروت اعجاز قادری
  • ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شرپسند ملک دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے، عباس عراقچی
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران