امریکی پالیسیاں، امریکی نقاد نوم چومسکی کی نظر میں
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس وقت صدام حسین بش کا حلیف اور دوست تھا، اس لیے اسے مثبت جواب موصول ہوا۔ واشنگٹن کا کہنا تھا کہ اسے عراق کی جانب سے اپنا اسلحہ تباہ کرنے کی تجویز پسند آئی ہے، تاہم اسے مسائل یا اسلحے کے نظام کے ساتھ مشروط نہیں کرنا چاہیے۔ اسلحے کے دیگر نظاموں کا اس میں کوئی ذکر نہیں تھا اور اس کا سبب یہ ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری اسلحہ ہے (تقریبا دو سو ایٹم بم)۔ ممکن ہے اس کے پاس کیمیاوی اور بایولوجیکل اسلحہ بھی ہو، تاہم ’’اسرائیلی ایٹمی ہتھیار‘‘ ایک ایسا فقرہ ہے جو کوئی بھی امریکی اہلکار ادا نہیں کر سکتا۔ یہ فقرہ سوال اٹھائے گا کہ اسرائیل کو دی جانے والی تمام امداد غیر قانونی کیوں نہیں؟ کیونکہ ۱۹۷۷ء میں متعارف کرائے جانے والے قوانین کے تحت اس ملک کی امداد نہیں کی جا سکتی جو خفیہ طریقے سے اسلحہ تیار کر رہا ہو۔
عراق کے حملے سے قطع نظر امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں ہر اس ’’امن عمل‘‘ کو مسترد کیا ہے جس میں بحران کے حل کے لیے بین الاقوامی کانفرنس یا فلسطین کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ پچھلے بیس سال سے امریکہ اپنے اس موقف پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ میں رائے شماری اس کا ثبوت ہے۔ دسمبر ۱۹۹۰ء میں خلیجی بحران کے دوران بین الاقوامی کانفرنس کے مطالبے کو ۲ کے مقابلہ میں ۱۴۴ ووٹ ملے۔ مخالفت کرنے والے ممالک صرف امریکہ اور اسرائیل تھے اور اس کا عراق اور کویت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
امریکہ نے انتہائی ڈھٹائی سے عراق کو جارحیت سے پر امن طریقے سے واپسی کی بھی اجازت نہیں دی جو بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق تھی۔ اس کے برعکس امریکہ نے سفارتی کوششوں سے کترانے کو ترجیح دی اور بحران کو تشدد کے منظر نامے تک محدود کیا۔ جس میں سپر پاور کسی رکاوٹ کا سامنا کیے بغیر تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے اپنے مخالف پر لازمی فتح حاصل کرے گا۔
سفارتکاری سے انکار کرتے ہوئے امریکہ نے خلیج میں اپنے اہم مقاصد حاصل کر لیے۔ ہماری خواہش تھی کہ مشرق وسطیٰ میں توانائی کے وسائل ہمارے کنٹرول میں رہیں اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا بڑا حصہ امریکہ اور اس کے اتحادی برطانیہ کی معیشت کا ایندھن بنے۔ امریکہ نے اپنی بالادستی والی حیثیت کو بھی مضبوط کیا اور سبق سکھایا کہ دنیا پر حکمرانی صرف طاقت کے ذریعے کی جائے گی۔ یہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد واشنگٹن نے ’’استحکام‘‘ برقرار رکھنے کے لیے پیش قدمی کی، خلیج کے خاندانی آمریتوں والے ممالک میں جمہوری تبدیلی کے خطرے کو روک دیا اور عراق کو جنوب میں شیعوں اور شمال میں کردوں کو کچلنے کے لیے خفیہ آشیر باد دی۔
بیسویں صدی کے بیشتر حصے میں امریکہ عالمی اقتصادی طاقت اور اس اقتصادی جنگ کا حمایتی رہا ہے جس میں غیر قانونی پابندیوں سے لے کر آئی ایم ایف کے قواعد کا نفاذ شامل ہے۔ تاہم پچھلے بیس سال یا اس سے کچھ زائد عرصے میں امریکہ میں جاپان اور جرمنی کی قیادت میں یورپ کے مقابلہ میں کسی قدر زوال آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی فوجی قوت میں بھی اتنا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے کہ وہ قطعی طور پر سربرآوردہ بن چکی ہے۔
اس کھیل میں سوویت یونین کی موجودگی تو ایک مقررہ حد تک تھی کہ امریکہ کتنی طاقت استعمال کر سکتا ہے، بالخصوص ان علاقوں میں جہاں ہماری روایتی فوجی حیثیت مستحکم نہیں ہے۔ چونکہ سوویت یونین ایک حکومتوں اور سیاسی تحریکوں کی پشت پناہی کر رہا تھا جنہیں امریکہ تباہ کرنا چاہتا تھا، اس لیے یہ خطرہ موجود تھا کہ تیسری دنیا میں امریکہ کی مداخلت ایٹمی جنگ کا موجب بن سکتی ہے۔ سوویت یونین کا خطرہ ختم ہونے کے بعد امریکہ دنیا میں تشدد کے استعمال کے لیے نسبتاً زیادہ آزاد ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو پچھلے چند برسوں کے دوران امریکی تجزیہ نگاروں نے اطمینان کے ساتھ قبول کر لیا ہے۔
★ آزادی کے لیے جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوتی۔ تیسری دنیا کے لوگوں کو ہمارے ہمدردانہ ادراک کی ضرورت ہے اور اس سے زیادہ انہیں ہماری ضرورت ہے۔ ہم امریکہ میں تھوڑا سا شور شرابہ کر کے انہیں بقا کا پروانہ فراہم کر سکتے ہیں۔ کیا وہ اس زیادتی پر غالب آسکتے ہیں جو ہم نے ان پر مسلط کر رکھی ہے؟ اس کا زیادہ تر دارومدار اس پر ہے کہ یہاں امریکہ میں کیا ہوتا ہے۔
تیسری دنیا کے لوگوں کی بہادری حیران کن ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جنوبی مشرقی ایشیا، لاطینی امریکہ اور فلسطین کے مغربی کنارے پر میں نے ان کی بہادری دیکھی ہے۔ یہ ایک لازوال اور جینے کی امنگ بخشنے والا تجربہ ہے۔
قارئین کرام! یہ ان خیالات اور تجزیوں کا مختصر خلاصہ ہے جن کا اظہار نوم چومسکی نے اس کتابچہ میں کیا ہے۔ اس سے زیادہ کی اس کالم میں گنجائش نہیں ہے، تاہم اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ مغرب اور امریکہ کے استعماری عزائم اور ان کی تکمیل کے سامراجی ہتھکنڈے کوئی مخفی راز نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک ایسی کھلی حقیقت ہے جسے خود مغرب کے باخبر اور انصاف پسند دانش ور بھی تسلیم کرتے ہیں اور ضمیر اور انصاف کی آواز بلند کرتے ہیں، انہیں کوئی حجاب نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی ان آوازوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کیا جائے اور ضمیر اور انصاف کے پرچم کو ہر حال میں بلند رکھا جائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تیسری دنیا امریکہ نے اور اس کے لیے اور ان
پڑھیں:
مغرب کی بالادستی اور برکس کانفرنس سے وابستہ دنیا کا مستقبل
ریو ڈی جنیرو میں 2025 کی برکس کانفرنس میں اس سال کا مرکزی موضوع کثیرالجہتی (multilateralism) اور بین الاقوامی قانون کی بالادستی تھا، جو اقوام متحدہ کے منشور میں درج مقاصد و اصولوں پر مبنی ہے۔
کانفرنس نے بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام، انسانی حقوق کے فروغ، اور باہمی احترام، انصاف، مساوات اور یکجہتی پر مبنی تعاون کے لیے اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کو دہرایا۔ اس وقت جبکہ مغربی قیادت میں قائم حکمرانی کا نظام اپنی استحصالی اور تحفظاتی پالیسیوں کی بدولت مستقل طور پر ساکھ کی زوال پذیری سے دوچار ہے اور اس کی وجہ سے عالمی سطح پر بے یقینی میں اضافہ اور ترقی کی رفتار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے برکس(BRICS )سربراہی اجلاس میں گلوبل ساؤتھ کے مفادات کے تحفظ اور نئے چیلنجز سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے تعاون کا ایک فریم ورک پیش کیا۔ اس کا مقصد امریکہ کی تجارتی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی پالیسیوں اور ترقی پذیر ممالک کی ترقی کی قیمت پر اپنی معیشت کو فروغ دینے کی کوششوں کا مقابلہ کرنا تھا۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری دنیا پر غیر امتیازی محصولات عائد کیے ہیں، جو ایک صدی سے زائد عرصے میں پہلی بار دیکھنے میں آئے ہیں۔ یہ ‘‘جعلی’’ ٹیکس ظاہر کرتے ہیں کہ اب امریکہ نہ تو عالمی اقتصادی نظام کا مرکز ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ ہی آزاد تجارت کا ضامن۔ اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ پالیسی مقابلے سے خوف کی علامت ہے، جو دراصل امریکی معیشت میں جدت کو فروغ دے سکتی تھی اور جس نے عشروں تک امریکہ اور امریکی عوام کو فائدہ پہنچایا۔ یہ کرایہ خورانہ طرزِعمل (rent-seeking) نہ صرف عالمی معیشت بلکہ خود امریکی معیشت پر بھی بوجھ بن سکتا ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے مطابق، ٹرمپ کی جانب سے 2 اپریل کو متعارف کرائے گئے محصولات کے باعث 2025 میں امریکی شرحِ نمو 1.8 فیصد تک گر سکتی ہے، جو جنوری کی پیشگوئی سے 0.9 فیصد کم ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر آئی ایم ایف بڑی معیشتوں کے درمیان فوری تجارتی مفاہمت کی ضرورت پر زور دے سکتا ہے۔ایسے نازک موقع پر، جب محصولات کی وجہ سے غیر یقینی کی سطح انتہائی بلند ہو چکی ہے، کثیرالجہتی (multilateralism) کو فروغ دینا علاقائی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ عالمی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے اور اجتماعی مشاورت و تفہیم کے ذریعے غیر قانونی محصولات و پابندیوں کے خلاف مشترکہ آواز بلند کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
برکس نے اپنے بنیادی اصولوں متفقہ فیصلہ سازی، ترقی و مساوات کو فروغ دینے، اور عالمی اداروں میں اصلاحات و جدید کاری کی بدولت گزشتہ برسوں میں غیر معمولی توسیع حاصل کی ہے۔ انڈونیشیا، مصر، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا، ایران، اور ممکنہ طور پر سعودی عرب جیسے کئی ابھرتے ہوئے ممالک اب اس تنظیم کا حصہ ہیں۔برکس کی مزید توسیع عالمی سطح پر اس بلاک کے اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ کرے گی اور بکھری ہوئی دنیا میں شمولیت اور ہم آہنگی لائے گی، اور خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ جیسے خطوں میں جو کہ غزہ پر قبضے کی امریکی دھمکیوں، تہران پر فوجی کارروائی کے امکانات، اور تیل کی مارکیٹ میں محصولات سے پیدا ہونے والی کساد بازاری جیسے بڑے چیلنجز سے دوچار ہیں استحکام اور ترقی کو فروغ دے گی۔
اگرچہ برکس پر مغرب کی قیادت میں قائم اقتصادی اداروں کو چیلنج کرنے اور متبادل عالمی نظام قائم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، مگر یہ دعویٰ دلیل سے خالی ہے۔ برکس دراصل موجودہ عالمی نظام میں گلوبل ساؤتھ کے خلاف موجود تعصبات کو ختم کرنے، کثیرالجہتی کو فروغ دینے، بین الاقوامی اداروں کی اصلاح اور ایک مؤثر، جامع اور نمائندہ نظام کی تعمیر کے لیے کام کر رہا ہے۔ وانگ ای کی تجاویز اقوام متحدہ کے ویژن سے ہم آہنگ ہیں، جس کا ‘‘پیکٹ آف دی فیوچر’’ عالمی حکمرانی کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ برکس اجلاس میں گروپ کے کثیرالجہتی کے فروغ میں کردار پر زور دیا، ڈیجیٹل خلیج کے بڑھنے پر خبردار کیا، بریٹن ووڈ اداروں میں گلوبل ساؤتھ کی کم نمائندگی کا اعتراف کیا، اور زیادہ منصفانہ مالیاتی نظام، موسمیاتی اقدامات، ٹیکنالوجی تک رسائی اور امن کے قیام میں برکس سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی ۔برکس کا ‘‘کنٹیجنٹ ریزرو ارینجمنٹ’’ عالمی مالیاتی نظام کی مضبوطی میں مدد دیتا ہے اور آئی ایم ایف کے معاون میکانزم کا تکملہ ہے، جب کہ اس کا ‘‘نیو ڈیولپمنٹ بینک’’ قابلِ تجدید توانائی، ا سمارٹ ٹرانسپورٹ اور ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ منصوبوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، جو اقتصادی ترقی کو ماحولیاتی تباہی سے الگ کرتا ہے۔ برکس کی توسیع ایتھوپیا جیسے ممالک کو ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کر کے ڈیجیٹل خلیج کو پاٹنے میں مدد دیتی ہے۔
تنظیم سفارت کاری، شمولیتی مکالمے، تنازعہ سے بچاؤ، برداشت اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی قیادت میں ایک نئی اور اصلاح شدہ کثیرالجہتی نظام کو فروغ دیتی ہے۔ ثقافتی تبادلوں اور انسان دوست منصوبوں پر باہمی اتفاق سے اس کی شناخت ایک ہمہ جہت تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے۔آج جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے، وہ امریکی قوم پرستانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جو عالمی امن کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور کبھی مربوط رہنے والی گلوبلائزیشن کو ذاتی مفادات کے لیے تہ و بالا کر رہی ہیں۔ مغرب کی بالادستی والے ادارے موجودہ بحرانوں، جیسے یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے مسائل، کا حل فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، جس کے باعث گلوبل ساؤتھ میں اس ‘‘لبرل’’ نظام سے بددلی بڑھ رہی ہے۔برکس کی صورت میں گلوبل ساؤتھ، خاص طور پر پسماندہ ممالک کو ایک ایسا پلیٹ فارم ملا ہے جہاں ان کے ساتھ باہمی احترام، کھلے پن، شمولیت اور یکجہتی کے جذبے کے تحت برتاؤ کیا جاتا ہے۔ یہ ممالک اب عالمی ناانصافیوں اور اقتصادی ناہمواریوں کے خلاف اجتماعی آواز بلند کر سکتے ہیں، عالمی پالیسی سازی میں حصہ لے سکتے ہیں، ایک منصفانہ اور برابری پر مبنی اقتصادی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور حقیقی کثیرالجہتی کو فروغ دے کر گلوبلائزیشن کو دوبارہ استحکام دے سکتے ہیں۔ برکس ممالک دنیا کی تقریباً نصف آبادی، 36 فیصد رقبے، 39 فیصد عالمی GDP جبکہ G7 کا 28.4 فیصدحصہ ہے، اور 23 فیصد عالمی تجارت
کی نمائندگی کرتے ہیں ۔
اس اتحاد کے پاس اتنے وسائل اور معاشی و آبادیاتی طاقت ہے کہ وہ دنیا میں موجود عدم توازن کو ختم کر سکے اور مغرب کے زیر اثر عالمی نظام کو متوازن کر سکے۔ اگر یہ ممالک آپس میں اتحاد، کثیرالجہتی کے فروغ اور بہتر عالمی حکمرانی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ نہ صرف ٹرمپ کی مالی خودمختاری پر حملے کو روک سکیں گے، بلکہ عالمی امن، استحکام اور ترقی پذیر دنیا میں مشترکہ ترقی کو فروغ دینے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ برکس اب خود کو تاریخی طور پر محکوم اقوام کے اتحاد کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس کے اراکین اور شراکت داروں کی فہرست ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ 2025 میں کولمبیا اور بولیویا نے رکنیت میں دلچسپی ظاہر کی۔ خاص طور پر کولمبیا کی گزشتہ3 برسوں میں امریکی اثر سے علیحدگی اور زیادہ خودمختار خارجہ پالیسی کی طرف پیش رفت قابلِ ذکر ہے۔ برکس کے موجودہ مکمل رکن ممالک میں برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا، انڈونیشیا اور ایران شامل ہیں جبکہ اس کے شراکت دار ممالک میں بیلاروس، بولیویا، کیوبا، قازقستان، ملائیشیا، نائجیریا، تھائی لینڈ، یوگنڈا اور ازبکستان شامل ہیں۔
2024 میں 30 سے زائد ممالک نے برکس میں مکمل رکن یا شراکت دار بننے کی خواہش ظاہر کی۔2025 کی کانفرنس نسبتاً کم نمایاں سمجھی جا رہی تھی، خاص طور پر 2024 کی کازان کانفرنس کے مقابلے میں،کیونکہ برازیل اس سالCOP30 کی میزبانی بھی کر رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی توجہ منقسم نظر آئی۔ اس کے باوجود، برکس 2025 نے میڈیا کی توقع سے زیادہ توجہ حاصل کی۔ اس تنظیم سے امریکہ کے خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برکس میں شامل ہونے یا امریکی ڈالر کو بائی پاس کرنے والے کسی بھی ملک پر 10 فیصد ٹیکس لگانے کی دھمکی دی ہے۔ اس سے یہ بات زیادہ واضح ہوگئی ہے کہ خودمختار کرنسیوں میں دوطرفہ تجارت اور امریکی معاشی پالیسیوں، خاص طور پر ٹرمپ کی 100% ٹیرف کی تجاویز پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد، عالمی منڈیوں کو ہلا رہا ہے۔ امریکی ڈالر انڈیکس کے مطابق، جون 2024 سے ڈالر کی قدر میں تقریباً 8.8فیصد کمی ہوئی ہے۔2023 میں اقوامِ متحدہ کے تحت کچھ سرمایہ کاری بینکوں نے خبردار کیا تھا کہ امریکی ڈالر عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر اپنی حیثیت کھو سکتا ہے، اور اس کی جگہ چینی یوان، جاپانی ین یا ممکنہ برکس کرنسی لے سکتی ہے۔
برکس 2025 کانفرنس میں بڑے جغرافیائی تنازعات پر بھی بات کی گئی۔جون میں ایران پر امریکی اور اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت کی گئی اور فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔بھارت کی جانب سے ان قراردادوں کی حمایت ایک اسٹریٹیجک توازن کو ظاہر کرتی ہے۔ اگرچہ بھارت برکس کے نوآبادیاتی مخالف بیانیے کے ساتھ کھڑا ہے، لیکن اگر بین الاقوامی قانون کے نفاذ میں یکسانیت کا مطالبہ بڑھا تو اسرائیل سے اس کے قریبی تعلقات اور کشمیر پر اس کا غیر قانونی قبضہ، برکس میں اس کے کردار پر سوالات اٹھا سکتا ہے ۔2024 کی کازان کانفرنس نے برکس کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس میں متعدد اقدامات شامل تھے جیسے برکس فنانس ٹریک مرکزی بینک ورکنگ گروپ ادائیگیوں کا تعاون کونسل تیز معلوماتی سلامتی چینل انسداد بدعنوانی ورکنگ گروپ برکس اسپیس کونسل برکس ہیلتھ کیئر اور نیوکلیئر میڈیسن ورکنگ گروپ وغیرہ برازیل نے اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سال5 نئے ورکنگ گروپس شروع کیے۔چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبارSMEsانسداد دہشت گردی، آفات سے نمٹنے اور انسداد اجارہ داری اور مقابلہ پالیسی برکس 2025 کو عالمی جنوب کے مابین گہرے تعاون کی جانب ایک اور قدم قرار دیا جا رہا ہے، اس کا مقصد جامع اور پائیدار عالمی نظم و نسق قائم کرنا ہے۔جہاں 2024 کی کازان کانفرنس کثیرالجہتی ترقی اور سلامتی پر مرکوز تھی، وہیں ریو کی کانفرنس عالمی جنوب کی آواز کو ابھارنے پر زیادہ مرکوز رہی۔2026 کی برکس کانفرنس کی میزبانی بھارت کرے گا، اور یہ کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ ماہرین بھارت کے برکس کے اصلاحاتی ایجنڈے سے طویل المدتی وابستگی پر غیر یقینی کا اظہار کر رہے ہیں۔یہ کانفرنس بھارت کے لیے ایک آزمائش ہوگی اور اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ کیا وہ واقعی برکس کے کثیرالجہتی، جامع حکمرانی، اور جنوب۔جنوب تعاون کے وژن کے ساتھ کھڑا ہے، یا اس کی پالیسی اسٹریٹیجک ابہام پر ہی قائم رہے گی؟