سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کردی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دوسرے صوبوں سے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ خوش آئند، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن
سپریم کورٹ کا آئینی بینچ 14 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز ٹرائل ٹرنسفر کیس کی سماعت کرے گا، آئینی کمیٹی نے سماعت کے لیے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے کے خلاف تمام درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں، جسٹس نعیم افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنور اور جسٹس شکیل احمد پانچ رکنی بینچ میں شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ججز کا خط بے نتیجہ نکلا، مختلف صوبوں سے 3 ججز کا اسلام آبادہائیکورٹ تبادلہ
یاد رہے کہ جسٹس محسن اختر کیانی سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے ججز تبادلے کو سپریم کورٹ میں چیلینج کیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آئینی بینچ اسلام آباد ہائیکورٹ ججز تبادلہ کیس جسٹس محسن اختر کیانی درخواستیں سماعت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ ججز تبادلہ کیس جسٹس محسن اختر کیانی درخواستیں اسلام ا باد ہائیکورٹ درخواستیں سماعت سماعت کے لیے سپریم کورٹ
پڑھیں:
کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ گورنر ہائوس سندھ اور اسپیکر سندھ اسمبلی کے درمیان اختیارات اور رسائی کے تنازع نے بالآخر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔
موجودہ گورنر کامران ٹیسوری نے سندھ ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ چیلنج کر دیا ہے جس میں عدالت نے قائم مقام گورنر کو گورنر ہائوس کی مکمل رسائی دینے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے مطابق، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ اس مقدمے کی پیر 3 نومبر کو سماعت کرے گا۔
سندھ ہائی کورٹ نے حالیہ فیصلے میں قرار دیا تھا کہ قائم مقام گورنر کو آئینی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے گورنر ہاو ¿س کے تمام حصوں تک بلا تعطل رسائی ہونی چاہیے۔
تاہم گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ فیصلہ آئینی اختیارات اور انتظامی دائرہ کار سے تجاوز کے مترادف ہے، لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
سیاسی و قانونی حلقوں کی نظر اب سپریم کورٹ کی سماعت پر مرکوز ہے، جو اس اختیاراتی تنازع کے مستقبل کا تعین کرے گی۔