چین کا امریکا کو جواب، امریکی مصنوعات پر 84 فیصد محصولات عائد کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
بیجنگ(نیوز ڈیسک)چین نے امریکی مصنوعات پر 84 فیصد محصولات عائد کرنے کا اعلان کردیا۔
تجارتی محصولات کے معاملے پر دنیا کی دو بڑی معیشتوں امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی جاری، جہاں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر محصولات عائد کرنے کا سلسلہ مزید آگے بڑھ گیا۔
واشنگٹن کی جانب سے بیجنگ پر 104 فیصد محصولات عائد کردیا گیا جس کے جواب بیجنگ نے بھی منہ توڑ جواب دے دیا۔ چینی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ چین امریکی مصنوعات پر 84 فیصد محصولات عائد کرے گا۔
خبر ایجنسی کے مطابق چین نے پہلے امریکی مصنوعات پر 34 فیصد محصولات لگانے کا کہا تھا۔
چین و امریکا تجارتی جنگ کا آغاز
خیال رہے کہ رواں برس فروری کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے تجارتی شراکت داروں چین، کینیڈا اور میکسیکو پر نئے ٹیرف لاگو کردیے تھے۔
ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز میں چینی درآمدات پر فینٹانائل تجارت میں مبینہ کردار کے باعث 20 فیصد ڈیوٹی عائد کی تھی، جس میں فروری میں 10 فیصد اور مارچ میں مزید 10 فیصد عائد ہونے والی ڈیوٹی شامل ہے۔
چین نے بھی ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکا سے ایل این جی اور کوئلے کی درآمدات پر 15 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کیا۔
تجارتی جنگ میں مزید شدت
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ نئے ٹیرفس کے جواب میں چین نے سخت اقدامات کا اعلان کیا تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ مزید شدت اختیار کر گئی۔
امریکی صدر ٹرمپ نے تمام ممالک پر 10 فیصد بنیادی ٹیرف اور چین پر 34 فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا، جس سے مجموعی طور پر چین پر عائد ٹیرف 54 فیصد ہوگیا۔
چین اور امریکا ڈٹ گئے، ٹیرف میں اضافہ
چین نے فوری ردعمل میں 10 اپریل سے تمام امریکی اشیا پر 34 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا جس سے تجارتی تنازع مزید شدت اختیار کر گیا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ چین کے ساتھ 295 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ختم ہونے تک ٹیرفس جاری رہیں گے اور وہ کسی معاہدے کےلیے تیار نہیں، جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیجنگ کے اقدام کو غلطی قرار دے دیا اور کہا کہ چین گھبرا گیا ہے، میری پالیسی کبھی تبدیل نہیں ہوگی۔
امریکا کی اضافی ٹیکس لگانے کی دھمکی
چین کی جانب سے ٹیرف بڑھانے پر امریکی صدر نے دھمکی دی کہ چین نے جوابی ٹیرف کا فیصلہ واپس نہ لیا تو اضافی 50 فیصد ٹیرف لگائیں گے۔
بعدازاں وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ چینی درآمدات پر امریکا کے اضافی محصولات بدھ کے روز 104 فیصد تک پہنچ جائیں گے۔
چین کا آخر تک لڑنے کا عزم
اس پر چین کا کہنا تھا کہ واشنگٹن بیجنگ پر دباؤ ڈالنے کےلیے ٹیرف کا غلط استعمال جاری رکھے ہوئے ہے، امریکی دباؤ کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، اس طرح کی غنڈہ گری کبھی قبول نہیں کریں گے۔
ترجمان چینی وزارتِ تجارت نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکا اپنی ضد پر قائم رہا تو چین آخر تک لڑے گا، امریکا کے اس طرح کے اقدامات کبھی قبول نہیں کریں گے۔
چین کا جوابی وار
تاہم امریکا کی جانب سے محصولات 104 فیصد ہونے کے بعد چین نے امریکی مصنوعات پر ٹیرف کو بڑھ چھلانگ لگاتے ہوئے 84 فیصد کردیا ہے۔
مزیدپڑھیں:کیا شاہ رخ خان دیوالیہ ہو گئے؟ نجومی نے اداکار کے ‘منّت’ چھوڑنے کی اصل وجہ بتا دی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فیصد محصولات عائد امریکی مصنوعات پر امریکی صدر کی جانب سے کا اعلان چین کا کہ چین چین نے
پڑھیں:
ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر
اسلام ٹائمز: ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیشرفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اسکی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کیلئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کریگا، کیونکہ اسکے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیشرفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔ تحریر: عادل فراز
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان مسلسل کشیدگی رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایران میں اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ شاہ ایران امریکہ کا حلیف اور اس کا قابل اعتماد آلۂ کار تھا، جس نے ایران میں امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے قیام کے بعد ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھا، جس نے اس کے ناجائز وجود کو تسلیم کیا تھا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کے موقف میں واضح تبدیلی آئی اور امام خمینیؒ نے اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دیتے ہوئے فلسطین کے استقلال اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے آواز بلند کی۔ انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو عالمی سطح پر منعکس کیا اور آج پوری دنیا اگر مسئلۂ فلسطین پر متوجہ ہے تو یہ امام خمینیؒ کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے۔
خطے میں موجود مزاحتمی محاذ کی تقویت میں بھی ایران کا کلیدی کردار رہا ہے، جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی رہی ہے۔ البتہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور استعمار نوازی نے مسئلۂ فلسطین کے حل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ غزہ کی تباہی اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے بھی مسلم حکمرانوں کو سبکدوش نہیں کیا جاسکتا، جو امریکہ نوازی میں انتفاضہ القدس سے بے پرواہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں۔ اس کا مشاہدہ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران بھی کیا گیا۔ مسلم حکمران ٹرمپ نوازی میں مرے جا رہے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر ہے، اس لئے ان سے مسئلۂ فلسطین یا عالم اسلام کے زندہ موضوعات پر کسی دلیرانہ موقف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
ایران کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور عمان کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ البتہ امریکہ کی ظاہری اور باطنی پالیسیوں میں نمایاں فرق موجود ہے۔ ظاہری طور پر ٹرمپ ایران کو دھمکا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ایران امریکہ سے خوف زدہ ہوکر مذاکرات کی میز پر آیا ہے، جبکہ باطنی طور پر ٹرمپ ایران سے تصادم نہیں چاہتا اور سفارتی طور پر ایران سے نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایران کی حکمت عملی ہمیشہ امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا رہی ہے۔ مذاکرات سے پہلے اور بعد میں بھی امریکہ کے تئیں ایران کا موقف واضح ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ایران کو دھمکایا نہیں جاسکتا اور اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، جبکہ ٹرمپ نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی ایران کو دھمکانا شروع کر دیا تھا کہ اگر مذاکرات نہیں ہوئے تو ایران کو فوجی کارروائی کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔
جبکہ ٹرمپ بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران پر حملے کے لئے ہزار بار نہیں لاکھوں بار سوچنا پڑے گا، کیونکہ یہ حملہ نئی علاقائی جنگ کا باعث بنے گا، جس کی اجازت علاقائی ممالک بھی نہیں دیں گے۔ ایران پر حملے سے دنیا کو ناقابل بیان اقتصادی نقصان پہنچے گا، کیونکہ پہلی فرصت میں آبنائے ہرمز کو بند کر دیا جائے گا، جہاں سے دنیا کی ضرورت کا بیس فیصد تیل گذرتا ہے۔ گویا کہ ایران کے ساتھ جنگ عالمی سطح پر نئے اقتصادی بحران کا سبب بنے گی، جس کی اجازت امریکی حلیف طاقتیں بھی نہیں دیں گی۔ عالمی معیشت یوں بھی روبہ زوال ہے اور امریکہ نت نئے ٹیرف عائد کرکے اپنی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں امریکہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ایران کے ساتھ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو استعماری میڈیا کے ذریعے ایران پر نفسیاتی دبائو کے لئے حملے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ سی این این سمیت تمام میڈیا اداروں نے یہ خبر نشر کی کہ اسرائیل عنقریب ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا، جس کی تیاری اسرائیل کر رہا ہے۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ جنگ کی یہ دھمکیاں صرف نفسیاتی دبائو کے لئے ہیں، جن کا ایران پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ ایران تو ایک مدت سے جنگ کے محاذ پر ہے۔ گو کہ ابھی ایران کے ساتھ براہ راست فوجی جنگ شروع نہیں ہوئی، مگر اقتصادی اور نفسیاتی جنگ تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد چھیڑ دی گئی تھی۔ لہذا ایران کو استعماری طاقتوں کے خلاف لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ اس پر رہبر انقلاب اسلامی کا امریکہ کے خلاف صریح موقف عالمی استکبار کے لئے پریشان کن ہے۔
امسال انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں جوہری توانائی کی افزودگی پر امریکی مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ کے لئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ایرانی قوم کا انتخاب اس کے اختیار میں ہے۔ امریکہ کون ہوتا ہے، جو ہماری خود مختاری اور جوہری افزودگی میں رکاوٹ بن رہا ہے اور کس قانون کے تحت وہ یہ کام کر رہا ہے۔ آخر امریکہ کو دوسرے ملکوں کی جوہری صلاحیت کا تعین کرنے کی ذمہ داری کس نے دی ہے۔؟ اس کے پاس تو دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں تو اس کی قانونی یا اخلاقی حیثیت کیا ہے کہ وہ دوسروں کے جوہری پروگرام کے بارے میں رائے پیش کرے۔؟ انہوں نے امریکی جنگی جرائم اور عالمی نقض امن پر دوٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ کس منہ سے امن کی بات کرسکتا ہے، جبکہ بیسویں صدی میں جنگوں اور بغاوتوں کو سب سے بڑا جنم دینے والا وہ خود ہے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی چودھراہٹ پر ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ "ایران کو امریکہ سے (جوہری پروگرام پر) اجازت کیوں لینی چاہیئے؟ کیا صہیونی حکومت اپنے جوہری ہتھیاروں اور حالیہ جاری نسل کشی کے حوالے سے ہر طرح کی نظارت سے مستثنیٰ ہے۔؟" ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ ایران نہ تو امریکی چودھراہٹ کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنی خود مختاری میں کسی مداخلت کو برداشت کرے گا۔ ان کا یہ کہنا کہ "ایرانی قوم کی خود مختاری ان کے ہاتھ میں ہے" امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیتا ہے، کیونکہ امریکہ ایران کی خود مختاری پر ضرب لگانا چاہتا ہے، جس کو رہبر انقلاب نے مسترد کرتے ہوئے امریکی چودھراہٹ پر ہی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی ایران کے موقف کو واضح کر دیا، جس کے بعد اب مذاکرات میں جوہری پروگرام کو ختم یامحدود کرنے پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔
جوہری افزودگی ہر ملک کا بنیادی حق ہے، جس کو امریکہ سلب نہیں کرسکتا، جبکہ امریکہ نے حالیہ مذاکرات میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی شراکت سے علاقائی کنسورشیم تشکیل دیا جائے۔ اس تجویز میں جو امریکہ کی طرف سے عمان کے ذریعے ایران کو موصول ہوچکی ہے، کے مطابق امریکہ نے ایرانی سرزمین پر جوہری افزودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی تجویز، جس کو رہبر انقلاب اسلامی نے مسترد کر دیا ہے، اس کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ ایک کنسورشیم کی تشکیل سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ جوہری افزودگی کو روکنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جوہری توانائی کو روک کر باہر سے کنسورشیم کے ذریعے یورینیم کو حاصل کرنے کی تجویز ایران کبھی قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس طرح ایران اپنے پاور پلانٹس کو چلانے کے لئے جوہری ایندھن کی فراہمی کے لئے دوسرے ملکوں پر منحصر ہو جائے گا۔
گویا کہ اس تجویز کا مقصد ایران کو خود کفیل بننے سے روکنا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ امریکہ ایران کی ترقی سے خوف زدہ ہے۔ اس کا مقصد جوہری مذاکرات کے ذریعے ایران کے جوہری افزودگی کے منصوبے کو روکنا نہیں بلکہ ایران کی ترقی اور خود کفیل بننے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے، جس کو ایرانی قیادت بخوبی سمجھ رہی ہے۔ ایران پر مسلسل بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیوں کا راز بھی یہی ہے۔ اس کے باوجود ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیش رفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اس کی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کے لئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیش رفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔