لاہور؛ 67 سال بعد میلہ چراغاں کا انعقاد ہوگا، صوفی کلچر کے مناظر پیش کیے جائیں گے
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
لاہور:
تاریخی شالامارباغ میں 67 سال بعد میلہ چراغاں کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جہاں چار روزہ میلے کی تقریبات 11 اپریل کو شروع ہوں گی اور پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے صوفی کلچر کو اجاگر کرنے کے لیے روایتی صوفی ڈیرے سجا دیے گئے ہیں۔
شالامارباغ کے اندر صوفی ڈیرے تیار کرنے والی ٹیم کے ڈائریکٹر آرٹ سید نعمان نے بتایا کہ انہوں نے کوشش کی ہے کہ ملک کے مختلف خطوں میں جو روایتی صوفی کلچر ہے اس کو اجاگر کیا جائے، ہر صوبے کے صوفی کلچر اور وہاں کی تہذیب وثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیرے تیار کیے گئے ہیں جہاں لوک فنکار صوفیانہ کلام پیش کریں گے۔
آرٹ ڈائریکٹر حرا نذیر اور تحریم زاہد نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سید وارث شاہ کی ہیر اور شاہ حسین کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیروں کے ماڈل بنائے ہیں یہاں پرانے وقتوں کا کنواں، رہن سہن اور مٹی سے بنے گھروں کو دکھایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حقیقی طور پر انہوں نے خود تو یہ کلچر نہیں دیکھا لیکن انہیں خوشی ہے کہ وہ اپنے ہنر کے ذریعے دہائیوں پرانے اس کلچر کو اجاگر کررہی ہیں۔
آرٹ ڈیزائنروں نے کہا کہ انہیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ ہیں جو 67 سال بعد شالامار باغ میں میلہ چراغاں یا میلہ شالامار کو بحال کر رہی ہے، یہ ان کے لیے ایک یادگار لمحہ ہے اور امید ہے کہ عوام کو ان کی یہ کوشش اور کام پسند آئے گا۔
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے زیر اہتمام میلہ چراغاں کی تقریبات بزرگ صوفی حضرت مادھولال حسین کے دربار اور شالامارباغ میں منعقدہوں گی، میلے کی چار روزہ تقریبات اس تاریخی روایت کے تحفظ اور فروغ کے لیے حکومت پنجاب کی لگن کی عکاسی کرتی ہے جس میں دن اور رات کے مختلف اوقات میں متنوع تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔
دن کے اوقات میں علما اور تاریخ دانوں کے لیکچرز، شاہ حسین کی تعلیمات پر مبنی پینل ڈسکشنز، شاہ حسین کی کافیاں اور پنجابی مشاعرے شامل ہوں گے اور شام کے وقت صوفی فوک قوالیاں، صوفی بزرگوں کے ڈیرے، ہیر گوئی، روایتی کھانوں کے اسٹال اور علاقائی دستکاری کا بازار سجایا جائے گا۔
میلے کی تقریبات کے دوران تاریخی طور پر مشہور مقدس الاؤ بھی روشن کیا جائے گا جہاں عقیدت مند چراغاں کریں گے۔
ڈائریکٹر جنرل والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کامران لاشاری نے کہا کہ میلہ چراغاں صدیوں سے لاہور کی تہذیب و ثقافت کی ایک نمایاں علامت رہا ہے، جس کا مقصد صوفی اقدار، محبت، روحانی بیداری اور امن و ہم آہنگی کے پیغام کو فروغ دینا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میلہ چراغاں لاہور کی تہذیبی شناخت کی علامت ہے اور اس کی بحالی ہمارے ورثے کو محفوظ رکھنے کے عزم کی عکاسی کرتی ہے، یہ میلہ نہ صرف صوفی شاعر شاہ حسین کی میراث کو خراج تحسین پیش کرتا ہے بلکہ باہمی رواداری، تخلیقی صلاحیتوں اور روایتی فنون کے فروغ کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب کو اس عظیم میلے میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں تاکہ اپنی جڑوں سے جُڑے رہیں اور لاہور کی روح کو زندہ رکھیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میلہ چراغاں شاہ حسین کی نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنالیا ہے لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا، وزیرخزانہ
WASHINGTON:وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی اصلاحات، مالی استحکام اور ماحولیاتی عزم کی تجدید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنالیا ہے لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واشنگٹن ڈی سی میں عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)-ورلڈ بینک کے اجلاس کے موقع پر اٹلانٹک کونسل کے جیو اکنامکس سینٹر میں "2025 اور اس کے بعد پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز اور مواقع" کے موضوع پر گفتگو کی۔
انہوں نے پاکستان کی معاشی صورت حال، اصلاحاتی منصوبوں اور حکومتی ترجیحات پر کھل کر اظہار خیال کیا اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مثبت شراکت داری کی اہمیت پر زور دیا۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں پاکستان نے معاشی استحکام کی جانب اہم پیش رفت کی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، مہنگائی میں کمی، کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری اور مالی خسارے میں کمی کو اہم کامیابیاں قرار دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ صرف پہلا قدم ہے، اصل مقصد پائیدار ترقی اور اصلاحات کا تسلسل ہے
کرکٹ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اب "اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنا لیے ہیں" لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا۔
مالیاتی نظم و ضبط کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں توازن قائم رکھتے ہوئے عوامی فلاح اور ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش پیدا کرنا ضروری ہے، رواں مالی سال میں ٹیکس ریونیو میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس کا جی ڈی پی تناسب 10.6 فیصد تک پہنچنے کی امید ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کی مؤثر مینجمنٹ سے تقریباً 10 کھرب روپے کی بچت ہوئی ہے، جبکہ پالیسی ریٹس میں کمی سے مالی گنجائش بڑھی ہے۔
انہوں نے صوبوں کے ساتھ قومی مالیاتی معاہدے کے تحت شراکت داری کو فروغ دینے پر بھی زور دیا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کو ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا۔
ریونیو اصلاحات کے مؤثر نفاذ پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے ڈیجیٹل نظام اور نفاذ کی اہمیت پر زور دیا اور پاکستان کی بھاری بھر کم انفارمل معیشت اور لگ بھگ 90 کھرب روپے مالیت کے نوٹوں کی گردش کو ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ریٹیل، رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ہول سیل جیسے شعبوں کو باقاعدہ بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی آڈٹ، ٹریک اینڈ ٹریس اور فیس لیس کسٹمز استعمال کیے جا رہے ہیں۔
وزیرخزانہ نے ایف بی آر میں اصلاحات کے لیے افراد، طریقہ کار اور ٹیکنالوجی میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا۔
محمد اورنگزیب نے اپنی گفتگو میں آبادی میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلی کو بھی پاکستان کے لیے بڑے چیلنجز قرار دیا اور بتایا کہ حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر خاندانی منصوبہ بندی، ماں اور بچے کی صحت اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر جامع حکمتِ عملی پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی نشوونما متاثر ہونے کی بڑی وجہ بھی منصوبہ بندی کا فقدان ہے، جس سے انسانی وسائل پر منفی اثر پڑتا ہے، ان کا زور صرف مسائل کی نشان دہی نہیں بلکہ عملی اور مقامی سطح پر مؤثر حل پر ہے اور انہوں نے اس ضمن میں بنگلہ دیش کے ماڈل سے سیکھنے کی بات کی۔
وزیر خزانہ نے ماحولیاتی بہتری کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری اور شفاف منصوبوں کی تیاری کو ناگزیر قرار دیا۔
انہوں نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے 500 ملین ڈالر، ورلڈ بینک کے دس سالہ شراکتی فریم ورک اور آئی ایم ایف کے ساتھ 1.3 ارب ڈالر کے نئے پروگرام کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے تحت پاکستان گرین ٹیکسونومی فریم ورک تیار کر رہا ہے جس کے ذریعے گرین بانڈز، گرین سکوکس اور پہلا پانڈا بانڈ متعارف کرایا جائے گا، جس کی رقم اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کے مطابق استعمال کی جائے گی۔
عالمی سطح پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بریٹن ووڈز جیسے مالیاتی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ترقی پذیر ممالک کی ضروریات بہتر طریقے سے پوری ہو سکیں۔
انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی قیادت کو سراہا اور زور دیا کہ عالمی سطح پر ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا جائے جو رعایتی فنانس کے بہاؤ کو منظم کر سکے۔
وزیر خزانہ نے ادارہ جاتی احتساب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے اصلاحات، عملی اقدامات اور عالمی شراکت داری کے عزم کا اعادہ کیا۔