UrduPoint:
2025-11-04@06:18:23 GMT

دار فور میں نسل کشی کے پیچھے یو اے ای کا ہاتھ ہے، سوڈان

اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT

دار فور میں نسل کشی کے پیچھے یو اے ای کا ہاتھ ہے، سوڈان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اپریل 2025ء) سوڈان نے آج دس اپریل بروز جمعرات بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کو آگاہ کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات سوڈانی فوج سے لڑنے والے باغیوں کی مبینہ حمایت کے ذریعے دار فور میں مقامی رہائشیوں کی نسل کشی کے پس پردہ ایک ''متحرک قوت‘‘ ہے۔

خرطوم نے آئی سی جے کے سامنے اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے یو اے ای پر الزام لگایا ہے کہ وہ 2023ء سے سوڈانی فوج سے لڑنے والے نیم فوجی دستوں پر مشتمل ملیشیا ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کی پشت پناہی کے ذریعے مقامی مسالیت کمیونٹی کے خلاف نسل کشی میں ملوث ہے۔

متحدہ عرب امارات تاہم باغیوں کی حمایت سے انکار کرتے ہوئے سوڈان کے مقدمے کو ایک ''سیاسی تھیٹر‘‘ کے طور پر مسترد کر دیا ہے، جس کا مقصد یو اے ای کے بقول اس جنگ کے خاتمے کی کوششوں سے توجہ ہٹانا ہے، جس میں دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

سوڈان کے قائم مقام وزیر انصاف معاویہ عثمان نے عدالت کو بتایا، ''سوڈان میں جاری نسل کشی متحدہ عرب امارات کی شراکت کے بغیر ممکن نہیں ہوگی، جس میں آر ایس ایف کو ہتھیاروں کی ترسیل بھی شامل ہے۔

‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''متحدہ عرب امارات آر ایس ایف کو براہ راست لاجسٹک اور دیگر مدد فراہم کر رہی ہے، وہ قتل، عصمت دری، جبری نقل مکانی اور لوٹ مار سمیت اب ہونے والی نسل کشی کے پیچھے بنیادی محرک ہے اور اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘

سوڈان چاہتا ہے کہ آئی سی جے کے جج متحدہ عرب امارات کو مجبور کریں کہ وہ آر ایس ایف کی مبینہ حمایت کو روکے اور جنگ کے متاثرین کو ''مکمل معاوضہ‘‘ ادا کرے۔

لیکن متحدہ عرب امارات کے ایک اعلیٰ عہدیدار ریم کیتیت نے سوڈان کے اپنے ملک کے خلاف مقدمے کو ''ایک معزز بین الاقوامی ادارے کا صریح غلط استعمال‘‘ اور ''مکمل طور پر قانونی یا حقائق پر مبنی میرٹ کے بغیر‘‘ قرار دیا۔ کیتیت نے ایک بیان میں کہا، ''سوڈان کو اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک سیاسی تھیٹر نہیں بلکہ فوری جنگ بندی ہے اور اس کے لیے دونوں متحارب فریقوں کی جانب سے پرامن حل کے لیے سنجیدہ عزم کی ضرورت ہے۔

‘‘

یہ مقدمہ امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے اس مطالبے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے، جس میں ایک دن بعد سامنے آیا ہے، جس میں ان دونوں ممالک نے سوڈانی فوج اور نیم فوجی دستوں سے ملک کے تنازع میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سوڈان کا مقدمہ عدالتی دائرہ اختیار سے متعلق مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔

اس لیے آئی سی جے سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ تنازعہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ خیال رہے کہ ریاستوں کے درمیان تنازعات سننے والے آئی سی جے کے فیصلے حتمی اور ان کی پابندی لازمی ہوتی ہے لیکن عدالت کے پاس اپنے احکامات کی تعمیل یقینی بنانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

اس کی ایک مثال اس عالمی عدالت کی جانب سے روس کو یوکرین پر حملے روکنے کا حکم دینا تھی، تاہم یہ حملے اب بھی جاری ہیں۔

آر ایس ایف خواتین کو جنسی غلام بنانے میں ملوث ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

دریں اثنا انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ آر ایس ایف نے سوڈان میں جنگی حکمت عملی کے تحت خواتین کو جنسی غلامی کا نشانہ بنایا اور خواتین اور لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دری بھیکی۔ یہ بات اس تنظیم کی جانب سے آج بروز جمعرات پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''آر ایس ایف نے سوڈان کے قصبوں اور دیہاتوں میں بڑے پیمانے پر جنسی تشدد تذلیل کے طور پر، کنٹرول حاصل کرنے اور برادریوں کو بے گھر کرنے کے لیے کیا۔‘‘

علاقائی انسانی حقوق کے اثرات کے لیے گروپ کے سینیئر ڈائریکٹر ڈیپروس موچینا نے کہا کہ شہریوں پر آر ایس ایف کے حملے ''شرمناک اور بزدلانہ ہیں، اور جو بھی ملک بھی آر ایس ایف کو ہتھیار فراہم کرنے سمیت ان کی حمایت کر رہے ہیں، وہ بھی اس شرمندگی میں شریک ہیں۔

‘‘

''انہوں نے ہم سب کے ساتھ جنسی بد سلوکی کی‘‘ کے عنوان سے تیس صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں تقریباً 30 متاثرین سے انٹرویوز کیے گئے ہیں، جن میں کچھ لڑکیوں اور ان کے رشتہ داروں کی دل دہلا دینے والی شہادتوں کی تفصیلات شامل ہیں۔ رپورٹ میں بیان کردہ تشدد کی تمام کارروائیاں جنگ کے آغاز سے لے کر یکم اکتوبر سن دو ہزار چوبیس تک چار سوڈانی ریاستوں میں ہوئیں، جن میں دار الحکومت خرطوم اور دارفور کے علاقے بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ سوڈان میں متحارب فوج اور نیم فوجی دھڑے دونوں پر امریکی پابندیاں عائد ہیں اور انہیں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔

ش ر⁄ رب (اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے متحدہ عرب امارات ا ر ایس ایف کی جانب سے رپورٹ میں سوڈان کے نے سوڈان کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے ہاتھ میں دیا جائے‘ استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری
  • بھارت بیرون ملک اپنے واحد فوجی اڈے سے ہاتھ دھو بیٹھا‘ تاجکستان کا عینی ائربیس خالی کردیا
  • غزہ کا سیاسی و انتظامی نظام فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے: استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری
  • بھارت بیرونِ ملک اپنے واحد فوجی اڈے سے ہاتھ دھو بیٹھا، تاجکستان کی عینی ائیربیس خالی کردی
  • سوڈان میں والدین کے سامنے سیکڑوں بچے قتل،ہزاروں افراد محصور
  • لینڈنگ کے وقت جہاز
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • اسرائیلی وزیر کی ہاتھ بندھے، اوندھے منہ لیٹے فلسطینی قیدیوں کو قتل کی دھمکی؛ ویڈیو وائرل