کچھ امیدیں زندہ رکھنا چاہتا ہوں شاید ایک موقع اور مل جائے، سرفراز احمد
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
کراچی(سپورٹس ڈیسک)پاکستان کے سابق کپتان اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ٹیم ڈائریکٹر سرفراز احمد نے پروفیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کی خبروں پر خاموشی توڑ دی۔
مقامی اسپورٹس آؤٹ لیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق کپتان سرفراز احمد نے کہا کہ اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔
انہوں نے آخری بار دسمبر 2023 میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
سرفراز نے واضح کیا کہ انہوں نے ابھی تک ریٹائرمنٹ کا فیصلہ نہیں کیا اور وہ یہ قدم صرف اس وقت اٹھائیں گے جب وہ ذاتی طور پر محسوس کریں گے کہ وقت صحیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیشہ ور کرکٹر کے لیے کھیل سے دور رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
سابق کپتان نے کہا کہ جب کسی نے ساری زندگی کرکٹ کھیلی ہے تو ظاہر ہے کہ اس کھیل سے دور رہنے میں تکلیف ہوتی ہے، ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہر کھلاڑی کو دور ہونا پڑتا ہے لیکن میں جو بھی میچ ملتا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
انہوں پی ایس ایل 10 کے ڈرافٹ میں نظر انداز کیے جانے کے باوجود کہا کہ پروفیشنل کرکٹ میں واپسی کی امید نہیں چھوڑی، میں ابھی بھی کچھ امیدیں زندہ رکھتا چاہتا ہوں کہ شاید مجھے ایک اور موقع مل جائے۔
سرفراز احمد نے کہا کہ پاکستان کی نمائندگی کرنا ہر کرکٹر کا خواب ہوتا ہے لیکن اس کا بنیادی مقصد کسی بھی کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
سابق کپتان نے کہا کہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ جو بھی کرکٹ کھیلوں اس میں اچھی کارکردگی دکھاؤں اور اپنا 100 فیصد حصہ دوں۔
مزیدپڑھیں:نور زمان نے عالمی انڈر 23 اسکواش چیمپئن شپ جیت لی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سابق کپتان نے کہا کہ
پڑھیں:
آفات کو اصلاح احوال کا موقع جانیں، پروفیسر ڈاکٹر حسن قادری
فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن کا کہنا تھا کہ جو سمندر حضرت موسیٰ کی اُمت کیلئے راستہ بنا فرعون اور حواری اسی میں غرق ہوئے، سچی توبہ کر لیں قدرت کاملہ سے یہی سیلاب اور بارشیں نفع بخش بن جائیں گی، آپؐ کی بعثت کا مقصد انسانوں کے اخلاق و کردار سنوارنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ایک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقدہ فکری نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آفات اور تکالیف کو اصلاح احوال کا موقع جانیں، سچی توبہ کر لیں قدرت کاملہ سے یہی سیلاب اور بارشیں نفع بخش بن جائیں گی، جو سمندر حضرت موسیٰ ؑاور ان کے فرمانبردار امتیوں کیلئے راستہ بنا فرعون اور اس کے حواری اسی سمندر میں غرق ہو گئے۔ آپؐ کی بعثت کا مقصد انسانوں کے اخلاق و کردار سنوارنا اور انہیں گناہوں کی زندگی سے تائب کرنا تھا۔ انہوں نے فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب اخلاق رذیلہ غلبہ پا لیں تو پھر آسمان سے آفات نازل ہوتی ہیں اور انسانی نظم و نسق، معیشت اور معاشرت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ آج عالم اسلام وسائل کی کثرت کے باوجود انجانے خوف، عدم استحکام، بے اطمینانی اورآفات سے دوچار ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج اُمت بدامنی، بیروزگاری، قدرتی آفات، غربت، بھوک، انجانے دشمن کی دہشت کے خوف میں مبتلا ہے مگر اس کے باوجود کوئی اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہونے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپؐ نے زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے اخلاق کی ترغیب و تعلیم دی اور ہر اس عادت اور عمل سے منع فرمایا جو اللہ کی نافرمانی، فرائض و واجبات کی ادائیگی سے روکے اور دلوں کو فساد اور بگاڑ کا مسکن بنائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال سیلاب آتے ہیں، لاکھوں لوگوں کامال و اسباب پانی میں بہہ جاتا ہے، پل جھپکتے محلات والے سڑکوں پر آ بیٹھتے ہیں، مشکل کی گھڑی میں لوگ رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں مگر کتنے لوگ ہیں جو ان آزمائشوں کے بعد سچے دل کے ساتھ اصلاح احوال اور اللہ کی طرف لوٹ جانے کا مصمم عہد کرتے ہیں؟۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کی وبا آئی اور اس نے زندگی کا پہیہ جام کر دیا، لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو گئے، لوگ بیماریوں کی وجہ سے مرنے لگے، ہر طرف خوف اور یاس کا عالم تھا، سوال یہ ہے کہ وباء کے خاتمے پر من حیث الجموع کتنے لوگ تائب ہوئے اور انہوں نے گناہ کی زندگی کو ترک کرنے کا ارادہ کیا؟ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اللہ کی طرف نہیں لوٹیں گے، گناہوں سے تائب نہیں ہوں گے تو پھر قدرتی آفات اور سیلاب مسلط ہوتے رہیں گے اور دشمن کا خوف ہماری نیندوں کو اُڑائے رکھے گا۔