بھارتی ریاست مدھیہ پریش کے ضلع نرمداپورم میں چپراسی کی جانب سے طلبہ کے امتحانی پرچے چیک کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

انڈین میڈیا کی رپورٹس کے ماطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک شخص کو طلبہ کے امتحانی پرچے چیک کرتے ہوئے دیکھا گیا، اس شخص کے بارے میں کہا گیا کہ یہ کالج کا چپراسی ہے۔ویڈیو جب متعلقہ حکام تک پہنچی تو انہوں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے سرکاری کالج کے پرنسپل اور ایک پروفیسر کو ایک معطل کر دیا اور معاملے کی تحقیقات شرور کی۔

طلبہ نے اس بارے میں مقامی ایم ایل اے ٹھاکر داس ناگونشی سے رابطہ کیا جنہوں نے متعلقہ حکام سے شکایت کی۔ واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے نوجوانوں کے امور اور کوآپریٹیو کے وزیر وشواس سارنگ نے تصدیق کی کہ پرنسپل اور پروفیسر کو معطل کر دیا گیا۔وشواس سارنگ نے کہا کہ پروفیسر کو امتحانی پرچے چیک کرنے کی ذمہ داری سونپی گوئی تھی، وائرل ویڈیو میں نظر آنے والے چپراسی کے خلاف بھی کارروائی کر رہے ہیں۔

انہوں نے ہدایت کی کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہونے کو یقینی بنایا جائے، حکومت ہمیشہ اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کی کوشش کرتی ہے، یہ واقعہ افسوسناک اور ناقابل معافی ہے لہٰذا سخت کارروائی کی جائے گی۔بھگت سنگھ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل راکیش ورما نے دعویٰ کیا کہ انہیں اور پروفیسر رام گلم پٹیل کو 4 اپریل کو معطل کر دیا گیا تھا۔

مسٹر ورما نے بتایا کہ جوابی پرچے چیک کرنے کا کام ایک استاد کو سونپا گیا تھا جنہوں نے اسے ایک چپراسی کے حوالے کیا، سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس سال جنوری میں شکایت کی گئی تھی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ پروفیسر پٹیل کو راجہ شنکر شاہ یونیورسٹی کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: امتحانی پرچے

پڑھیں:

پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی،  اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔

جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے،  پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ  دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،

آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔

انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی،  وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے،  خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ  افغانستان ہمارا دشمن ہے  اور محمود غزنوی کو  لٹیرا  قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ  یہ کہنا کہ  ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے،  تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • سب ڈویژنل انفورسمنٹ افسر کی 101 اسامیوں کیلئے تحریری امتحان مکمل
  • مودی ٹرمپ سے خوفزدہ ہیں اور انکا ریموٹ کنٹرول بڑے کاروباریوں کے ہاتھوں میں ہے، راہل گاندھی
  • سوڈان : قیامت خیز مظالم، آر ایس ایف کے ہاتھوں بچوں کا قتل، اجتماعی قبریں اور ہزاروں لاپتہ
  • فضائی آلودگی کا وبال، لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں پھر سرفہرست
  • افغان بستی میں چور گینگ رنگے ہاتھوں گرفتار
  • پاکستان کا ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ پروفیسر شاہدہ وزارت کا انٹرویو
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • جہلم ویلی، امتحانی نتائج میں فیل ہونے پر طالب علم کی خودکشی
  • پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم