پروفیسر سید باقر شیوم نقوی: ایک عظیم شخصیت کا وداع
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی، جو فارماسوٹیکل مائیکروبیالوجی کے شعبے میں ایک جانی پہچانی شخصیت تھے، 10 دسمبر 2024 کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات نے علمی دنیا میں ایک گہرا خلا چھوڑا ہے، جو شاید کبھی پر نہ ہو سکے۔ ان کی زندگی کا سفر ایک ایسی کہانی ہے جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر سائنسی تحقیق اور تعلیم کے میدان میں گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا۔ ان کے والد ایک معروف ماہر تعلیم اور محقق تھے، جنہوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ علم کی اہمیت بتائی۔ باقر شیوم نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان کے معتبر تعلیمی اداروں کا رخ کیا۔ ان کی ذہانت اور تحقیق میں گہری دلچسپی نے انہیں مائیکروبیالوجی کے میدان کی طرف راغب کیا، جہاں وہ فارماسوٹیکل مائیکروبیالوجی میں ایک نامور ماہر بن گئے۔
پروفیسر نقوی نے دنیا کے مختلف تعلیمی اداروں سے اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر پاکستان واپس آ کر اس شعبے میں اپنی خدمات فراہم کرنا شروع کر دیں۔ ان کی تدریس کا طریقہ نہ صرف سائنسی تھا بلکہ وہ ہمیشہ اپنے طلباء کو تحقیق کی اہمیت سمجھاتے اور ان کے اندر سائنسی تجسس کو پروان چڑھاتے تھے۔
تدریس اور تحقیق میں نمایاں مقام
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی نے اپنی پوری زندگی تدریس اور تحقیق کے میدان میں گزار دی۔ وہ پاکستان کے ممتاز تعلیمی اداروں میں فارماسوٹیکل مائیکروبیالوجی کے استاد کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کی تدریس کا انداز ہمیشہ دل چسپ اور موثر تھا۔ وہ صرف کتابوں کی باتیں نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے تجربات اور تحقیق کی بنیاد پر طلباء کو عملی علم فراہم کرتے۔
ان کے تحقیقی کاموں میں سب سے اہم موضوع اینٹی بایوٹک ریزسٹنس تھا، جس پر انہوں نے کئی سال تک تحقیق کی اور جدید طریقوں سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ پروفیسر نقوی کا یہ تحقیقی کام عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا، اور ان کی تحقیق نے دوا سازی کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں۔ ان کی تحقیق نے نہ صرف بیماریوں کی شناخت کو بہتر بنایا بلکہ ان کے علاج کے نئے طریقے بھی متعارف کرائے۔
مائیکروبیالوجی کے شعبے میں ان کی خدمات
پروفیسر نقوی نے مائیکروبیالوجی کے شعبے میں کئی اہم سنگ میل قائم کیے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے دوا سازی میں مائیکروبیالوجی کے کردار کو اجاگر کیا اور اس کے ذریعے نئے طریقے متعارف کرائے۔ ان کی تحقیقی کامیابیاں اور اس شعبے میں ان کے نقوش ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
پروفیسر نقوی نے اپنے تحقیقی کاموں کے ذریعے مائیکروبیالوجی کے شعبے کو عالمی سطح پر نمایاں کر دیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ مائیکروبیالوجی نہ صرف بیماریوں کے علاج کے لیے اہم ہے بلکہ یہ انسانیت کی فلاح کے لیے بھی ضروری ہے۔ ان کی تحقیق نے نئے علاج کے طریقے اور ویکسینز کی تیاری میں مدد فراہم کی۔
انسانی خدمت اور ورثہ
پروفیسر نقوی کی شخصیت صرف ایک ماہر سائنسی نہیں تھی بلکہ وہ ایک بہترین انسان بھی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے علم کا فائدہ انسانیت کو پہنچانے کی کوشش کی۔ ان کا یقین تھا کہ علم کا مقصد صرف خود تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد دوسروں تک پہنچانا اور انسانیت کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی نے اپنے طلباء کو ہمیشہ اس بات کی تعلیم دی کہ تحقیق کا اصل مقصد صرف نئی معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ ان معلومات کو دنیا کے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ان کی تدریس میں سچائی، محنت، اور انسانیت کی خدمت کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔
10 دسمبر 2024 وہ دن تھا جب پروفیسر سید باقر شیوم نقوی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات سے نہ صرف ان کے خاندان، دوستوں اور طلباء کو صدمہ پہنچا، بلکہ سائنسی کمیونٹی نے بھی ایک عظیم شخص کو کھو دیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں اور ساتھیوں نے ان کی زندگی اور کام کو خراج تحسین پیش کیا۔
پروفیسر نقوی کی وفات کے بعد ان کے طلباء اور محققین نے ان کے کام کو یاد کیا اور ان کی تحقیق کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو مزید آگے بڑھانے کا عہد کیا۔ ان کا علمی ورثہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان کے کام کو آنے والی نسلیں اپنانا اور آگے بڑھانا چاہیں گی۔
ورثہ اور یاد
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی کی زندگی کا مقصد علم کی روشنی کو پھیلانا اور انسانیت کی خدمت کرنا تھا۔ ان کی تحقیق اور تدریس کی بدولت جو نسلیں پروان چڑھیں، وہ ان کی کاوشوں کا ثمرہ ہیں۔ ان کی زندگی کا پیغام یہ تھا کہ علم کا مقصد صرف خود کے لیے فائدہ حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس علم کو دنیا کی فلاح کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔
ان کی وفات کے بعد، ان کے شاگردوں اور محققین نے ان کے کام کو یاد کیا اور ان کے ورثے کو آگے بڑھانے کا عہد کیا۔ ان کا علمی ورثہ، ان کی تدریس، اور ان کی تحقیق ہمیشہ زندہ رہے گی، اور ان کا نام ہمیشہ سائنسی دنیا میں عزت و احترام سے یاد رکھا جائے گا۔
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی کی وفات ایک بڑی کمی کا باعث بنی ہے، مگر ان کا کام، ان کی تعلیم، اور ان کا نظریہ ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رہے گا۔ ان کی زندگی ایک روشنی کی مانند تھی، جو سائنسی دنیا کی تاریکیوں میں روشنی پھیلانے کا سبب بنی۔ ان کا انتقال اس بات کی یاد دہانی ہے کہ زندگی مختصر ہے، مگر انسان کے کام اور ورثے کا اثر ہمیشہ باقی رہتا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پروفیسر نقوی ان کی تدریس ان کی زندگی ان کی تحقیق انسانیت کی تحقیقی کام ان کی وفات اور تحقیق ان کے کام طلباء کو انہوں نے کا مقصد نقوی کی نقوی نے اور ان کے بعد کے لیے کام کو
پڑھیں:
آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) نے اپنے ’’ویژن 2025‘‘ کے تحت آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں جدید ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے غیر معمولی اقدامات مکمل کرلیے ہیں۔
ادارے نے نوجوانوں کو ڈیجیٹل دنیا میں بااختیار بنانے کے لیے نہ صرف 100 جدید آئی ٹی سیٹ اپس قائم کیے ہیں بلکہ مقامی معیشت اور روزگار کے نئے دروازے بھی کھول دیے ہیں۔
ایس سی او کے مطابق یہ منصوبے دو برس کے مختصر ترین عرصے میں پایۂ تکمیل تک پہنچے، جن سے تقریباً 20 ملین ڈالر کے مساوی غیر ملکی زرمبادلہ حاصل ہوا۔ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ ان آئی ٹی پارکس کے ذریعے خطے کے نوجوانوں کے لیے تربیت، روزگار اور خود انحصاری کے مواقع پیدا کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایس سی او نہ صرف مواصلاتی ڈھانچے میں جدت لا رہا ہے بلکہ ڈیجیٹل پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
’’ویژن 2025‘‘ کے تحت ادارے نے 700 سے زائد افراد کو براہِ راست روزگار فراہم کیا، جب کہ 1500 سے زائد فری لانسرز کو جدید سہولتوں سے آراستہ کر کے انہیں عالمی مارکیٹ میں قدم رکھنے کے قابل بنایا۔
مظفرآباد میں خواتین کے لیے ملک کا پہلا ’’سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک‘‘ بھی اسی وژن کا حصہ ہے، جو خواتین کو آئی ٹی کے شعبے میں خود مختار بنانے کی جانب اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں خصوصی افراد کے لیے خودمختار رہائشی مراکز کا قیام بھی ایس سی او کی سماجی شمولیت کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے ادارہ نہ صرف علاقے میں ڈیجیٹل تبدیلی کی راہ ہموار کر رہا ہے بلکہ خطے کو جدید معیشت کا حصہ بنانے کے عزم پر گامزن ہے۔
ایس سی او کے مطابق یہ منصوبے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ٹیکنالوجی کے نئے دور کا آغاز ہیں، جہاں نوجوان نسل کو نہ صرف جدید مہارتیں دی جا رہی ہیں بلکہ انہیں عالمی سطح پر مسابقت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔