وسطی یورپی ممالک میں مویشیوں میں منہ کھر کی وبا، سرحدیں بند
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) ہنگری میں لیویل نامی شہر سے ہفتہ 12 اپریل کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق وسطی یورپ کے ممالک میں اب تک منہ کھر کی وبا سے متاثرہ ہزارہا مویشی تلف کیے جا چکے ہیں مگر حکام کو اب بھی جانوروں کی اس بیماری کے وبائی پھیلاؤ کے مقابلے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
اس تازہ ترین وبا کے پہلے واقعے کی تصدیق مارچ کے اوائل میں شمال مغربی ہنگری میں مویشیوں کے ایک فارم میں ہوئی تھی۔
اس کے صرف دو ہفتے بعد ہمسایہ ملک سلواواکیہ میں بھی مویشیوں کے تین فارموں پر اس بیماری نے جانوروں کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔برطانیہ نے جرمنی سے مویشیوں کی درآمد پر پابندی لگا دی
ایک خاص متعدی وائرس سے لگنے والی جانوروں کی یہ بیماری بہت تیز رفتاری سے پھیلتی ہے۔
(جاری ہے)
یہ مرض خاص طور پر ایسے جانوروں کو متاثر کرتا ہے، جن کے پاؤں میں کھر ہوتے ہیں۔
یہ مرض جانوروں کے منہ کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اسی لیے اسے منہ کھر کی بیماری کہتے ہیں اور یہ ایسے مویشیوں کو اپنا شکار بناتی ہے جو دودھ یا گوشت کے لیے پالے جاتے ہیں۔
وبا کی موجودہ صورت حالمارچ کے اوائل میں ہنگری سے شروع ہونے والی مویشیوں کی اس وبا کی سلوواکیہ میں پہلے تین فارموں کے علاوہ اب تک ہنگری میں مزید تین اور سلوواکیہ میں بھی مزید تین فارموں پر موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
یہ خدشات بھی ہیں کہ ان دونوں ممالک سے جانوروں کا یہ وبائی مرض دیگر وسطی یورپی ممالک میں بھی پہنچ سکتا ہے۔ہنگری اور سلوواکیہ میں تو یہ گزشتہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے میں منہ کھر کی وبا کے اولین واقعات ہیں۔
آئی وی ایف سے پیدا بچھڑا میتھین گیس اخراج کم کرنے میں معاون؟
ہنگری کے ایک چھوٹے سے شہر لیویل میں ایک مقامی شہری نے بتایا، ''یہاں تو دنیا ہی الٹ گئی ہے۔
کسان خوفزدہ ہیں کہ وہ اپنے تمام مویشیوں سے محروم ہو جائیں گے اور وہ قرنطینہ کے سبب اور سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے بھی اب صحت مند مویشیوں کو کہیں اور نہیں لے جا سکتے۔‘‘ یہ وبا پھیلتی کیسے ہے؟منہ کھر کی بیماری ایسے مویشیوں کو اپنا شکار بناتی ہے، جن کے پاؤں کے دو کھر ہوتے ہیں، اسی لیے یہ وائرس زیادہ تر گائیوں، بھینسوں، بھیڑوں، بکریوں، سؤروں اور ہرنوں کو متاثر کرتا ہے۔
اس بیماری کا وائرس لگنے کے بعد جانوروں کو بخار ہو جاتا ہے اور ان کے منہ اور کھروں کے ارد گرد شدید قسم کے چھالے بن جاتے ہیں۔ یہ وائرس جانوروں کے ایک دوسرے کے قریب آنے سے ایک سے دوسرے مویشی میں منتقل ہو جاتا ہے۔
لیکن جانوروں میں یہی وائرس ہوا کے ذریعے بھی پھیلتا ہے اور یہی متاثرہ یورپی علاقوں میں حکام کے لیے سب سے زیادہ تشویش کی بات ہے۔
یہ وائرس انسانوں کے لیے بہت کم خطرناک ہوتا ہے۔ تاہم ڈیری فارمنگ اور لائیو اسٹاک کے لیے یہ وبا ہوش ربا مالی نقصانات کی وجہ بنتی ہے کیونکہ وائرس سے متاثر ہو جانے کی صورت میں ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں مویشی تلف کرنا پڑ جاتے ہیں۔
قومی سرحدوں کی بندشمنہ کھر کی اس وبا کے پیش نظر سلوواکیہ کی حکومت نے اسی ہفتے ہنگری کے ساتھ اپنی 16 مشترکہ گزر گاہوں کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔
ساتھ ہی سلوواک حکومت نے آسٹریا کے ساتھ بھی اپنی ایک بارڈر کراسنگ بند کر دی۔قبل ازیں آسٹریا نے بھی، جس کی سرحد جرمنی سے بھی ملتی ہے، ہنگری اور سلوواکیہ کے ساتھ اپنی 23 سرحدی گزرگاہیں بند کر دی تھیں۔ آسٹریا میں ابھی تک مویشیوں کے اس وبائی مرض کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
ان حالات میں چیک جمہوریہ نے، جو ہنگری اور سلوواکیہ کے اس وبا سے متاثرہ علاقوں سے کافی دور ہے، اپنے ہاں سخت حفاظتی انتظامات کا اعلان کر دیا ہے۔
چیک حکومت نے ان تمام پانچ بارڈر کراسنگز پر، جہاں سے مال بردار ٹرک اس ملک میں داخل ہوتے ہیں، ایسے اقدامات متعارف کرا دیے ہیں، جن کے تحت مال بردار گاڑیوں کو جراثیموں سے پاک کیا جا رہا ہے۔ چیک جمہوریہ میں بھی اب تک منہ کھر کی بیماری کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
ادارت: امتیاز احمد
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے منہ کھر کی میں بھی کے لیے
پڑھیں:
ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکنا اب ناممکن، یو این چیف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی موسمیاتی تباہی سے بچنے کی راہ اور ہر ملک کے لیے بہت بڑے معاشی موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا اس راستے پر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکا نہیں جا سکے گا۔
بڑی معیشتوں اور موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ 17 ممالک کے رہنماؤں کی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ماحول دوست توانائی کا شعبہ ترقی پا رہا ہے جس کے ذریعے نوکریاں تخلیق ہو رہی ہیں، مسابقت کو فروغ مل رہا ہے اور دنیا بھر میں ترقی ہو رہی ہے۔
قابل تجدید توانائی کی قیمتوں میں غیرمعمولی کمی آئی ہے اور یہ توانائی کے شعبے میں خودمختاری اور تحفظ کے حصول کا یقینی ترین راستہ ہے جس پر چل کر معدنی ایندھن کی مہنگی درآمدات پر انحصار ختم کیا جا سکتا ہے۔(جاری ہے)
Tweet URL
ان کا کہنا تھا کہ اگر معدنی ایندھن پر انحصار ختم کرنے سمیت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے موجودہ منصوبوں پر عمل کیا جائے تو رواں صدی میں عالمی حدت میں اضافے پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
اس کانفرنس کا مقصد برازیل میں رواں سال ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 30) سے قبل عالمگیر موسمیاتی اقدامات سے متعلق عزائم کو مضبوط بنانا ہے۔ اس کا انعقاد سیکرٹری جنرل اور برازیل کے صدر لولا ڈا سلوا کی مشترکہ حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت پیرس معاہدے کے تحت عالمگیر موسمیاتی اقدامات میں بہتری لائی جانا اور تمام ممالک کی اپنے موسمیاتی منصوبوں کے اعلان کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
بند کمرے میں دو گھنٹے پر مشتمل اس کانفرنس میں چین، یورپی یونین، افریقن یونین، جنوبی ایشیائی ممالک کی انجمن اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی بھی موجود تھی۔
نئے موسمیاتی عزائماس موقع پر سیکرٹری جنرل نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ہر شعبے سے ہر طرح کی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکنے اور اس ضمن میں 2050 تک نیٹ زیرو کے ہدف کو حاصل کرنے سے متعلق اپنے قومی منصوبے بروقت جمع کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک نے جلد از جلد اپنے آئندہ موسمیاتی منصوبے جمع کرانے کے وعدے کیے ہیں جسے امید کا مضبوط پیغام سمجھا جا سکتا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی کانفرنس کے دوران تصدیق کی ہے کہ ان کے ملک نے اپنے ہاں آئندہ موسمیاتی اقدامات سے متعلق جو منصوبے بنائے ہیں وہ اس کی معیشت کے تمام شعبوں اور ہر طرح کی گرین ہاؤس گیس کا احاطہ کرتے ہیں۔
ایسے وعدوں کی بدولت آئندہ دہائی میں موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے موثر لائحہ عمل کی تیاری اور معدنی ایندھن سے قابل تجدید توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی کی رفتار بڑھانے میں مدد ملے گی۔
انصاف اور مالی وسائل کی فراہمیسیکرٹری جنرل نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے مزید مدد فراہم کرنےکی ضرورت ہے کیونکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ان کا کردار بہت کم ہے جبکہ یہ ملک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
افریقہ اور ترقی پذیر دنیا کے دیگر حصے تیزی سے گرم ہو رہے ہیں اور الکاہل کے جزائر کو سمندری سطح میں غیرمعمولی رفتار سے اضافے کا سامنا ہے۔انہوں نے امیر ممالک سے کہا کہ وہ 2035 تک ترقی پذیر ممالک کو سالانہ 1.3 ٹریلین ڈالر کی فراہمی کے لیے قابل بھروسہ لائحہ عمل پیش کریں، رواں سال موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے انہیں 40 ارب ڈالر فراہم کریں اور موسمیاتی نقصان و تباہی کے فنڈ میں مزید حصہ ڈالیں۔
سیکرٹری جنرل نے کاپ 30 سے چند ہفتے پہلے ستمبر میں اقوام متحدہ کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلانے کا اعلان بھی کیا جس میں موسمیاتی مںصوبوں اور اس مقصد کے لیے مالیاتی وسائل کی فراہمی پر پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔