بنگلا دیشی عدالت نے سابق برطانوی وزیر ٹیولپ صدیق کے وارنٹ جاری کردیے
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
بنگلا دیشی عدالت نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی بھانجی اور سابق برطانوی وزیر برائے اقتصادی امور ٹیولپ صدیق کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق، ٹیولپ صدیق پر کرپشن کے الزامات ہیں، جن میں ڈھاکا کے ڈپلومیٹک ایریا میں پلاٹ حاصل کرنا اور جوہری معاہدے میں 4 ارب پاؤنڈ کے مبینہ گھپلے شامل ہیں۔ ان الزامات کا تعلق ان کی خالہ حسینہ واجد کی حکومت کے دور سے ہے۔
ٹیولپ صدیق جو اس وقت بھی برطانوی پارلیمنٹ کی رکن ہیں، نے جنوری 2025 میں کرپشن الزامات سامنے آنے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تاہم، انہوں نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد اور سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔ ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ ٹیولپ صدیق نے نہ تو بنگلہ دیش میں کبھی کوئی زمین حاصل کی ہے اور نہ ہی کسی کو فائدہ پہنچایا۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ کیس سیاسی مقاصد کے تحت بنایا گیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹیولپ صدیق
پڑھیں:
برطانوی میڈیا نے پہلگام واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنیوالوں کا تعلق لشکر طیبہ سے قرار دیدیا
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے سربراہ اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف بنیادی طور پر لشکر طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے، یہ وہ گروپس ہیں جو گذشتہ کچھ برسوں کے دوران بنائے گئے تھے خاص طور پر جب پاکستان، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دباؤ میں تھا اور وہ جموں اور کشمیر میں دہشت گردی میں ملوث ہونے سے انکار کر رہا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیر ریزسٹنس نامی گروپ جسے دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) کہا جاتا ہے نے 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ بھارت کی جانب سے اس حملے کو 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد بدترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹی آر ایف کیا ہے؟
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ٹی آر ایف گروپ 2019 میں سامنے آیا اور اسے پاکستان میں موجود کالعدم جہادی گروپ لشکر طیبہ کی ذیلی شاخ سمجھا جاتا ہے۔ تھنک ٹینک ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروپ کی حمایت کی تردید کرتا ہے۔ انڈین سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر کشمیر ریزسٹنس کا نام استعمال کرتا ہے۔ اس گروپ نے اسی نام سے انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
واضح رہے کہ کالعدم لشکر طیبہ کو امریکہ نے بھی ایک غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، اس گروپ پر نومبر 2008 میں ممبئی پر ہونے والے حملے سمیت انڈیا اور مغرب میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے سربراہ اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف بنیادی طور پر لشکر طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے، یہ وہ گروپس ہیں جو گذشتہ کچھ برسوں کے دوران بنائے گئے تھے خاص طور پر جب پاکستان، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دباؤ میں تھا اور وہ جموں اور کشمیر میں دہشت گردی میں ملوث ہونے سے انکار کر رہا تھا۔
اجے ساہنی کے مطابق ماضی میں اس گروپ نے کسی بڑے واقعے کی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی کسی بڑی کارروائی میں اس کا نام سامنے آیا۔ ٹی آر ایف کے تمام آپریشنز بنیادی طور پر لشکر طیبہ کی کارروائیاں ہیں۔ اس گروپ کو اس حد تک آپریشنل آزادی حاصل ہے کہ اس نے زمین پر کہاں کارروائی کرنی ہے، تاہم اس کے احکامات لشکرِ طیبہ کی طرف سے ہی آتے ہیں۔
انڈیا کی وزارت داخلہ نے 2023 میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ٹی آر ایف گروپ جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور شہریوں کے قتل کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے۔ وزارت داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ گروپ عسکریت پسندوں کی بھرتی اور سرحد پار ہتھیاروں اور منشیات کی سمگلنگ میں بھی مُلوث ہے۔ انٹیلی جنس حکام نے روئٹرز کو بتایا کہ ٹی آر ایف گذشتہ دو برسوں سے انڈین نواز گروپوں کو آن لائن دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ وہ کشمیریوں کی صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت کرتا ہے۔