سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئے جج تعینات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے اور قائم مقام چیف جسٹس کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی جس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے۔ دلائل کے آغاز میں وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو آرٹیکل 175 کے ساتھ دیکھنا چاہیے، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دوں گا، اس پر جسٹس علی مظہر نے کہا ججز ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہیں سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے۔ جسٹس علی مظہر نے کہا کہ ایک جج کا ٹرانسفر 4 درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ میں آناہوتا ہے اس ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں، آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے یا سینارٹی پر؟ اس پر منیر اے ملک نےجواب دیا ہمارا اعتراض دونوں پر ہے۔
جسٹس علی مظہر نے کہا آپ نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کر کے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئے جج تعینات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ اس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے" اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری" کا ذکر آتا ہے۔ بعد ازاں آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مسترد کر دی، اس کے علاوہ ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کر دی گئی۔ بعد ازاں عدالت نے 5 ججز کی درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین، جسٹس محمد آصف اور جوڈیشل کمیشن سمیت اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 17 اپریل تک ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ 3 ججوں کی دوسرے ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبالے اور انہیں کام سے روکنے کے لیے 7 آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ درخواستوں میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کی سینارٹی لسٹ کو بھی چیلنج کیا گیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی سمیت 5 ججوں نے سینارٹی لسٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ اسلام آباد ہائی منیر اے ملک نے ہائیکورٹ کے سپریم کورٹ کی استدعا ہائی کورٹ کورٹ میں علی مظہر چیف جسٹس ہوتا ہے کورٹ کا کورٹ کے ججز کی
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی کے 26 معطل ارکان کی بحالی، کب کیا ہوتا رہا؟
پنجاب اسمبلی کے 26 معطل ارکان کو قائم مقام اسپیکر نے بحال کردیا ہے۔ یہ فیصلہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین کامیاب مذاکرات کے بعد کیا گیا، جس سے اسمبلی میں جاری سیاسی تناؤ میں کمی کی توقع ہے۔
27 جون 2025 کو پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 26 ارکان نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تقریر کے دوران شدید احتجاج کیا۔ اس دوران ارکان نے نعرے بازی اور بدزبانی سے ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی، جس پر اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے رولز آف پروسیجر 1997 کے رول 210(3) کے تحت ان ارکان کی رکنیت 15 اجلاسوں کے لیے معطل کردی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی: اپوزیشن کے 26 معطل ارکان کی فوری بحالی کا حکم
معطل ارکان پر الزام تھا کہ انہوں نے غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، بجٹ دستاویزات پھاڑیں، اور ایوان میں توڑ پھوڑ کی، جس میں 8 مائیکروفونز کو نقصان پہنچا۔ اس کے نتیجے میں 10 ارکان سے قریباً 20 لاکھ 35 ہزار روپے جرمانے کے طور پر وصول کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔
نااہلی کا ریفرنسمعطلی کے بعد 4 جولائی 2025 کو اسپیکر ملک محمد احمد خان نے ان 26 ارکان کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نااہلی کا ریفرنس بھیجا۔ یہ ریفرنس آئین کے آرٹیکل 63(2) اور 113 کے تحت دائر کیا گیا تھا، جس میں ارکان پر غیر پارلیمانی رویے، بدزبانی اور آئینی حلف کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا۔
اسپیکر نے 11 جولائی 2025 کو ان ارکان کو ذاتی سماعت کے لیے طلب کیا تاکہ وہ اپنا مؤقف پیش کر سکیں، جو آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت منصفانہ سماعت کے حق کے مطابق تھا۔
مذاکرات اور بحالیبعد ازاں حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے 3 نشستوں کے بعد 18 جولائی 2025 کو معاہدے پر اتفاق کیا۔
اس معاہدے کے تحت اپوزیشن نے آئندہ ایوان میں پارلیمانی حدود میں رہتے ہوئے احتجاج کرنے اور غیر مہذب زبان سے گریز کرنے کا وعدہ کیا۔ جس کے بدلے میں اسپیکر نے نااہلی کے ریفرنسز واپس لینے کا فیصلہ کیا۔
20 جولائی 2025 کو اسپیکر نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہاکہ نااہلی کے الزامات کو عدالت یا ٹریبونل میں ثابت کرنا ضروری ہے، اور بغیر قانونی بنیاد کے ریفرنسز کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
تاہم اسپیکر کی غیر موجودگی کی وجہ سے بحالی کا عمل کچھ تاخیر کا شکار ہوا۔ بالآخر آج پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ مجتبی شجاع الرحمان نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے ایوان میں کہاکہ اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی سے عوام کا حق نمائندگی متاثر ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی: معطل ارکان کے معاملے پر حکومت و اپوزیشن کے مذاکرات کامیاب
انہوں نے کہاکہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی بھی خواہش ہے کہ ان ارکان کو عوام کا حق نمائندگی ملنا چاہیے، قائم مقام اسپیکر صاحب آپ سے درخواست ہے کہ 26 معطل ارکان کی بحالی پر نظر ثانی کی جائے، اپوزیشن کے بغیر ایوان کا ماحول دل کو نہیں لگ رہا جس کے بعد قائم مقام اسپیکر ملک ظہیر اقبال چنڑ نے 26 معطل ارکان کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم دیا اور اپوزیشن جو کئی روز سے احتجاج پر تھی آج دوبارہ واپس اسمبلی کے ایوان میں آگئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اپوزیشن لیڈر ارکان بحال ارکان کی معطلی اسپیکر ملک احمد خان پنجاب اسمبلی ڈپٹی اسپیکر مریم نواز نااہلی ریفرنس وزیراعلٰی پنجاب وی نیوز