پاکستان میں پانی کے تمام بڑے منصوبے تاخیر کا شکار ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
اسلام آباد:پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں وزارت آبی وسائل کی رپورٹ میں ملک میں پانی کے تمام بڑے منصوبے تاخیر کا شکار ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
وزارت آبی وسائل کی رپورٹ کے مطابق پانی سے متعلق 7 بڑے منصوبوں میں سے صرف ایک پر 50 فیصد تک کام مکمل ہو سکا۔ پاکستان پانی کے کم ترین ذخیرے والے ممالک میں شامل ہے۔
دیامر بھاشا ڈیم پر 15 فیصد کام مکمل ہو سکا جبکہ داسو ڈیم کی تعمیر کا کام 21 فیصد تک مکمل ہو سکا۔ مہمند ڈیم پر کام 33 فیصد مکمل ہوچکا ہے۔
کرم تنگی ڈیم کا افتتاح 2016 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے کیا جس پر اب تک 75 فیصد تک کام مکمل ہو سکا ہے۔ پاکستان میں فی کس کیوبک پانی 1000 میٹر ہے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس وزارت کی کارکردگی حیران کن ہے کہ کوئی منصوبہ بھی مکمل نہیں ہو سکا۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مکمل ہو سکا
پڑھیں:
قومی ایئرلائن اور انجینئرز کے تنازع پر درجنوں پروازیں تاخیر اور منسوخی کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: قومی ایئرلائن (پی آئی اے) اور اس کے ایئرکرافٹ انجینئرز کے درمیان جاری تنازع نے فضائی آپریشن کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق انجینئرز کے احتجاج اور کلیئرنس کے عمل میں رکاوٹ کے باعث ملک بھر میں درجنوں پروازیں تاخیر کا شکار ہیں جب کہ کئی پروازیں منسوخ بھی کردی گئی ہیں، جس سے مسافروں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
ایئرپورٹس پر مسافروں کی طویل قطاریں، شور و غل اور بدانتظامی کے مناظر سامنے آرہے ہیں جب کہ ایئرلائن انتظامیہ ابھی تک اس مسئلے کا کوئی واضح حل پیش نہیں کرسکی۔
انجینئرز کا کہنا ہے کہ وہ صرف اُن طیاروں کو پرواز کی اجازت دیتے ہیں جو مکمل طور پر فٹ اور محفوظ ہوں، کیونکہ ان کے نزدیک انسانی جانوں اور فضائی سلامتی پر سمجھوتا ممکن نہیں۔ سوسائٹی آف ایئرکرافٹ انجینئرز پاکستان (سیپ) کے ترجمان نے بتایا کہ پشاور ایئرپورٹ پر تعینات 6 انجینئرز کا اچانک کراچی تبادلہ کردیا گیا ہے، جسے وہ غیر منصفانہ قرار دیتے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ ڈیوٹی پر موجود رہتے ہوئے صرف محفوظ طیاروں کو کلیئرنس فراہم کر رہے ہیں۔
سیپ کے مطابق انجینئرز پر انتظامیہ کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ طیاروں کو جلد از جلد پرواز کے لیے کلیئر کریں، مگر وہ کسی بھی قیمت پر سیفٹی معیارات سے غفلت برتنے کو تیار نہیں۔
تنظیم کا مؤقف ہے کہ طیاروں کی فٹنس پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے کیونکہ معمولی غفلت بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ انجینئرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے دیرینہ مطالبات پر انتظامیہ مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
ان مطالبات میں گزشتہ 8 سال سے رکی ہوئی تنخواہوں میں اضافہ، طیاروں کے فاضل پرزہ جات کی بروقت فراہمی اور بہتر کام کے ماحول کی فراہمی شامل ہیں۔ انجینئرز کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے۔
اُدھر پی آئی اے انتظامیہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ انجینئرز کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تاہم اب تک کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ نجی کمپنی کے انجینئرز نے عارضی طور پر صرف 2 پروازوں ، پشاور سے جدہ اور اسلام آباد سے دمام ، کو کلیئرنس فراہم کی ہے تاکہ ضروری بین الاقوامی آپریشن جزوی طور پر جاری رکھا جا سکے۔