عمران خان کو مذاکرات کے لیے راضی کیا، بات چیت سود مند ہوگی، اعظم سواتی
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
پاکستان تحریک اںصاف کے سینئر رہنما اعظم خان سواتی نے کہا ہے کہ ہم نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو مذاکرات کے لیے راضی کیا، جب بھی نات چیت شروع ہوگی تو سود مند ہوگی۔
انسداد دہشت گردی عدالت لاہور کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو ملک اور ملک کی نسلوں کی فکر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہ ہم نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو مذاکرات کے لیے راضی کیا، جب کوئی بات چیت شروع ہوگی تو بہت سود مند ہوگی۔
اعظم خان سواتی نے کہا کہ یہ ملک سب کا سانجھا ہے، اس سے ہماری نسلوں کی تقدیر جڑی ہوئی ہے، اب پورا پاکستان بانی پی ٹی آئی سے محبت کرتا ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں جناح ہاؤس سمیت چار جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات میں پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کی عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، اے ٹی سی عدالت کے جج منظر علی گل نے عبوری ضمانتوں پر سماعت کی۔
پراسکیوشن نے مقدمات کا ریکارڈ عدالت پیش نہ کیا اور مؤقف اپنایا کہ مقدمات کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں ہے، ملزمان کی ضمانتیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
جج نے پراسکیوٹر سے استفسار کیا کہ وہ ریکارڈ کب آئے گا، پراسکیوٹر نے جواب دیا کہ ریکارڈ جلد جائے گا جج اے ٹی سی نے کہا کہ آئندہ سماعت پر ریکارڈ پیش کیا جائے، عدالت اعظم سواتی کی عبوری ضمانتوں میں 13 مئی تک توسیع کردی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی نے کہا
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔