Islam Times:
2025-07-25@14:12:11 GMT

ایران اسلامی مزاحمت اور امریکہ سے مذاکرات

اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT

ایران اسلامی مزاحمت اور امریکہ سے مذاکرات

اسلام ٹائمز: رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ چند ہفتوں سے اپنے بیانات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ نہ تو خطے میں اسلامی مزاحمت کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ایران کمزور ہوا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے بارہا امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا کہ کسی بھی فوجی مہم جوئی اور حماقت کی صورت میں فوری طور پر منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ لہذا ایران سفارتی میدان میں بھی اور دیگر میدانوں میں بھی انتہائی طاقتور چہرے کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جس کے نتائج نہ صرف مسقط بلکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں جاری مذاکرات میں بھی نیز لبنان میں اسٹیو وٹکوف کی اسسٹنٹ اورٹیگاس کے دورے میں بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ اسی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ اورٹیگاس حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار سوائے سمیر جعجع کے کسی سے نہ کر پائی۔ تحریر: ہادی محمدی
 
عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ جوہری مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں ہفتہ 12 اپریل کو پہلی نشست منعقد ہوئی جس میں ایران کی مذاکراتی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ عباس عراقچی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے تھے۔ ان مذاکرات میں عمان کے وزیر خارجہ ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور دونوں وفود میں پیغام بھی ردوبدل کرتے ہیں۔ پہلی نشست کے اختتام کے بعد اسٹیو ویٹکوف، ڈونلڈ ٹرمپ اور وائٹ ہاوس نے اپنے الگ الگ بیانات میں مذاکرات کو بہت خوش آیند اور مثبت قرار دیا۔ ان بیانات کی وجہ سے بہت سے امور سے عالمی توجہ ہٹ گئی جیسے یہ کہ مذاکرات میں کیا اہم نکات زیر بحث لائے گئے یا کس فریق کو کس فریق پر غلبہ حاصل رہا وغیرہ۔
 
غاصب صیہونی رژیم اور اس کے اتحادی ممالک جیسے امریکہ اور برطانیہ کے ذرائع ابلاغ گذشتہ کئی ماہ سے شدت سے یہ پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھے کہ اسرائیل کے شدید حملوں کے باعث ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک بہت زیادہ کمزور ہو گئے ہیں اور وہ فعال کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ لیکن حالیہ بالواسطہ جوہری مذاکرات نے نہ صرف اس پروپیگنڈے کا جھوٹا ہونا واضح کر دیا ہے بلکہ صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کو ایک انتہائی تلخ حقیقت سے بھی روبرو کر دیا ہے۔ وہ آخرکار ایران کی غالب پوزیشن قبول کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر میڈیا پر شور شرابہ مچانے اور دوسروں پر دھونس جمانے کا رجحان رکھتا ہے اور اس نے ایران پر مذاکرات کے بارے میں اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش بھی کی لیکن بری طرح ناکام ہوا۔
 
ٹرمپ نے شروع میں ایران کو خط لکھا اور اس میں مذاکرات کے آغاز کے لیے شرائط کی لمبی چوڑی فہرست بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان مطالبات کو پورا نہ کرنے کی صورت میں فوجی حملے اور وحشت ناک نتائج کی دھمکی بھی دی۔ لیکن آخر میں جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ ایران نے نہ صرف ٹرمپ کے مطالبات پورے نہیں کیے بلکہ اس سے براہ راست مذاکرات کو بھی ٹھکرا دیا اور امریکہ کی خواہش کے برعکس متحدہ عرب امارات کی بجائے عمان کو بالواسطہ مذاکرات میں ثالثی کا کردار سونپا اور عمان کو بالواسطہ مذاکرات کا مقام مقرر کیا۔ یہ تمام امور ایران کی مرضی کے مطابق طے پائے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح پسپائی اختیار کرتے ہوئے ایران کی مطلوبہ شرائط کے تحت بالواسطہ مذاکرات انجام دینے میں ہی عافیت جانی۔ یوں ٹرمپ نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ امریکہ کمزور پوزیشن میں ہے اور اسے ایران سے مذاکرات کی ضرورت ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ احساس صرف ایران سے متعلق پالیسی سازی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ٹرمپ نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران اسے ٹھیک ٹھاک کھینچا تاکہ وہ اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات ترک کر دے اور ایران سے جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذریعے ممکنہ معاہدے کے بارے میں سوچے کیونکہ اس طرح کا معاہدہ صیہونی رژیم کے اندرونی حالات کے تناظر میں بھی بہت مناسب دکھائی دیتا ہے۔ ٹرمپ اور وٹکوف کی سربراہی میں اس کی مذاکراتی ٹیم نے ایران کی مذاکراتی ٹیم کی جانب سے پیش کردہ سفارشات قبول کر کے نہ صرف نیتن یاہو بلکہ یورپی اتحادیوں کو بھی نظرانداز کر دیا اور انہیں کوئی اہمیت نہیں دی۔ البتہ اسرائیل کا ساتھ دینے والے کچھ مغربی سربراہان اور علاقائی کٹھ پتلیوں نے غلط انداز میں خبریں پھیلانے کی کوشش بھی کی جسے دنیا میں کسی نے کوئی اہمیت نہیں دی۔
 
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ چند ہفتوں سے اپنے بیانات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ نہ تو خطے میں اسلامی مزاحمت کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ایران کمزور ہوا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے بارہا امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا کہ کسی بھی فوجی مہم جوئی اور حماقت کی صورت میں فوری طور پر منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ لہذا ایران سفارتی میدان میں بھی اور دیگر میدانوں میں بھی انتہائی طاقتور چہرے کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جس کے نتائج نہ صرف مسقط بلکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں جاری مذاکرات میں بھی نیز لبنان میں اسٹیو وٹکوف کی اسسٹنٹ اورٹیگاس کے دورے میں بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ اسی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ اورٹیگاس حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار سوائے سمیر جعجع کے کسی سے نہ کر پائی۔
 
طاقت کے اسی اظہار نے شام میں ابو محمد الجولانی کو اہل تشیع کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران لکنت کا شکار کر دیا اور وہ ایران کا اقتدار ماننے پر مجبور ہو گیا۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ جب سوڈان میں آرمی کے مقابلے میں ریپڈ ری ایکشن فورس نے پسپائی اختیار کی تو نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ایران نے شام کا بدلہ سوڈان میں لے لیا ہے۔ البتہ اسرائیل کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور کچھ دیگر ایسے عرب ممالک نے بھی سوگ منایا جنہوں نے سوڈان میں امریکی اسرائیلی فتنے کی مالی امداد کر رکھی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تر پروپیگنڈے کے برعکس ایران اور امریکہ میں بالواسطہ جوہری مذاکرات آگے بڑھنے کی صورت میں ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ اسی حقیقت کے باعث بہت سی طاقتیں ابھی سے شدید تشویش کا شکار ہو چکی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب مذاکرات میں کی صورت میں اور امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ میں ایران ایران اور ایران کی کمزور ہو ہے بلکہ میں بھی کیا کہ اور اس ہے اور کے لیے دیا ہے ہوا ہے کر دیا

پڑھیں:

مقاومت کو غیر مسلح کرنیکا مطلب لبنان کی نابودی ہے، امیل لحود

العھد نیوز ویب سے اپنی ایک گفتگو میں سابق لبنانی صدر کا کہنا تھا کہ کیا یہ عاقلانہ اقدام ہے کہ ہم ایسے حالات میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی بات کریں جب دشمن نے گزشتہ مہینوں میں طے پانے والے معاہدے کی ایک شرط بھی پوری نہیں کی؟۔ اسلام ٹائمز۔ سابق لبنانی صدر "امیل لحود" نے "العھد" نیوز ویب سے بات چیت میں اسرائیل کے ساتھ 33 روزہ جنگ کی سالگرہ پر اپنی عوام کو مبارکباد دی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مقاومت کی چنگاری اب بھی روشن ہے۔ اس سال مذکورہ جنگ کی سالگرہ ایک نئے پہلو کے ساتھ آئی ہے اور وہ پہلو یہ ہے کہ لبنان و خطے کے حالات نے ثابت کیا کہ صیہونی دشمن کو مقاومت کے بغیر روکنا ناممکن ہے۔ انہوں نے استقامتی محاذ کے ہتھیاروں پر جاری مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا یہ عاقلانہ اقدام ہے کہ ہم ایسے حالات میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی بات کریں جب دشمن نے گزشتہ مہینوں میں طے پانے والے معاہدے کی ایک شرط بھی پوری نہیں کی؟۔ امیل لحود نے خبردار کیا کہ کیا اس بات کا یہ حل ہے کہ ہم تمام دفاعی طاقت دشمن کے حوالے کر دیں تاکہ وہ لبنان کو تباہ کر سکے؟۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم نے 33 روزہ جنگ میں اس لیے فتح حاصل کی کیونکہ ہم نے اس دوران فوج، قوم اور مزاحمت کا سنہری فارمولا بنایا۔ یہ فارمولا آج بھی کارآمد ہے اور کل بھی رہے گا۔  

اپنی گفتگو کے اختتام پر سابق صدر نے کہا کہ یہ پہلا سال ہے جب ہم 33 روزہ جنگ کی سالگرہ منا رہے ہیں اور شہید سید حسن نصر الله اپنی روح کے ساتھ ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ قبل ازیں امیل لحود نے کہا تھا کہ اسرائیل ایک نئی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور شاید یہ سمجھتا ہے کہ وہ تعلقات کی بحالی کے مرحلے تک پہنچ جائے گا۔ یہی امر لبنان کے اندر کچھ لوگوں کو جھوٹے خواب میں مبتلا کر رہا ہے۔ حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرارداد 425 ناقص طور پر بھی نافذ نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مزاحمت کو میدان عمل میں کودنا اور طاقت کا توازن تبدیل کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمت کا کردار جاری رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مقاومت نہ ہوتی تو سال 2000ء میں جنوبی علاقوں کی آزادی ممکن نہ ہوتی۔ اب بھی مقبوضہ علاقوں سے دشمن کو مقاومت ہی باہر نکال سکتی ہے۔ امیل لحود نے کہا کہ جو لوگ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا خواب دیکھ رہے ہیں، اُن کا خواب کبھی پورا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • استنبول: ایران اور یورپی ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات دوبارہ شروع
  • عمران خان کے بیٹے امریکہ گئے نہیں بلکہ فیلڈ مارشل کے لنچ کے بعد بلائے گئے ہیں : حیدر نقوی 
  • یورینیم کی افزودگی جاری رہیگی، استنبول مذاکرات کے تناظر میں سید عباس عراقچی کا بیان
  • مقاومت کو غیر مسلح کرنیکا مطلب لبنان کی نابودی ہے، امیل لحود
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی تو سخت مزاحمت کریں گے( ملی یکجہتی کونسل)
  • چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی مذاکرات سویڈن میں ہوں گے، ترجمان چینی وزارت تجارت
  • ضرورت پڑی تو ایران کو پھر نشانہ بنائیں گے، امریکی صدر نے بڑی دھمکی دیدی
  • ضرورت پڑی تو ایران کو پھر نشانہ بنائیں گے، ٹرمپ
  • امریکہ کی ایکبار پھر ایران کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش
  • ضرورت پڑی تو واشنگٹن دوبارہ حملہ کرے گا، ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو پھر دھمکی