ایران اسلامی مزاحمت اور امریکہ سے مذاکرات
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ چند ہفتوں سے اپنے بیانات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ نہ تو خطے میں اسلامی مزاحمت کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ایران کمزور ہوا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے بارہا امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا کہ کسی بھی فوجی مہم جوئی اور حماقت کی صورت میں فوری طور پر منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ لہذا ایران سفارتی میدان میں بھی اور دیگر میدانوں میں بھی انتہائی طاقتور چہرے کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جس کے نتائج نہ صرف مسقط بلکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں جاری مذاکرات میں بھی نیز لبنان میں اسٹیو وٹکوف کی اسسٹنٹ اورٹیگاس کے دورے میں بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ اسی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ اورٹیگاس حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار سوائے سمیر جعجع کے کسی سے نہ کر پائی۔ تحریر: ہادی محمدی
عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ جوہری مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں ہفتہ 12 اپریل کو پہلی نشست منعقد ہوئی جس میں ایران کی مذاکراتی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ عباس عراقچی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے تھے۔ ان مذاکرات میں عمان کے وزیر خارجہ ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور دونوں وفود میں پیغام بھی ردوبدل کرتے ہیں۔ پہلی نشست کے اختتام کے بعد اسٹیو ویٹکوف، ڈونلڈ ٹرمپ اور وائٹ ہاوس نے اپنے الگ الگ بیانات میں مذاکرات کو بہت خوش آیند اور مثبت قرار دیا۔ ان بیانات کی وجہ سے بہت سے امور سے عالمی توجہ ہٹ گئی جیسے یہ کہ مذاکرات میں کیا اہم نکات زیر بحث لائے گئے یا کس فریق کو کس فریق پر غلبہ حاصل رہا وغیرہ۔
غاصب صیہونی رژیم اور اس کے اتحادی ممالک جیسے امریکہ اور برطانیہ کے ذرائع ابلاغ گذشتہ کئی ماہ سے شدت سے یہ پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھے کہ اسرائیل کے شدید حملوں کے باعث ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک بہت زیادہ کمزور ہو گئے ہیں اور وہ فعال کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ لیکن حالیہ بالواسطہ جوہری مذاکرات نے نہ صرف اس پروپیگنڈے کا جھوٹا ہونا واضح کر دیا ہے بلکہ صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کو ایک انتہائی تلخ حقیقت سے بھی روبرو کر دیا ہے۔ وہ آخرکار ایران کی غالب پوزیشن قبول کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر میڈیا پر شور شرابہ مچانے اور دوسروں پر دھونس جمانے کا رجحان رکھتا ہے اور اس نے ایران پر مذاکرات کے بارے میں اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش بھی کی لیکن بری طرح ناکام ہوا۔
ٹرمپ نے شروع میں ایران کو خط لکھا اور اس میں مذاکرات کے آغاز کے لیے شرائط کی لمبی چوڑی فہرست بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان مطالبات کو پورا نہ کرنے کی صورت میں فوجی حملے اور وحشت ناک نتائج کی دھمکی بھی دی۔ لیکن آخر میں جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ ایران نے نہ صرف ٹرمپ کے مطالبات پورے نہیں کیے بلکہ اس سے براہ راست مذاکرات کو بھی ٹھکرا دیا اور امریکہ کی خواہش کے برعکس متحدہ عرب امارات کی بجائے عمان کو بالواسطہ مذاکرات میں ثالثی کا کردار سونپا اور عمان کو بالواسطہ مذاکرات کا مقام مقرر کیا۔ یہ تمام امور ایران کی مرضی کے مطابق طے پائے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح پسپائی اختیار کرتے ہوئے ایران کی مطلوبہ شرائط کے تحت بالواسطہ مذاکرات انجام دینے میں ہی عافیت جانی۔ یوں ٹرمپ نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ امریکہ کمزور پوزیشن میں ہے اور اسے ایران سے مذاکرات کی ضرورت ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ احساس صرف ایران سے متعلق پالیسی سازی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ٹرمپ نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران اسے ٹھیک ٹھاک کھینچا تاکہ وہ اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات ترک کر دے اور ایران سے جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذریعے ممکنہ معاہدے کے بارے میں سوچے کیونکہ اس طرح کا معاہدہ صیہونی رژیم کے اندرونی حالات کے تناظر میں بھی بہت مناسب دکھائی دیتا ہے۔ ٹرمپ اور وٹکوف کی سربراہی میں اس کی مذاکراتی ٹیم نے ایران کی مذاکراتی ٹیم کی جانب سے پیش کردہ سفارشات قبول کر کے نہ صرف نیتن یاہو بلکہ یورپی اتحادیوں کو بھی نظرانداز کر دیا اور انہیں کوئی اہمیت نہیں دی۔ البتہ اسرائیل کا ساتھ دینے والے کچھ مغربی سربراہان اور علاقائی کٹھ پتلیوں نے غلط انداز میں خبریں پھیلانے کی کوشش بھی کی جسے دنیا میں کسی نے کوئی اہمیت نہیں دی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ چند ہفتوں سے اپنے بیانات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ نہ تو خطے میں اسلامی مزاحمت کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ایران کمزور ہوا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے بارہا امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا کہ کسی بھی فوجی مہم جوئی اور حماقت کی صورت میں فوری طور پر منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ لہذا ایران سفارتی میدان میں بھی اور دیگر میدانوں میں بھی انتہائی طاقتور چہرے کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جس کے نتائج نہ صرف مسقط بلکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں جاری مذاکرات میں بھی نیز لبنان میں اسٹیو وٹکوف کی اسسٹنٹ اورٹیگاس کے دورے میں بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ اسی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ اورٹیگاس حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار سوائے سمیر جعجع کے کسی سے نہ کر پائی۔
طاقت کے اسی اظہار نے شام میں ابو محمد الجولانی کو اہل تشیع کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران لکنت کا شکار کر دیا اور وہ ایران کا اقتدار ماننے پر مجبور ہو گیا۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ جب سوڈان میں آرمی کے مقابلے میں ریپڈ ری ایکشن فورس نے پسپائی اختیار کی تو نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ایران نے شام کا بدلہ سوڈان میں لے لیا ہے۔ البتہ اسرائیل کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور کچھ دیگر ایسے عرب ممالک نے بھی سوگ منایا جنہوں نے سوڈان میں امریکی اسرائیلی فتنے کی مالی امداد کر رکھی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تر پروپیگنڈے کے برعکس ایران اور امریکہ میں بالواسطہ جوہری مذاکرات آگے بڑھنے کی صورت میں ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ اسی حقیقت کے باعث بہت سی طاقتیں ابھی سے شدید تشویش کا شکار ہو چکی ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب مذاکرات میں کی صورت میں اور امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ میں ایران ایران اور ایران کی کمزور ہو ہے بلکہ میں بھی کیا کہ اور اس ہے اور کے لیے دیا ہے ہوا ہے کر دیا
پڑھیں:
پاکستان کی اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت
دوحہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 ستمبر2025ء ) پاکستان کی اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے پیر کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے عرب اسلامی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا انسانیت کیخلاف جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہو گا، پاکستان قطر کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتا ہے، اسرائیل کا قطر پر حملہ جارحانہ اقدامات کا تسلسل ہے، اقوام متحدہ میں اسرائیلی کی رکنیت کی معطلی کی تجویز کے حامی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ جبکہ امیر قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی نے دوحا میں عرب اسلامی کے ہنگامی اجلاس میں مسلم ممالک کے سربراہوں سے خطاب میں کہا کہ [حماس] کو امریکا کی طرف سے تجاویز پر توجہ مرکوز کرنی تھی لیکن کیا آپ نے کبھی ایسی جارحیت کے بارے میں سنا ہے؟ کہ ایک ایسی ریاست جو مذاکرات کے لیے مستقل مزاجی سے کام کر رہی ہو، ایک ایسی ریاست جو مذاکرات میں ثالث ہے اور پھر اسی مقام پر جارحیت کی گئی ہو جہاں مذاکرات ہو رہے ہیں۔(جاری ہے)
امیر قطر نے سوال کیا کہ اگر اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنا چاہتا ہے تو پھر مذاکرات کیوں؟ اگر آپ یرغمالیوں کی رہائی پر اصرار کرتے ہیں تو پھر وہ تمام مذاکرات کاروں کو کیوں قتل کر رہے ہیں؟ ہم اپنے ملک میں اسرائیل کے مذاکراتی وفود کی میزبانی کیسے کر سکتے ہیں جب کہ وہ ہمارے ملک پر فضائی حملے کے لیے ڈرون اور طیارے بھیجتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ سوالوں کی ضرورت نہیں یہ صرف بزدلانہ جارحیت ہے ایسے فریق کیلیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اپنے خطاب میں امیر قطر نے کہا کہ اسلامی ملکوں کے رہنماؤں کو دوحا آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کر دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی حالانکہ قطر نے ثالث کے طور پر خطے میں امن کےلیے مخلصانہ کوششیں کیں، اسرائیل نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرتے ہوئے حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا، یرغمالیوں کی پرامن رہائی کے تمام اسرائیلی دعوے جھوٹے ہیں، گریٹراسرائیل کا ایجنڈاعالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہے۔