فائل فوٹو۔

سعودی عرب کی جانب سے 10 ہزار مزید پاکستانی عازمین کو حج کی اجازت کے معاملے پر وزارت مذہبی امور نے نجی حج آپریٹرز سے 10 ہزار عازمین کی تفصیلات طلب کرلیں۔ 

ذرائع کے مطابق عازمین جمع شدہ درخواستوں کے تحت پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پرحج کرسکیں گے۔ پالیسی کی خلاف ورزی یا غلط بیانی پر نجی حج کمپنی نااہل قرار دے دی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق اب نجی حج اسکیم کے تحت ساڑھے 12 ہزار کے بجائے ساڑھے 22 ہزار افراد حج کرسکیں گے۔ 

رواں برس1 لاکھ 79 ہزار 210 کے بجائے1 لاکھ 12 ہزار پاکستانی فریضہ حج ادا کرسکیں گے، ملکی تاریخ میں پہلی بار 67 ہزار عازمین فریضہ حج ادا نہیں کرسکیں گے۔ 

وزارت مذہبی امور کے ذرائع کے مطابق حکومت 77 ہزار پاکستانی عازمین میں سے صرف 10 ہزار کیلئے رعایت حاصل کرسکی، نجی حج اسکیم کے تحت 67 ہزار 105 پاکستانی فریضہ حج سے محروم رہ جائیں گے۔ 

نجی حج اسکیم کے تحت 89 ہزار 605 پاکستانی عازمین میں سے تقریباً 22500 حج کرسکیں گے۔ حج کوٹہ 1 لاکھ 79 ہزار 210 میں سے نصف 89605 سرکاری اور اتنے ہی نجی اسکیم کیلیے مختص ہیں۔ 

ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سعودی ہم منصب سے رابطے کر کے 10 ہزار عازمین کیلئے اجازت لی، نجی حج آپریٹرز کی معاہدے کیخلاف ورزی اور مقررہ تاریخ تک حج واجبات جمع نہیں کراسکے۔ 

ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے نجی حج کوٹہ استعمال نہ کرنے کے ذمہ داروں کے تعین کیلئے 3 رکنی کمیٹی بنائی، کمیٹی نے تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ کابینہ ڈویژن کو بھجوا دی۔ 

وزارت مذہبی امور کے ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے معاہدے کی تاریخ میں توسیع سے انکار کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے پرائیویٹ اسکیم کے 67 ہزار عازمین حج کی سعادت سے محروم ہوجائینگے پاکستانی عازمینِ حج کیلئے اچھی خبر

ذرائع کے مطابق وزارت مذہبی امور اور نجی حج آپریٹرز کے اختلافات سے معاملے نے سنگین صورت اختیار کی، پرائیویٹ حج آپریٹرز کے معاہدے پر عمل نہ کرنے کے سبب67 ہزار پاکستانی عازمین حج سے محروم رہ جائیں گے۔ 

ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں عازمین حج کی سہولیات سے متعلق بکنگ کی ڈیڈ لائن14 فروری تھی، پرائیویٹ حج آپریٹرز اور سعودی وزارت مذہبی امور اور پاکستان حج مشن کے درمیان10 دسمبر کو معاہدہ ہوا۔ 

معاہدے کے تحت رواں سال14 فروری تک عازمین کی بکنگ کروانا لازمی تھا، پرائیویٹ آپریٹرز حج کمپنیوں کی تعداد کم کر کے 45 کرنے کی بجائے 902 برقرار رکھنے پر اصرار کرتے رہے۔ 

وزارت مذہبی امور کے ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے بکنگ سے متعلق توسیع سے انکار کر دیا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: پاکستانی عازمین ذرائع کے مطابق نجی حج آپریٹرز عازمین کی کرسکیں گے اسکیم کے کے تحت

پڑھیں:

ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب ہوگیا

اسلام آباد:

ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے جس کے سبب مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے زائد ہوگیا۔

حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمہ قرضوں سے متعلق وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین سال میں پاکستان کے ذمہ قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر  60.8  فیصد پر آنے کا تخمینہ ہے، مالی سال 2026ء سے 2028ء کی درمیانی مدت میں قرض پائیدار رہنے کی توقع ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوگیا، گزشتہ ایک سال کے دوران قرضے میں  10 ہزار ارب روپے سے زیادہ اضافہ ہوا، سال 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، گزشتہ سال مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی۔

وزارت خزانہ نے قرضوں سے متعلق  خطرات اور چیلنجز کی بھی نشاندہی کردی ہے۔ وزارت خزانہ حکام کے مطابق رپورٹ میں معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے، ایکسچینج ریٹ اور سود کی شرح میں تبدیلی قرض کا بوجھ بڑھا سکتی ہے، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلی قرض کے خطرات میں اضافہ کر سکتے ہیں، فلوٹنگ ریٹ قرض کی بڑی مقدار سے شرح سود کا خطرہ بلند رہے گا، پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد ملکی قرض ہے۔

وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، شرح سود کا خطرہ برقرار ہے، مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد، ری فنانسنگ کا خطرہ برقرار ہے، بیرونی قرضے مجموعی قرض کا 32.3 فیصد ہیں، زیادہ تررعایتی قرضہ دوطرفہ و کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل ہوا،  فلوٹنگ بیرونی قرض 41 فیصد ہےاس سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے اور زرمبادلہ ذخائر کم ہونے کا امکان خطرناک ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالیاتی نظم و ضبط اور معاشی استحکام سے قرض کا دباؤ کم ہوگا، برآمدات اور آئی ٹی سیکٹر کے فروغ سے زرمبادلہ استحکام کا ہدف ہے، قرض اجرا میں شفافیت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا، پائیدار ترقی، ٹیکنالوجی اورمسابقت سے قرض کے مؤثرانتظام کی سمت پیشرفت ہوئی، آمدن میں کمی یا اخراجات بڑھنے سے پرائمری بیلنس متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ہنگامی مالی ذمہ داریوں کے اثرات بھی سامنے آسکتے ہیں، گزشتہ سال معاشی شرح نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر  3.0 فیصد ہوگئی،  اگلے تین سال میں شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا تخمینہ ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق مہنگائی 23.4 فیصد سے گھٹ کر 4.5 فیصد پر آگئی، سال 2028ء تک مہنگائی کی شرح 6.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے، پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی آئی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام اور بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوا، وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں 6.2 فیصد تک محدود رہا، وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا، درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد سرپلس برقرار رہنے کی توقع ہے آمدن میں اضافہ، اخراجات میں کفایت، سود ادائیگیوں میں کمی سے بہتری آئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی سفیر کی سعودی شوریٰ کونسل کے سپیکر سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • پیپلز پارٹی میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے مشاورت تیز، بیرسٹر گروپ بھی ساتھ دینے پر راضی
  • سعودی عرب: کرپشن اور منصب کے غلط استعمال پر 100 ملزمان گرفتار
  • وزیراعظم کی نواز شریف سے سیاسی، معاشی اور سلامتی امور پر مشاورت
  • سعودی عرب سے فنانسنگ سہولت، امارات سے تجارتی معاہدہ؛ پاکستانی روپیہ مستحکم ہونے لگا
  • وزارت خارجہ اور سفارتی مشننز  میں بڑے پیمانے پر تعیناتیاں
  • پاکستان مخالف بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹا پروپیگنڈا بے نقاب
  • ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب ہوگیا
  • ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
  • سعودی حکومت کی جانب سے عمرہ زائرین پر نئی پابندی عائد کر دی گئی