آئی ایم ایف وفد کا عدالتی کارکردگی، جائیداد کے تحفظ کا حق سمیت دیگر معاملات پر خدشات کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے عدالتی کارکردگی سمیت معاہدوں کے نفاذ، جائیداد کے حقوق کے تحفظ سمیت بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرنے والے معاملات پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان میں موجود آئی ایم ایف مشن نے اہم ملاقاتیں کی ہیں اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں روف عطا، صدر بلوچستان ہائی کورٹ بار میر عطااللہ لانگو اور صدر سندھ ہائی کورٹ بار بیرسٹر سرفراز میتلو کی بیٹھک لگی۔
اعلامیے کے مطابق ملاقات عدالتی کارکردگی جیسے امور پر بات چیت کی گئی، آئی ایم ایف مشن نے عدالتی کارکردگی سمیت معاہدوں کے نفاذ، جائیداد کے حقوق کے تحفظ سمیت بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرنے والے معاملات پر خدشات کا اظہار کر دیا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے آئی ایم ایف مشن کو عدالتی کارکردگی بہتر بنانے کی کوششوں، قانون سازی اور ویڈیو لنک سہولت سمیت دیگر اقدامات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان بھی بہتری کے لیے ای-فائلنگ سسٹم جیسے اقدامات کر رہے ہیں۔
آئی ایم مشن کو بتایا گیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا مقصد عدالتی خودمختاری بہتر بنانا ہے، اس کے علاوہ ججوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے ادارہ جاتی نظام بھی موجود ہے۔
ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ مسائل کا حل سیاسی اور اقتصادی استحکام اور بہتر طرز حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔
اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف مشن ایک سوالنامہ بھی ایسوسی ایشن کو بھیجے گا، جس کے جواب میں تفصیلی جوابات، تجاویز اور سفارشات دی جائیں گی۔
آئی ایم ایف وفد کابینہ ڈویژن حکام سے ملا، کرپشن کے خاتمے اور استعداد کار بڑھانے پر بات ہوئی، مشن کے تیکنیکی وفد کی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) حکام سے بیٹھک میں ریونیو موبلائزیشن انیشیٹیو، ٹیکس نیٹ اور وصولیاں بڑھانے، نئے شعبے ٹیکس نیٹ میں لانے پر بات ہوئی۔
مزید بتایا گیا کہ مشن نے جائزے سے متعلق اپنا کام بھی مکمل کرلیا ہے اور اس کی رپورٹ جولائی میں جاری کی جائے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف مشن کورٹ بار
پڑھیں:
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا