ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا پس منظر، طاقت یا مجبوری؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اب مذاکرات ایران کے لیے کمزوری نہیں بلکہ اپنی شرائط منوانے کا ایک ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایران نہ صرف عسکری طور پر مستحکم ہوا ہے بلکہ اس نے خطے میں ایک نظریاتی بلاک قائم کر دیا ہے جو امریکی و اسرائیلی منصوبوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ "شیطانِ اکبر" کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ سامنے صرف ایک ملک نہیں، ایک مضبوط اور باعقیدہ مزاحمتی بلاک کھڑا ہے۔ ایران مذاکرات اس لیے نہیں کر رہا کہ وہ امریکہ سے خوفزدہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اب امریکہ سے آگے بڑھ چکا ہے۔ امریکہ اس لیے مذاکرات پر آمادہ ہوا ہے کیونکہ وہ ایران کو شکست نہیں دے سکا۔ تحریر: سیدہ نقوی
دنیا کی سیاسی بساط پر جب بھی طاقت کے توازن میں تبدیلی آتی ہے، اس کے اثرات نہ صرف سفارتی تعلقات پر بلکہ عالمی بیانیے پر بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات اسی تغیر پذیر عالمی توازن کا مظہر ہیں۔ یہ مذاکرات دو بنیادی سوالات کو جنم دیتے ہیں:
1۔ امریکہ نے "محورِ شر" سے مذاکرات کیوں قبول کئے؟
2۔ ایران نے "شیطانِ اکبر" سے مذاکرات کیوں کئے؟
امریکہ اور محورِ شر: شکست کے اعتراف سے مذاکرات تک
وہی امریکہ جو کبھی غرور سے "محورِ شر" کا نعرہ لگا کر ایران، شمالی کوریا اور دیگر اقوام کو دھمکاتا تھا، آج انہی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ یہ تبدیلی کسی اخلاقی یا اصولی پالیسی کا نتیجہ نہیں بلکہ ناکامیوں کے ایک طویل سلسلے کا انجام ہے۔ پابندیاں، اقتصادی جنگیں، میڈیا پروپیگنڈا، حتیٰ کہ ٹارگٹ کلنگز بھی امریکہ کو اس کے مقاصد میں کامیاب نہ کر سکیں۔ ایران نہ صرف قائم رہا بلکہ اس نے اپنے دفاعی، ایٹمی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خود کو مزید مستحکم کرلیا۔ شمالی کوریا نے کھلے عام امریکہ کو چیلنج کیا اور ایٹمی قوت حاصل کی اور امریکہ خاموشی سے تماشائی بن گیا۔ عراق میں شکست، افغانستان سے ذلت آمیز انخلا، یوکرین میں الجھن اور امریکہ کی داخلی معاشی و سیاسی ابتری نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ اب دھمکیوں کے بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کرے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اُن اقوام کو تسلیم کر لیا ہے، جنہیں وہ کبھی ختم کرنا چاہتا تھا۔ یہ مذاکرات دراصل طاقت کے اعتراف ہیں، نہ کہ کسی امریکی احسان کا نتیجہ۔ دنیا کا توازن بدل چکا ہے، اب امریکہ تنہا سپر پاور نہیں رہا۔ چین، روس اور ایران کی قیادت میں ابھرنے والا مزاحمتی بلاک نئی عالمی حقیقت بن چکا ہے جو نہ دھمکیوں سے ڈرتا ہے، نہ امداد پر جیتا ہے۔ امریکہ نے "محورِ شر" کا بیانیہ مجبوری میں چھوڑا اور انہی اقوام کے سامنے مذاکرات کی میز پر بیٹھا جنہیں وہ ختم کرنا چاہتا تھا۔ کیا یہ امریکہ کی فتح ہے؟ یا پھر اس کی عالمی ناکامیوں کا کھلا اعتراف؟
ایران اور شیطانِ اکبر: مزاحمت سے مذاکرات تک
جہاں امریکہ کی جانب سے مذاکرات کا فیصلہ شکست کا مظہر ہے، وہیں ایران کا مذاکرات میں شامل ہونا ایک حکمتِ عملی کا حصہ ہے، نہ کہ کسی دباؤ کا نتیجہ۔ ایران نے چالیس سالہ پابندیوں، بین الاقوامی دباؤ، پراکسی جنگوں اور ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود اپنی خودمختاری برقرار رکھی۔ اس نے نہ صرف اپنی بقاء کو یقینی بنایا بلکہ لبنان، شام، عراق اور یمن میں اپنے اتحادیوں کی حمایت جاری رکھی اور ایک منظم مزاحمتی نظام تشکیل دیا۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو دبانے کی ہر کوشش ناکام ہوئی اور آج وہ ایٹمی دہلیز کے قریب پہنچ چکا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں امریکہ کے لیے ایران کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔
اب مذاکرات ایران کے لیے کمزوری نہیں بلکہ اپنی شرائط منوانے کا ایک ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایران نہ صرف عسکری طور پر مستحکم ہوا ہے بلکہ اس نے خطے میں ایک نظریاتی بلاک قائم کر دیا ہے جو امریکی و اسرائیلی منصوبوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ "شیطانِ اکبر" کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ سامنے صرف ایک ملک نہیں، ایک مضبوط اور باعقیدہ مزاحمتی بلاک کھڑا ہے۔ ایران مذاکرات اس لیے نہیں کر رہا کہ وہ امریکہ سے خوفزدہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اب امریکہ سے آگے بڑھ چکا ہے۔ امریکہ اس لیے مذاکرات پر آمادہ ہوا ہے کیونکہ وہ ایران کو شکست نہیں دے سکا۔
ایران کو نظرانداز کرنے کا مطلب مشرقِ وسطیٰ میں مزید پسپائی ہے اور یہ امریکہ اب مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات درحقیقت طاقت کے نئے عالمی توازن کی ایک علامت ہیں۔ امریکہ کا جھکاؤ مجبوری ہے جبکہ ایران کی شرکت تدبیر۔ جنہیں کبھی "محورِ شر" کہا گیا، وہ آج عالمی پالیسیوں کے تعین میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور جو کبھی "شیطانِ اکبر" کہلاتا تھا، وہ آج مزاحمتی بلاک کے سامنے شرائط سننے پر مجبور ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مزاحمتی بلاک سے مذاکرات اور امریکہ مذاکرات کی ہے بلکہ اس امریکہ کے ہے کیونکہ امریکہ سے ایران اور ایران کو کر رہا ہوا ہے چکا ہے اس لیے
پڑھیں:
دھمکی نہیں دلیل
اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں: امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اسکے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔ تحریر: احسان احمدی
امریکی حکام نے برسوں سے اپنے آپ کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس کے جوہری پروگرام میں رکاوٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور ایک سینیئر امریکی ماہر رے ٹیکیکی کے الفاظ کا۔ رے ٹیکیکی نے ہفتے کے روز پولیٹیکو ویب سائٹ پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا تھا۔ مغربی میڈیا کے معمول کے پروپیگنڈے کے برعکس رے ٹیکیکی نے اپنے مضمون کا مرکز اس حقیقت پر رکھا کہ جس چیز کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان مختلف ادوار میں مذاکرات ہوئے، وہ ایران کے خلاف پابندیوں کا دباؤ نہیں تھا بلکہ امریکہ کو ایران کی جوہری پیش رفت سے خطرے کا احساس تھا۔
یہ نقطہ نظر، میڈیا کی تشہیر سے ہٹ کر، مختلف امریکی حکومتوں کے حکام کے الفاظ میں اشاروں کنایوں میں درک کیا جاسکتا ہے۔ ان اہلکاروں میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہیں۔ اپنی ایک رپورٹ Every Day Is Extera میں وہ واضح کرتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران کی مقامی افزودگی کو تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ بات چیت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں، جان کیری لکھتے ہیں: "اس بات سے قطع نظر کہ ایران کو افزودگی کا "حق" حاصل ہے یا نہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک ہم احتیاط سے طے شدہ حدود کے تحت ایران کی افزودگی جاری رکھنے کے امکان کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، تب تک ایران کے ایٹمی پروگرام تک رسائی، شفافیت اور حقائق کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ افزودگی کے حق کو تسلیم کرکے ہی اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ایران فوجی جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے یا نہیں۔
سابق امریکی سفارت کار نے مزید کہا ہے کہ ایران میں اوسط ہر دوسرا فرد اس خیال سے ناراض ہوگا کہ ان کا ملک وہ نہیں کرسکتا، جو دوسرے آزاد ممالک (افزودگی) کرتے ہیں، کیونکہ امریکہ ایسا کرنا چاہتا ہے۔ ایرانیوں کے نزدیک یہ انداز امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مساوی ہوگا۔ وہ امریکی جنہوں نے ان کے خیال میں شاہ کے دور میں ان کی آزادی اور خودمختاری میں کافی عرصے تک مداخلت کی تھی۔ اس کتاب میں کیری نے انکشاف کیا کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی خفیہ طور پر ایران میں مقامی افزودگی کو قبول کرنے کی ضرورت کے خیال کو قبول کر لیا تھا۔
وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے اپنی نجی گفتگو سے یہ درک کیا کہ بش انتظامیہ کے بظاہر عوامی موقف کے باوجود، اس انتظامیہ نے خفیہ طور پر اور نجی طور پر (ایرانی افزودگی کے) خیال سے اتفاق کر لیا تھا، حالانکہ وہ کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ ایٹمی ڈھانچہ یا سطح (افزودگی) کیا ہونی چاہیئے۔ اپنے مضمون میں رے ٹیکیکی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دوران زیادہ سے زیادہ دباؤ کا منصوبہ ایران کے جوہری پروگرام کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز، حتیٰ کہ اوباما کے دور میں بھی، واشنگٹن کی جانب سے تہران کو دی جانے والی اہم مراعات کا نتیجہ تھا۔
"اوباما کی زیادہ دوستانہ پالیسی تبھی آگے بڑھی، جب واشنگٹن نے (تہران) کو ایک کلیدی رعایت دی یعنی "ایران کو افزودہ کرنے کا حق،" امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں۔ امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔