اسلام ٹائمز: اب مذاکرات ایران کے لیے کمزوری نہیں بلکہ اپنی شرائط منوانے کا ایک ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایران نہ صرف عسکری طور پر مستحکم ہوا ہے بلکہ اس نے خطے میں ایک نظریاتی بلاک قائم کر دیا ہے جو امریکی و اسرائیلی منصوبوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ "شیطانِ اکبر" کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ سامنے صرف ایک ملک نہیں، ایک مضبوط اور باعقیدہ مزاحمتی بلاک کھڑا ہے۔ ایران مذاکرات اس لیے نہیں کر رہا کہ وہ امریکہ سے خوفزدہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اب امریکہ سے آگے بڑھ چکا ہے۔ امریکہ اس لیے مذاکرات پر آمادہ ہوا ہے کیونکہ وہ ایران کو شکست نہیں دے سکا۔ تحریر: سیدہ نقوی

دنیا کی سیاسی بساط پر جب بھی طاقت کے توازن میں تبدیلی آتی ہے، اس کے اثرات نہ صرف سفارتی تعلقات پر بلکہ عالمی بیانیے پر بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات اسی تغیر پذیر عالمی توازن کا مظہر ہیں۔ یہ مذاکرات دو بنیادی سوالات کو جنم دیتے ہیں:

1۔ امریکہ نے "محورِ شر" سے مذاکرات کیوں قبول کئے؟
2۔ ایران نے "شیطانِ اکبر" سے مذاکرات کیوں کئے؟

امریکہ اور محورِ شر: شکست کے اعتراف سے مذاکرات تک
وہی امریکہ جو کبھی غرور سے "محورِ شر" کا نعرہ لگا کر ایران، شمالی کوریا اور دیگر اقوام کو دھمکاتا تھا، آج انہی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ یہ تبدیلی کسی اخلاقی یا اصولی پالیسی کا نتیجہ نہیں بلکہ ناکامیوں کے ایک طویل سلسلے کا انجام ہے۔ پابندیاں، اقتصادی جنگیں، میڈیا پروپیگنڈا، حتیٰ کہ ٹارگٹ کلنگز بھی امریکہ کو اس کے مقاصد میں کامیاب نہ کر سکیں۔ ایران نہ صرف قائم رہا بلکہ اس نے اپنے دفاعی، ایٹمی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خود کو مزید مستحکم کرلیا۔ شمالی کوریا نے کھلے عام امریکہ کو چیلنج کیا اور ایٹمی قوت حاصل کی اور امریکہ خاموشی سے تماشائی بن گیا۔ عراق میں شکست، افغانستان سے ذلت آمیز انخلا، یوکرین میں الجھن اور امریکہ کی داخلی معاشی و سیاسی ابتری نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ اب دھمکیوں کے بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کرے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اُن اقوام کو تسلیم کر لیا ہے، جنہیں وہ کبھی ختم کرنا چاہتا تھا۔ یہ مذاکرات دراصل طاقت کے اعتراف ہیں، نہ کہ کسی امریکی احسان کا نتیجہ۔ دنیا کا توازن بدل چکا ہے، اب امریکہ تنہا سپر پاور نہیں رہا۔ چین، روس اور ایران کی قیادت میں ابھرنے والا مزاحمتی بلاک نئی عالمی حقیقت بن چکا ہے جو نہ دھمکیوں سے ڈرتا ہے، نہ امداد پر جیتا ہے۔ امریکہ نے "محورِ شر" کا بیانیہ مجبوری میں چھوڑا اور انہی اقوام کے سامنے مذاکرات کی میز پر بیٹھا جنہیں وہ ختم کرنا چاہتا تھا۔ کیا یہ امریکہ کی فتح ہے؟ یا پھر اس کی عالمی ناکامیوں کا کھلا اعتراف؟

ایران اور شیطانِ اکبر: مزاحمت سے مذاکرات تک
جہاں امریکہ کی جانب سے مذاکرات کا فیصلہ شکست کا مظہر ہے، وہیں ایران کا مذاکرات میں شامل ہونا ایک حکمتِ عملی کا حصہ ہے، نہ کہ کسی دباؤ کا نتیجہ۔ ایران نے چالیس سالہ پابندیوں، بین الاقوامی دباؤ، پراکسی جنگوں اور ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود اپنی خودمختاری برقرار رکھی۔ اس نے نہ صرف اپنی بقاء کو یقینی بنایا بلکہ لبنان، شام، عراق اور یمن میں اپنے اتحادیوں کی حمایت جاری رکھی اور ایک منظم مزاحمتی نظام تشکیل دیا۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو دبانے کی ہر کوشش ناکام ہوئی اور آج وہ ایٹمی دہلیز کے قریب پہنچ چکا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں امریکہ کے لیے ایران کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔

اب مذاکرات ایران کے لیے کمزوری نہیں بلکہ اپنی شرائط منوانے کا ایک ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایران نہ صرف عسکری طور پر مستحکم ہوا ہے بلکہ اس نے خطے میں ایک نظریاتی بلاک قائم کر دیا ہے جو امریکی و اسرائیلی منصوبوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ "شیطانِ اکبر" کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ سامنے صرف ایک ملک نہیں، ایک مضبوط اور باعقیدہ مزاحمتی بلاک کھڑا ہے۔ ایران مذاکرات اس لیے نہیں کر رہا کہ وہ امریکہ سے خوفزدہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اب امریکہ سے آگے بڑھ چکا ہے۔ امریکہ اس لیے مذاکرات پر آمادہ ہوا ہے کیونکہ وہ ایران کو شکست نہیں دے سکا۔

ایران کو نظرانداز کرنے کا مطلب مشرقِ وسطیٰ میں مزید پسپائی ہے اور یہ امریکہ اب مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات درحقیقت طاقت کے نئے عالمی توازن کی ایک علامت ہیں۔ امریکہ کا جھکاؤ مجبوری ہے جبکہ ایران کی شرکت تدبیر۔ جنہیں کبھی "محورِ شر" کہا گیا، وہ آج عالمی پالیسیوں کے تعین میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور جو کبھی "شیطانِ اکبر" کہلاتا تھا، وہ آج مزاحمتی بلاک کے سامنے شرائط سننے پر مجبور ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مزاحمتی بلاک سے مذاکرات اور امریکہ مذاکرات کی ہے بلکہ اس امریکہ کے ہے کیونکہ امریکہ سے ایران اور ایران کو کر رہا ہوا ہے چکا ہے اس لیے

پڑھیں:

اپوزیشن اتحاد نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے: محمود خان اچکزئی

---فائل فوٹو 

تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کا مقصد حکومت کو عوامی طاقت سے ختم کرنا ہے، اپوزیشن نے 31 جولائی کو اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

محمود خان اچکزئی نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ اتحاد کھیل تماشے کے لیے نہیں بنایا،  غیرجانبدار الیکشن کمیشن کے ذریعے عوامی نمائندگی کو تسلیم کیا جائے، اس اتحاد کا مقصد حکومت کو عوامی طاقت سے ختم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس جماعت نے انتخابات جیتے اس کے رہنماؤں کو جیل میں قید قیادت سے نہیں ملنے دیا جاتا، جس انداز سے شہباز اینڈ کمپنی نے طاقت سے عوام پر تسلط قائم کیا یہ قابل قبول نہیں۔

محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہوتی تو مخصوص نشستوں والا فیصلہ نہ آتا، کسی دوسری پارٹی نے مخصوص نشستوں کی مذمت نہیں کی، پاکستان میں عوام کے  ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی ویڈیو آئی، ایک گن شپ ہیلی کاپٹر زمین پر بھاگتے بچوں کو مار رہا ہے، غزہ میں قتل عام ہوا اسرائیلی وزیرِ اعظم کو عالمی عدالت سے سزا ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • استنبول: ایران اور یورپی ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات دوبارہ شروع
  • عمران خان کے بیٹے امریکہ گئے نہیں بلکہ فیلڈ مارشل کے لنچ کے بعد بلائے گئے ہیں : حیدر نقوی 
  • سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دے چکے، فیصلہ بھارت کو کرنا ہوگا، پاکستان
  • یورینیم کی افزودگی جاری رہیگی، استنبول مذاکرات کے تناظر میں سید عباس عراقچی کا بیان
  • اپوزیشن اتحاد نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے: محمود خان اچکزئی
  • عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں: اقرارالحسن
  • ایران اور امریکی جنگی جہاز ایک مرتبہ پھر بحر عمان میں آمنے سامنے آگئے
  • چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی مذاکرات سویڈن میں ہوں گے، ترجمان چینی وزارت تجارت
  • امریکہ کی ایکبار پھر ایران کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش
  • بیساکھیوں کی سیاست۔ مفاہمت یا مجبوری؟