بغیر ایف آئی آر گرفتاری ہو سکتی ہے نہ مجسٹریٹ آرڈر کے بغیر زیر حراست رکھا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کور ٹ میں ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بغیر گرفتاری ہو سکتی ہے نہ ہی مجسٹریٹ کے آرڈر کے بغیر کسی کو حراست میں لیا جاسکتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے کہا 20 منٹ تک اپنے دلائل مکمل کر لیں۔خواجہ حارث نے کہا کوشش کرونگا آج دلائل مکمل کر لوں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ؛ 9 مئی مقدمات میں ملزمان کی ضمانت منسوخی کی اپیلوں پر سماعت
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ اگر وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل آج مکمل ہوئے تو اٹارنی جنرل کل دلائل دیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ایکٹ میں بھی کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، رینجرز اور ایف سی اہلکار نوکری سے نکالے جانے کے خلاف سروس ٹربیونل سے رجوع کرتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا پولیس میں آئی جی اپیل سنتا ہے یا ایس پی کیس چلاتا ہے، بھارت میں بھی آزادانہ فورم دستیاب ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا 9 مئی واقعات کے ملزمان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوئے، فوج نے براہ راست کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی، انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے ذریعے سویلین کی حوالگی فوج کو دی گئی،حراست میں دینا درست تھا یا نہیں یہ الگ بحث ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق مقدمات کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیٔے اس کیس کے مستقبل کیلئے بہت گہرے اثرات ہونگے،ایف بی علی کیس پر آج بھی اتنی دہائیوں بعد بحث ہو رہی ہے۔
آئینی بنچ نے سربراہ نے کہا خواجہ حارث کے بعد آج ہی اٹارنی جنرل کو بھی سنیں گے۔ خواجہ حارث نے کہا ججز کے سوالات زیادہ نہ ہوتے تو آج ہی مکمل کر لیتا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا اس کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دیں کسی کو سوال نہیں کرنے دوں گی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا میں یقین دلاتا ہوں اب کوئی سوال نہیں کروں گا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا آپ نے فیصل صدیقی کو ایف بی علی کا نام لینے سے روکا تھا، اب ہر روز ایف بی علی کا نام لیا جاتا ہے۔کیس کی سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے دوبارہ ہوگی ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث نے کہا
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔