اسرائیلی فوج فرار کے لیے تیار
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: میدان جنگ میں فوجیوں کی غیر موجودگی نے فوج کی آپریشنل صلاحیت کو کم کر دیا ہے اور ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس رجحان کے جاری رہنے سے اسرائیلی معاشرے میں ایک گہرا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ معاشرتی اور سماجی عدم اطمینان، خاص طور پر فوجی خاندانوں میں بے دلی، فوج میں خدمات انجام دینے کی خواہش کا کم ہونا اور داخلی تناؤ میں اضافے ایک بڑے بحران کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ بحرانی صورتحال، خاص طور پر اسوقت جب اسرائیل کو سکیورٹی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، اسے خانہ جنگی کے قریب لے جا سکتی ہے۔ یہود اولمرٹ نے بھی اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا تھا کہ وہ ایک خانہ جنگی کے قریب پہنچ گیا ہو اور اسے داخلی خطرات نے گھیر لیا ہو۔ تحریر: اتوسا دیناریان
اسرائیلی فوج میں بڑھتے ہوئے عدم اطمینان اور بعض داخلی بغاوتوں کے نتیجے میں اس فوج کو ایک تاریخی بحران کا سامنا ہے۔ صیہونی فضائیہ کے پائلٹوں کے احتجاجی خط اور سابق فوجیوں کے احتجاج میں شامل ہونے سے اسرائیلی حکام کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی گئی ہے۔ اس عمل سے نیتن یاہو سے فوج کی عدم وفاداری کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بحران نہ صرف اسرائیل کی فوجی طاقت کو کمزور کرے گا بلکہ اس کے گہرے سیاسی اور سماجی نتائج بھی مرتب ہوں گے۔ حکومت کی پالیسیوں اور جنگی حالات سے فوجیوں کی ناراضگی اسرائیل میں داخلی عدم استحکام اور بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
غزہ میں جنگ کے دوبارہ شروع ہونے اور ہلاکتوں میں اضافے کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج میں عدم اطمینان عروج پر پہنچ گیا ہے۔ بہت سے فوجی، خاص طور پر درمیانی رینکس کے اور بالخصوص ریزرو فورسز میں، حکومت پر عدم اعتماد اور اپنے مشن کے بے معنی ہونے کی وجہ سے فوج میں خدمات انجام دینے سے نفرت پیدا ہو رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریزرو فورسز کے فوجی واپس ڈیوٹی پر جانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ صورتحال اسرائیلی فوج میں گہری خلیج اور نیتن یاہو کی پالیسیوں سے عوامی ناراضگی کی واضح علامت ہے۔ حالیہ مہینوں میں دو ہزار سے زائد اسرائیلی فوجیوں نے فوج چھوڑ دی ہے، جبکہ فضائیہ کے پائلٹوں اور سابق فوجیوں کی ایک بڑی تعداد نے غزہ میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے میں شمولیت اختیار کی۔
نیتن یاہو کو فوجی وفاداری میں کمی اور معاشرتی عدم اطمینان میں اضافہ
میدان جنگ میں فوجیوں کی غیر موجودگی نے فوج کی آپریشنل صلاحیت کو کم کر دیا ہے اور ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس رجحان کے جاری رہنے سے اسرائیلی معاشرے میں ایک گہرا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ معاشرتی اور سماجی عدم اطمینان، خاص طور پر فوجی خاندانوں میں بے دلی، فوج میں خدمات انجام دینے کی خواہش کا کم ہونا اور داخلی تناؤ میں اضافے ایک بڑے بحران کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ بحرانی صورتحال، خاص طور پر اس وقت جب اسرائیل کو سکیورٹی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، اسے خانہ جنگی کے قریب لے جا سکتی ہے۔ یہود اولمرٹ نے بھی اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا تھا کہ وہ ایک خانہ جنگی کے قریب پہنچ گیا ہو اور اسے داخلی خطرات نے گھیر لیا ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خانہ جنگی کے قریب اسرائیلی فوج فوجیوں کی بحران کا ہے کہ اس فوج میں سے فوج
پڑھیں:
ویمنز ورلڈکپ: بی سی سی آئی نے پاک بھارت کھلاڑیوں کے مصافحے سے راہِ فرار اختیار کرلی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) نے ایک بار پھر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئی سی سی ویمنز ورلڈکپ سے قبل پاکستان ٹیم کے ساتھ مصافحے کے معاملے پر اپنا مؤقف پیش کر دیا ہے۔
بھارتی بورڈ کے مطابق 5 اکتوبر کو سری لنکا کے شہر کولمبو میں شیڈول پاک بھارت ویمنز میچ میں کھلاڑیوں کے درمیان ہاتھ ملنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بی سی سی آئی کے سیکرٹری دیوجیت سائیکیا نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کے حوالے سے بورڈ کی پالیسی وہی ہے جو گزشتہ ہفتے ایشیا کپ کے دوران اختیار کی گئی تھی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کرکٹ کے تمام بین الاقوامی قوائد و ضوابط پر عمل کیا جائے گا، تاہم بھارت اور پاکستان کی کھلاڑیوں کے آپس میں ہاتھ ملانے سے متعلق کوئی یقین دہانی نہیں دی جا سکتی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ ایشیا کپ کے دوران بھی بھارتی ٹیم نے میچ سے قبل پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کر کے کھیل کو سیاست کی نذر کر دیا تھا۔ اس رویے پر شائقین اور ماہرین کرکٹ نے بھارتی ٹیم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اب ورلڈکپ میں بھی اسی قسم کے مؤقف کے باعث خدشہ ہے کہ ایک بار پھر اسٹیڈیم کے ماحول پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاک بھارت میچ ویمنز ورلڈکپ کے اہم ترین مقابلوں میں سے ایک سمجھا جا رہا ہے اور دونوں ملکوں کے کرکٹ شائقین اس کے شدت سے منتظر ہیں، تاہم بی سی سی آئی کا یہ رویہ کھیل کی روح کے خلاف سمجھا جا رہا ہے اور کرکٹ سے وابستہ حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے، سیاست کو اس میں شامل کر کے کھلاڑیوں کے درمیان کھیل کے جذبے کو متاثر نہ کیا جائے۔