جعفر ایکسپریس حملہ: ہلاک 23 دہشتگردوں کی ڈی این اے سیمپلنگ کرلی گئی
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
— فائل فوٹو
جعفر ایکسپریس حملہ کیس میں ہلاک کیے گئے 23 حملہ آوروں کی ڈی این اے سیمپلنگ کرلی گئی۔
سی ٹی ڈی کے مطابق کسی بھی فیملی ممبر کی جانب سے ابھی تک رابطہ نہیں کیا گیا، ڈی این اے سیمپلنگ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی فیملی رابطہ کرے تو ان کی شناخت ممکن ہوسکے۔
جعفر ایکسپریس حملے کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری آج سہ پہر ساڑھے 3 بجے اہم پریس کانفرنس کریں گے۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے امریکی اخبار کی تحقیقات میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں افغانستان کو دیا گیا امریکی اسلحہ استعمال ہونے کے پاکستان کے دعوے کی تصدیق ہوگئی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سال 2018 میں امریکا میں بننے والی M4A1 رائفل گزشتہ ماہ بلوچستان ٹرین حملے کے بعد حملہ آوروں کے پاس سے برآمد ہوئی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
آغا سید جعفر نقوی، روحانی تربیت کا روشن چراغ
اسلام ٹائمز: وہ عارف باللہ تھے، یعنی وہ خدا کو صرف کتابوں کے ذریعے نہیں دل اور روح کے ذریعے پہچاننے والے تھے۔ انکے چہرے سے نور جھلکتا تھا اور انکی گفتگو میں دلوں کو ہلا دینے والی حرارت ہوتی تھی۔ آغا جعفر امام خمینی (رح) کے سچے پیروکار تھے۔ انہوں نے ہمیشہ امام خمینی کے انقلابی افکار کو اپنایا اور انہیں نوجوانوں تک پہنچایا۔ وہ انقلابی جوانوں کے درمیان ایک ایسا درخت بن گئے، جسکی چھاؤں میں نظریاتی تربیت، تقویٰ اور ولایتی شعور پروان چڑھا۔ انکی شخصیت ایسی تھی کہ نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام نے متقین کی جو صفات بیان کی ہیں، وہ اکثر ان میں دیکھی جا سکتی تھیں، وہ علم کیساتھ عمل اور فکر کے ساتھ درد دل رکھتے تھے۔ تحریر: آغا زمانی
یہ 1995ء کی بات ہے۔ میں نیشنل کالج کراچی میں نیا نیا داخل ہوا تھا۔ ہر جمعہ کلاس کے بعد ایک تربیتی درس کا اہتمام ہوتا تھا، جو آئی ایس او کراچی ڈویژن نیشنل کالج یونٹ کے تحت منعقد کیا جاتا تھا۔ درس سے پہلے کوئی نعت یا منقبت خوانی کی جاتی، پھر کسی عالمِ دین کا فکری یا اخلاقی درس ہوتا۔ یہ درس میرے لیے نئی دنیا کے دروازے کھولنے والا تھا۔ انہی دنوں میرا تعارف آئی ایس او کے سینیئر برادر اسد عباس بخاری سے ہوا، وہ میرے محسن بھی بنے۔ انہی کی صحبت سے میں ڈاکٹر علی شریعتی کی کتب سے آشنا ہوا اور کئی فکری مباحثوں کا حصہ بنا۔ اکثر ہم درس کے بعد مرزا قلیچ بیگ نمائش کے علاقے میں ایک خاص مقام پر جایا کرتے۔ یہ ایک سادہ سا گھر تھا، جس کے صحن میں ایک تخت رکھا ہوتا اور اسی تخت پر بیٹھ کر علم و تقویٰ کا مجسمہ، استادِ عرفان، عاشق امام خمینی (رح) مولانا سید آغا جعفر نقوی درس دیا کرتے۔
آغا صاحب کا درس مختصر مگر جامع ہوتا۔ وہ پہلے مولا علی علیہ السلام کے کلماتِ قصار میں سے ایک قول بیان کرتے، پھر اس کی شرح فرماتے۔ اس کے بعد امام خمینی (رح) کی تحریر الوسیلہ سے ایک فقہی مسئلہ بیان کرتے اور نہایت سادگی سے اس پر روشنی ڈالتے۔ ان کا انداز بے حد دوستانہ، نرم اور دل نشین ہوتا تھا۔ ایک دن کا واقعہ آج بھی میرے دل میں تازہ ہے، چند لڑکے صحن میں رکھے تخت پر لیٹے ہوئے تھے۔ جیسے ہی آغا جعفر صاحب کمرے سے باہر آئے، وہ سب احتراماً فوراً اٹھ کر بیٹھ گئے۔ آغا صاحب مسکرائے، ان کے درمیان آ کر بیٹھے اور نہایت محبت سے فرمایا، جیسے لیٹے تھے، ویسے لیٹے رہیں، آپ تھکے ہوں گے، کالج سے آئے ہیں، کچھ دیر آرام کریں۔ میں اندر جاتا ہوں، پھر نماز پڑھاتے ہیں۔ وہ واپس کمرے میں چلے گئے اور لڑکے آرام کرنے لگے۔ نماز کے وقت آئے، امامت کرائی، پھر اپنے ہاتھوں سے سب طلبہ کو چائے بنا کر پیش کی۔ ان کے اس عمل نے ہمیں سکھایا کہ دین صرف علم نہیں، بلکہ کردار، محبت اور خدمت کا نام ہے۔
ایک اور واقعہ آج بھی ذہن میں گونجتا ہے۔ ایک نوجوان نے لمبی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔ آغا صاحب نے درس کے بعد مسکرا کر کہا، اگر آپ مونچھیں تھوڑی چھوٹی کریں تو آپ پر بہت جچیں گی۔ اگلی نشست میں وہ نوجوان مونچھیں چھوٹا کرکے آیا۔ بعد میں کسی نے آغا صاحب سے پوچھا: “آپ نے اُسے مکروہ یا ناپسندیدہ کیوں نہیں کہا؟” آغا صاحب مسکرا کر بولے، اگر میں کراہت کہتا، شاید وہ نہ مانتا۔ لیکن جب میں نے اس کے ذوقِ جمال سے بات کی تو اس نے خود اپنا رویہ بدل لیا۔ یہ تھا آغا جعفر نقوی کا حکمت بھرا اندازِ تربیت۔ آپ نہایت سادہ اور بے تکلف انسان تھے۔ پروٹوکول اور ظاہری نمائش سے کوسوں دور رہتے، وہ ایسے بھی مقامات پر درس دینے چلے جاتے، جہاں صرف 10 یا 12 طلبہ ہوتے۔ فرماتے، تعداد اہم نہیں، تربیت اور تقویٰ اہم ہے۔
آغا صاحب جسامت کے اعتبار سے نحیف اور کمزور انسان تھے، مگر روحانی طور پر بہت قوی تھے۔ ان کے کئی شاگرد آج ایران و عراق میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ وہ خاموشی سے مستحق طلبہ کی مالی مدد کیا کرتے، مگر کبھی کسی پر احسان نہ جتاتے۔ آج آغا سید جعفر نقوی کو ہم سے بچھڑے 22 برس گزر چکے ہیں، مگر ان کی یادیں، ان کی نصیحتیں اور ان کی خوشبودار شخصیت ہمارے دلوں میں آج بھی ایک روشن چراغ کی طرح جل رہی ہے۔ وہ چراغ جو نہ صرف ہمیں راستہ دکھاتا ہے بلکہ ہمارے دلوں کو بھی گرما دیتا ہے۔ آغا جعفر نقوی 4 اپریل 1937ء کو بھارت کے شہر بہار کے ایک علمی و دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والد مولانا سید علی حیدر نقوی خود ایک جلیل القدر عالم تھے۔ آغا جعفر کے بھائی علامہ سید رضی جعفر نقوی بھی اہل علم و فکر میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔
بچپن سے ہی آغا جعفر کا رجحان دین، عبادت اور مطالعے کی طرف تھا۔ علم کی جستجو انہیں دینی مدارس تک لے گئی، جہاں انہوں نے خود کو نہ صرف ایک طالب علم بلکہ ایک سچے عاشقِ اہل بیت علیہم السلام کی طرح پروان چڑھایا۔ ان کی زندگی کا ایک بڑا رنگ عرفان تھا۔ وہ عارف باللہ تھے، یعنی وہ خدا کو صرف کتابوں کے ذریعے نہیں دل اور روح کے ذریعے پہچاننے والے تھے۔ ان کے چہرے سے نور جھلکتا تھا اور ان کی گفتگو میں دلوں کو ہلا دینے والی حرارت ہوتی تھی۔ آغا جعفر امام خمینی (رح) کے سچے پیروکار تھے۔ انہوں نے ہمیشہ امام خمینی کے انقلابی افکار کو اپنایا اور انہیں نوجوانوں تک پہنچایا۔ وہ انقلابی جوانوں کے درمیان ایک ایسا درخت بن گئے، جس کی چھاؤں میں نظریاتی تربیت، تقویٰ اور ولایتی شعور پروان چڑھا۔ ان کی شخصیت ایسی تھی کہ نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام نے متقین کی جو صفات بیان کی ہیں، وہ اکثر ان میں دیکھی جا سکتی تھیں، وہ علم کے ساتھ عمل اور فکر کے ساتھ درد دل رکھتے تھے۔
قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رح) سے ان کا عشق ایسا تھا، جو ان کی شخصیت کا خاصہ بن چکا تھا۔ آغا جعفر نقوی صرف پڑھانے والے استاد نہیں تھے، وہ ایک رہنماء تھے۔ ان کے شاگرد آج بھی معاشرے میں فعال نظر آتے ہیں، کہیں خطابت میں، کہیں تدریس میں، کہیں تحریکوں میں اور کہیں مسجد و محراب میں، مگر ایک چیز جو ان سب میں مشترک ہے، وہ ہے خوفِ خدا، فکری پختگی اور ولایتی بصیرت۔ 7 جون 2003ء کو طویل علالت کے بعد آغا جعفر نقوی (رح) نے اس دنیا سے رخصت لی، مگر درحقیقت وہ گئے نہیں۔ وہ آج بھی اپنے شاگردوں کی صورت میں اپنی تعلیمات کی صورت میں اور اپنے کردار کی خوشبو کے ذریعے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ آغا جعفر ایک چراغ تھے جو ظاہراً بجھ چکا ہے، لیکن بجھنے سے پہلے اس چراخ سے کئی اور چراغ روشن ہو چکے ہیں۔ (ہفتہ، 7 جون 2025ء/10 ذی الحجہ 1446ھ)