اسلام آباد(نیوز ڈیسک) کیسپرسکی کی جانب سے کرائے گئے ایک حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق، 11-17 سال کی عمر کے 48 فیصد بچے اپنی آن لائن سرگرمیاں اپنے والدین اور دیگر بڑوں سے چھپاتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے، 28 فیصد نوجوان اپنے تمام آلات پر پاس ورڈ سیٹ کرتے ہیں، جب کہ 20 فیصد انٹرنیٹ تک ہر ایک رسائی کے بعد براؤزنگ ہسٹری کو ڈیلیٹ کر دیتے ہیں تاکہ خاندان کے دیگر افراد یہ چیک نہ کر سکیں کہ وہ آن لائن کیا کر رہے ہیں۔ اور 16 فیصد آن لائن جانے کو ترجیح دیتے ہیں جب ان کے والدین آس پاس نہ ہوں۔

57فیصد نوجوانوں یہ نہیں چاہتے کہ ان کے والدین یہ جانیں کہ وہ حقیقت میں انٹرنیٹ پر کتنا وقت گزارتے ہیں، یا وہ کون سی ویب سائٹس اکثر کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ 25 فیصد بچے جارحانہ یا بالغ مواد والی ویب سائٹس پر جانے کے بارے میں معلومات چھپاتے ہیں۔

کیسپرسکی میں مشرق وسطیٰ، ترکی اور افریقہ میں صارفین کے چینل کے سربراہ سیف اللہ جدیدی کہتے ہیں کہ یہ بات قابل فہم ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تمام آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی نہیں کر سکتے۔ تاہم ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس کے بجائے، بچوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنا اور برقرار رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ ان کے ساتھ ان کے تجربات بشمول ان کی ڈیجیٹل زندگی سے متعلق باقاعدگی سے بات چیتکرنا،، ضروری ہے۔ بچوں کے موبائل پر کنٹرول رکھنے کی غرض سے سافٹ وئیر رکھنا ایک سمجھدار احتیاط ہے جس کے ساتھ آپ دوسری چیزوں کے ساتھ، ڈیوائس اور اس پر موجود ڈیٹا کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ یہ والدین کو یہ کنٹرول کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ ان کے بچے کن سائٹس پر جاتے ہیں اور کون سے گیمز کھیلتے ہیں، ساتھ ہی فائل ڈاؤن لوڈ کی اجازت دینے، ناپسندیدہ موضوعات پر مواد تک رسائی کو روکنے اور خفیہ معلومات کے افشاء کو روکنے کی اجازت دیتا ہے۔

کیسپرسکی تجویز کرتا ہے کہ تازہ ترین خطرات کے بارے میں باخبر رہنے اور فعال طور پر اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنے سے، والدین اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ آن لائن ماحول بنا سکتے ہیں۔ کسیپرسکی کی ڈیجیٹل پیرنٹنگ ایپ سیف کڈز جیسے صحیح ٹولز کے ساتھ، والدین اپنے بچوں کو ڈیجیٹل اسپیس میں سائبر خطرات سے مؤثر طریقے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

مزیدپڑھیں:بھارتی میڈیا کا فواد خان کے معاوضے سے متعلق حیران کن دعویٰ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اپنے بچوں آن لائن کے ساتھ

پڑھیں:

دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی

کراچی میں بارشوں کا موسم آتے ہی ایک ہڑبونگ مچ جاتی ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر ہر طرف بس اس ہی سے متعلق خبریں نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خوف اور واویلا بپا ہوتا ہے کہ شہر ڈوب رہا ہے، قیامت آگئی ہے، سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، ہر بار یہی منظر نامہ دہرایا جاتا ہے۔ میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں کہ کیا بارش اور دریا واقعی آفت ہیں؟ یا آفت وہ ہے جو ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے پیدا کی ہے؟

میں نے اس موضوع پر پہلے بھی لکھا ہے۔ جب لاہور میں دریائے راوی کو بلڈرز اور طاقتور طبقوں نے اپنے مفاد کی خاطر نوچ ڈالا، اس کے کنارے پر پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں اور دریا سے بہنے کا حق چھین لینے کی کوشش کی تو میں نے تب بھی دل گرفتہ ہو کر قلم اٹھایا تھا۔ آج جب کراچی کے لوگوں کو ملیر اور لیاری ندیوں کے بہاؤ سے خوفزدہ دیکھتی ہوں تو دل اور زیادہ اداس ہوتا ہے۔ یہ اداسی اس وقت اور گہری ہو جاتی ہے جب میں اپنے ہی شہر کے باسیوں کی بے بسی اور بے خبری دیکھتی ہوں۔

کراچی کے بزرگوں سے پوچھیے تو وہ بتائیں گے کہ ملیر اور لیاری موسمی دریا صدیوں سے اس خطے کے دھڑکتے ہوئے دل تھے۔ یہ وہ ندیاں ہیں جنھوں نے اس شہر کے وجود کو سنوارا۔ جب برسات کے موسم میں بادل کھل کر برستے تھے تو یہ ندیاں زندگی کا گیت گاتی ہوئی بہتی تھیں، ان کا شور تباہی نہیں بلکہ حیات کی ایک نغمگی تھی۔ مچھیرے،کاشتکار، عام شہری سب ان ندیوں کے ساتھ جیتے تھے، ان سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ ان کے بہاؤ کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے۔

میں نے اپنی آنکھوں سے ملیر کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں۔ مول (Mol) تھڈو (Thaddo) سکن (Sukhan)، لنگیجی (Langheji) یہ سب برسات کے دنوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہتی تھیں، ان کا شور افراتفری نہیں تھا بلکہ فطرت کا سنگیت تھا۔

پھر ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ان ندیوں کو کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا، ان کے کنارے پر پارکنگ پلازہ بنا دیے، ہم نے ان کے راستے میں کنکریٹ کے جنگل اگا دیے۔ ہم نے یہ سوچے بغیر زمین بیچ ڈالی کہ پانی بھی اپنی راہ چاہتا ہے۔یہی اصل آفت ہے۔ بارش آفت نہیں، دریا آفت نہیں، آفت وہ بے حسی ہے جو ہم میں سرایت کرگئی ہے۔ ہم نے فطرت کے ساتھ دشمنی مول لی ہے اور اب جب فطرت اپنا راستہ تلاش کرتی ہے تو ہم چیخ اٹھتے ہیں کہ تباہی آگئی۔

مجھے یاد ہے کہ لاہورکے راوی کے ساتھ بھی یہی ظلم ہوا۔ بلڈرز نے خواب بیچنے کے نام پر دریا کی سانس روک دی۔ لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کرگھر بنانے گئے اور آج وہ سیلاب کا شکار ہیں۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا، دریا کو بہنے دو، کیونکہ اگر ہم دریا کا راستہ روکیں گے تو وہ ایک دن اپنی پرانی پگڈنڈی ڈھونڈ لے گا، فطرت کی یاد داشت انسان سے کہیں زیادہ گہری ہے۔

کراچی کی ملیر اور لیاری ندیاں بھی یہی پیغام دے رہی ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلا رہی ہیں کہ شہرکی بنیادیں فطرت کی شرائط پر رکھی گئی تھیں، ہمارے لالچ اور بدنظمی پر نہیں۔ آج یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دے رہی ہیں کہ تم چاہے کتنے ہی اونچے پل، فلائی اوور یا ہاؤسنگ اسکیمیں بنا لو، پانی اپنا راستہ ڈھونڈ لیتا ہے۔

لیاری ندی کے کنارے کبھی بستیاں تھیں، ماہی گیروں کے گاؤں تھے۔ بچے ان کے پانی میں کھیلتے تھے، آج وہی لیاری ندی کچرے، گندگی اور زہریلے پانی سے بھرا ایک خوفناک نالہ بن چکا ہے اور جب بارش کے دنوں میں یہ اپنے پرانے جلال کے ساتھ بہنے لگتی ہے تو شہری چیخنے لگتے ہیں کہ شہر ڈوب رہا ہے۔ نہیں شہر ڈوب نہیں رہا شہر کو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے غرق کیا ہے۔میں جب یہ سب دیکھتی ہوں تو دل پر بوجھ سا بڑھ جاتا ہے۔ لکھنے کو دل چاہتا ہے اور ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کتنی بار لکھوں کسے جھنجھوڑوں؟ لیکن پھر بھی قلم اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ خاموش رہنا ممکن نہیں۔

یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ فطرت دشمن نہیں ہے۔ دشمن وہ نظام ہے جس نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زمین کو بیچ ڈالو، پانی کے راستے پر قبضہ کر لو، ہر چیز کو منافع میں تول دو۔ اسی نظام نے ہمارے شہروں کو قبرستان بنا دیا ہے۔

کراچی کے لوگ بارش سے ڈرتے ہیں۔ وہ لیاری اور ملیر کے بہاؤ سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اصل ڈر ان حکمرانوں سے ہونا چاہیے جنھوں نے اس شہر کا سانس گھونٹ دیا ہے۔ اصل ڈر ان بلڈرز اور لینڈ مافیا سے ہونا چاہیے جنھوں نے دریا کی زمین کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اصل ڈر اس اندھے ترقی کے تصور سے ہونا چاہیے جو فطرت کو روند کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔

ملیر اور لیاری کی ندیاں ہمارے خلاف نہیں، ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کی بقا کے لیے فطرت کے ساتھ چلنا ہوگا، اس کے خلاف نہیں۔ بارش ہو یا دریا کا بہاؤ یہ آفت نہیں یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی لالچ، بدنظمی اور کوتاہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں بار بار سمجھاتی ہیں کہ تم نے اگر اپنے راستے درست نہ کیے تو ایک دن تمہاری بستیاں، تمہاری عمارتیں اور تمہاری سڑکیں سب پانی کی لپیٹ میں آجائیں گی۔

یہ دریا ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی شہری منصوبہ بندی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ ہمیں کچرے کے ڈھیروں کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ندیاں ہماری دشمن نہیں بلکہ ہماری زندگی کی ضامن ہیں۔ میں آج پھر یہی دہرا رہی ہوں یہ کوئی تباہی نہیں ہے، یہ فطرت کی یاد دہانی ہے۔ یہ وہ دستک ہے جو ہمیں جگا رہی ہے۔ کاش کہ ہم جاگ جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

متعلقہ مضامین

  • 74 فیصد پاکستانی ملکی حالات سے پریشان
  • آن لائن گیم میں 13 لاکھ روپے ہارنے پر 14 سالہ بچے کی خودکشی
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • پاکستان کے حالات درست سمت میں نہیں، 74 فیصد شہریوں کی رائے
  • اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 3 فیصداضافہ
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  •  نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
  • بچے کی پیدائش پر اسکی شناخت نہ کروانا بچے کے ساتھ حق تلفی ہے، ترجمان نادرا
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟