دفعہ 370 کی منسوخی میں مدد کیلئے فاروق عبداللہ تیار تھے، ایس اے دلت
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
دفعہ 370 کی منسوخی سے چند دن قبل نریندر مودی کیساتھ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے ایس اے دلت لکھتے ہیں کہ ملاقات کے دوران کیا ہوا، کسی کو کبھی پتہ نہیں چلے گا۔ اسلام ٹائمز۔ جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت مودی حکومت نے 2019ء میں آئین ہند کی دفعہ 370 کو منسوخ کیا اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں نہ صرف تقسیم کیا بلکہ اس کا درجہ گرا دیا، تو مقامی سیاستدانوں نے نئی دہلی پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا۔ ان سیاستدانوں میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے دو سابق وزرائے اعلیٰ اور باپ بیٹے فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ بھی شامل ہیں۔ ان کا الزام تھا کہ دہلی نے کشمیر کے ساتھ دھوکہ بازی کی بالخصوص جس انداز سے یہ فیصلہ لیا اور عملایا گیا۔ تاہم بھارت کے سراغ رساں ادارے ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ یا آر اینڈ اے ڈبلیو "را" کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت نے اپنی نئی کتاب "دی چیف منسٹر اینڈ دی اسپائی۔ این ان لائیکلی فرینڈشپ" میں دعویٰ کیا ہے کہ فاروق ان سے مشورہ کرنے پر "دہلی کے ساتھ کام کرنے" کو تیار تھے۔
اتنا ہی نہیں دلت کے مطابق فاروق عبداللہ نے انہیں بتایا کہ ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں بھی تجویز پاس کر سکتی تھی۔ ایک وزیراعلٰی اور ایک جاسوس کے درمیان انوکھی دوستی پر مشتمل اس کتاب میں دلت نے چند حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں۔ "را" کے سابق سربراہ ایس اے دلت کا کہنا ہے کہ فاروق عبداللہ نے ان سے شکایت کی کہ نئی دہلی نے انہیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔ ہم نے مدد کی ہوتی، دلت نے فاروق عبداللہ کے حوالے سے ان کی تازہ ترین کتاب میں لکھا ہے کہ جب وہ ان سے 2020ء میں ان سیاسی تبدیلیوں کے بعد پہلی بار ملے۔ اس کتاب کو اشاعتی ادارے جیگرناٹ نے شائع کیا ہے۔
ایس اے دلت کہتے ہیں کہ فاروق عبداللہ کو دفعات کی منسوخی اور قید و بند سے بہت گہری چوٹ لگی تھی لیکن انکا یہ کہنا کہ وہ اس اقدام میں "بھارتی حکومت کی مدد" کر سکتے تھے، اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ فاروق عبداللہ ایسی خوفناک سیاسی صورتحال میں جب عوامی دباؤ کا سامنا بھی ہو، کیسے عملی انداز سے سوچنے والے سیاستدان ہیں۔ دفعہ 370 کی منسوخی سے چند دن قبل نریندر مودی کے ساتھ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے ایس اے دلت لکھتے ہیں کہ ملاقات کے دوران کیا ہوا، کسی کو کبھی پتہ نہیں چلے گا کیونکہ فاروق عبداللہ نے یقینی طور پر کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی منسوخی
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے حالات غیر مستحکم
مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کرفیو نافذ کر کے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ کشمیر جنگی جنون میں مبتلا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی بھی مودی سرکار کا ایک ناکام اقدام ثابت ہوا ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال غیر مستحکم و تشویش ناک ہے اور مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، جس سے امن کے دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں آرٹیکل 370 کی منسوخی سمیت مودی کی تمام یکطرفہ پالیسیوں نے عوامی غصے کو بغاوت کی شکل دے دی ہے۔ یاد رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر امت شاہ نے اسے پارلیمنٹ میں تاریخی قدم قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ آرٹیکل 370 ہٹانے سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہو گی امن و یکساں حقوق ملیں گے۔ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ امت شاہ کے یہ دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور مقبوضہ وادی آج بھی سلگ رہی ہے۔ مودی حکومت نے کشمیری عوام اور قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تھا۔ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور دیگر رہنماؤں کو نظربند کیا، جس کے ردعمل میں احتجاج اور تحریکیں شدت پکڑ گئیں۔
مودی کی پالیسیوں کے خلاف جموں و کشمیر اپنی پارٹی جیسی جماعتیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں مودی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور آزادی کی آوازیں مزید بلند ہو رہی ہیں۔ مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کرفیو نافذ کر کے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے۔یہاں تک کہ ہیومن رائٹس واچ نے 2019ء کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دی۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2020ء اور 2021ء میں 200 سے زائد شہری سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں "فیک انکاؤنٹر" میں مارے گئے۔ ہزاروں کشمیری بشمول سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور طلبا کو بغیر الزام یا مقدمے کے گرفتار کیا گیا۔ انسانی حقوق تنظیم کے مطابق اگست 2019ء سے فروری 2020ء تک 7 ماہ کی طویل انٹرنیٹ کی بندش سے زندگی مفلوج رہی اور پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔فوجی کارروائیوں کے دوران تشدد اور ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں مودی کے جبر کیخلاف جاری مزاحمت، آزادی کے لیے کشمیری عوام کے عزم کی عکاسی ہے۔